سندھی صوفیہ کے سلسلۂ راشدی کی ایک شاخ کے بانی پیر پگارا ہیں۔ اس شاخ کے پہلے پیر سید صبغت اللہ اوّل اپنے والد پیر محمد راشد بن سید محمد بقا کی وفات کے بعد مسندِ رشد و ہدایت پر فائز ہوئے اور پیرپگارا صاحب ِ دستار کہلائے۔ آپ 1909ء میں پیدا ہوئے، 12 برس کی عمر میں گدی نشین ہوئے، اور حروں کے چھٹے پیرپگارا منتخب ہوئے۔ آپ کو انگریز سامراج سے شدید نفرت تھی۔ برصغیر میں برطانوی راج سے چھٹکارے کے لیے آپ نے حُر تحریک شروع کی۔ سندھ سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے جن خاندانوں نے قربانیاں دیں اُن میں پیر صاحب کا خاندان سرفہرست ہے۔ سندھ کے علاقے (مکھی جنگل) سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے حُر تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کو برطانوی حکومت نے بغاوت کا نام دے کر آپ کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کرلیا۔ اس مقدمے میں آپ کی وکالت قائداعظم نے کی، مگر انگریزوں نے آپ کو دس سال قید کی سزا سنادی۔ 26 مارچ 1930ء کو آپ کو گرفتار کیا گیا۔ بعدازاں 15 ستمبر 1930ء کو مزید جھوٹے مقدمے رجسٹر کرکے (گڑنگ بنگلو) سے گرفتار کرکے بمبئی ریذیڈنسی سے ملحق رتنا گری جیل میں منتقل کردیا گیا، اور وقفے وقفے سے مختلف جیلوں میں رکھتے رہے۔ 1936ء میں آپ کو ناگپور جیل سے رہا کیا گیا، آپ جیسلمیر کے راستے سکھر پہنچے تو پورا سندھ استقبال کو اُمڈ آیا۔ پیر جو گوٹھ پہنچتے ہی آپ نے ’’کفن یا وطن‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ ایسے میں سرکار برطانیہ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور 24 اکتوبر 1941ء کو کراچی سے گرفتار کرکے سیونی میں ایک بار پھر پابندِ سلاسل کردیا۔
20 مارچ 1943ء کو حیدرآباد جیل میں سولی پر لٹکا کر شہید کردیا اور کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا۔
کراچی پریس کلب میں سورھیا بادشاہ کی شہادت کی برسی کے موقع پر سورھیا بادشاہ اسٹڈی سرکل کے زیراہتمام سیمینار منعقد کیا گیا۔ سورھیا بادشاہ اسٹڈی سرکل کے بانی لطف علی منگریو نے کہا کہ سورھیا بادشاہ اسٹڈی سرکل بنانے کا مقصد صرف حُر تحریک پر صحیح ریسرچ کراکے اس جدوجہد کا صحیح حق ادا کرکے لوگوں تک پہنچانا ہے۔ سورھیا بادشاہ نے انگریزوں کے خلاف اس ملک کے لیے جان کا نذرانہ پیش کیا اور گوریلا جنگ لڑی۔ اس جہاد میں آپ کے ساتھ متعدد حُر شہید ہوئے۔ حُر تحریک سانگھڑ سے شروع ہوئی۔
نصیر اعجاز نے کہا کہ حروں کو گرفتار کرکے ’’لوڑھوں‘‘ میں رکھا گیا، اُس زمانے میں پریس پر پابندی تھی کہ حُروں پر جو ظلم ہورہا ہے وہ کہیں سامنے نہ آئے۔ آپ کی گدی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ گدی قائم نہ رہے۔ اس لیے سندھ میں انگریزوں نے اپنے لوگ پیدا کیے جو حروں کے خلاف تھے۔ اُن کو ہر طرح سے نوازا گیا اور خطابات دیے گئے، جب کہ اصل حقائق چھپائے گئے۔ 1990ء تک حروں کو سورھیا بادشاہ کے حوالے سے تقریب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ 78 سال گزر چکے ہیں، اب تو اصل تاریخ کو سامنے لایا جائے۔
محترمہ ممتاز بھٹو نے کہا کہ حر تحریک پڑھنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ حر تحریک کیا ہے، حروں کی قربانیاں کیا ہیں۔ ہمیں اس خاندان کی قربانیوں سے پاکستانیوں کو آگاہ کرنا ہوگا۔
سابق آئی جی سندھ آفتاب نبی نے کہا کہ جب سورھیا بادشاہ نے انگریزوں کی ساری مراعات لینے سے انکار کیا تو انگریزوں نے انہیں شہید کرنے کا تہیہ کرلیا تھا، اور اسی بنیاد پر انہیں مختلف اوقات میں نظربند رکھنے کے بعد ان پر جھوٹے مقدمات بنا کر ان کا عدالتی قتل کیا اور انہیں پھانسی دے کر شہید کیا۔ انگریزوں کو سورھیا بادشاہ کے حروں سے بہت خوف تھا، اس لیے شہید کرنے کے بعد ان کی لاش کو نامعلوم جگہ پر دفن کیا گیا تاکہ حروں کو ان کی لاش نہ مل سکے۔
دانشور قاضی جاوید نے کہا کہ شہید سورھیا بادشاہ برصغیر کے ہیرو ہیں، وہ آزادی پسند لیڈر تھے، حر تحریک برصغیر کی سب سے بڑی تحریک تھی۔ سابق ایم پی اے انور مہر نے کہا کہ حر تحریک پر جو تحقیق ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ سورھیا بادشاہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔
اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے جنرل سیکرٹری سردار رحیم نے کہا کہ سورھیا بادشاہ اسٹڈی سرکل نے جو ذمہ داری لی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ اس سے لوگوں کو سورھیا بادشاہ اور حر تحریک کے بارے میں سچے حقائق جاننے کا موقع ملے گا۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم سورھیا بادشاہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائیں اور وہاں ریسرچ سینٹر قائم کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی ترقی و فلاح و بہبود کے لیے غلامی والے مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا ہوگا، اور اپنے حقوق کے لیے سورھیا بادشاہ کے نظریات پر چلنا ہوگا۔ کریم الیاس منگریو نے کہا کہ سورھیا بادشاہ پر ظلم کرنے پر برطانیہ کو پیر پگارا خاندان سے معافی مانگنی چاہیے۔ سیمینار میں بڑی تعداد میں ارباب علم و دانش نے شرکت کی۔ اس موقع پر معزز مہمانوں کو حر شیلڈز بھی دی گئیں۔