سیرت نگاری کا آغاز و ارتقا

حضرت نبی اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ کا مربوط اور ایمان افروز علم سیرت کہلاتا ہے۔ سیرت کا علم تفسیر و حدیث کے علم سے مختلف ہے، کہ ان دونوں علوم میں حیاتِ طیبہ کے بے شمار واقعات تو موجود ہوتے ہیں لیکن ان میں تاریخی ربط و تسلسل نہیں ہوتا۔
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
آپؐ کی رسالت اور سیرتِ طیبہ کی اہم خوبی ”مکمل عالم گیریت“ ہے۔ آپﷺ ہر دور اور ہر طبقے کے لیے راہ نما بن کر تشریف لائے۔ رنگ و نسل کے فرق سے ہٹ کر ساری انسانیت کے لیے اگر کسی کی سیرت و حیات مشعلِ راہ ہے تو وہ آپﷺ ہی کی ذاتِ گرامی ہے۔
سیرتِ مبارکہ کی ایک خوبی ”جامعیت“ ہے۔ دنیا کا کوئی قائد اپنی جدوجہد اور سیرت و کردار کو اس قدر ہمہ جہت اور ہمہ گیر نہیں بنا سکا جیسے آپؐ نے ہمہ گیر اور ہمہ جہت بنایا۔ آپؐ بیک وقت داعی، قائد، امام، مربی، چیف جسٹس اور حکمران تھے، اور اس کے ساتھ ساتھ بے مثال خاوند، مشفق باپ، بہترین عزیز اور ہمدرد و غم گسار دوست بھی تھے۔ آپؐ کی انہی صفات کا عکس آپؐ کے زیرتربیت صحابہ میں نظر آتا ہے، اور اسی تربیت کی بنیاد پر وہ اقوام کے رہبر و رہنما بنے۔
سیرت کا ایک نمایاں وصف ”محبوبیت“ ہے۔ دنیا میں بڑی بڑی باکمال ہستیاں گزری ہیں، لیکن محبوبیت کا شرف کسی کو میسر بھی آیا تو بڑا محدود اور قلیل وقتی۔ لوگ باکمال ہستیوں کی عزت کرتے ہیں، قومی راہنماؤں کی خاطر غیرت و حمیت کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن وہ ایسی محبت سے محروم ہیں جیسی محبت جاں نثارانِ مصطفیٰ کو آپﷺ سے ہے۔ جاں نثاران تو آپﷺ کی ایک ایک ادا پر جان چھڑکتے ہیں۔
عالمی افکار میں سیرتِ نبوی کا اعجاز
اس وقت دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے پیروکار عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت وغیرہ بالعموم مغربی فکر و فلسفہ سے شکست کھا کر اپنے مذاہب سے منہ موڑ رہے ہیں۔ مذہب کی پیروی اور دین سے محبت کو ہر ملک و قوم میں رجعت پسندی، پس ماندگی اور تنزلی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ اسی وجہ سے پوری دنیا میں جو اخلاق و اقدار فروغ پا رہی ہیں، وہ روحانی سے زیادہ مادی، اور تعمیری سے زیادہ تخریبی ہیں۔
حضرت نبی مکرمﷺ اپنی امت کو انحراف کی پگڈنڈیوں سے بچاکر سنتِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کی وسیع اور کشادہ شاہراہ پر چلانے کے لیے تشریف لائے۔ یہ بھی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ امتِ مسلمہ کا سوادِ اعظم قرن اوّل سے سنت ِ نبوی، صحابہ کرام اور سلف صالحین کی کشادہ راہ پر گامزن رہا، اور شریعت اور سیرتِ نبوی ہمیشہ محفوظ رہی، جبکہ صدیوں کے گرد و غبار میں کوئی بھی مذہب اپنی اصلیت اور مبادیات محفوظ نہ رکھ سکا۔
مطالعہ سیرت حُبِّ نبیؐ کا باعث ہے
سیرت النبیؐ دنیا کی سب سے پیاری، سب سے سچی اور سب سے اعلیٰ سیرت ہے، جس میں سیکڑوں جاں نثار عظیم مقصد کی خاطر متاعِ جان قربان کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کا ورق ورق مہر و وفا اور عظمت و ایثار کے جذبوں سے معمور ہے۔ جس میں جوش و ولولہ بھی ہے اور رقت و عبرت بھی۔ جس میں انسانوں کے لیے بے لاگ عدل وانصاف بھی ہے اور انسانی تہذیب کا اوجِ کمال بھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں:
”ہم اپنے بچوں کو نبوی غزوات کی تعلیم اس طرح دیتے تھے جیسے ہم ان کو قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔“
سیرت نگاری کا آغاز
سیرتِ نبویہ پر اولین باقاعدہ کتاب جو آج بھی اعلیٰ ہے، سیرتِ ابن اسحٰق (م151ھ) ہے۔ ابن ہشام ؒ (م207ھ) نے اس کو نئی ترتیب دی جو سیرت ابن ہشام کے نام سے مشہور ہے۔ اسی دور میں واقدی (م207ھ) اور ابن سعد (م230ھ) نے بھی سیرت پر قلم اٹھایا۔ فنِ سیرت پر ان کی گراں قدر تالیفات بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ ماہرین قافلہِ سیرت کے پیشرو کہلاتے ہیں۔
سیرت نگاروں کے ساتھ ساتھ قدیم مؤرخین جیسے یعقوبی (م292ھ)، مسعودی (م346ھ) اور طبری (م310ھ) نے اپنی اپنی کتبِ تاریخ مرتب کیں تو ان میں اجمالی طور پر سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ ناگزیر تھا۔ مسلم مؤرخین ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہے۔ جن ائمہ کرام نے سیرت کی مستند اور معتمد علیہ روایات کی تدوین میں انسانی بساط کی آخری حد تک جدوجہد کی، وہ محدثین کرام کی جماعت تھی۔ امام بخاریؒ (م256ھ) اور امام مسلمؒ (م261ھ) کی صحیحین میں سیرت سے متعلق نہایت قابلِ اعتماد مواد موجود ہے جس کی نظیر کسی جگہ نہیں ملتی۔
سیرت کے بنیادی مآخذ کی تدوین کے بعد مختلف محدثین وعلماءنے سیرت کے فن کو خوب نکھارا اور اس میں فنی وعلمی پختگی پیدا ہوئی۔ ان میں مشہور نام ابن حزم (م456ھ)، ابن عبد البر(م 463ھ)، قاضی عیاض (م 544ھ)، ابن الجوزی (م597ھ)،عبد الغنی المقدسی (م600ھ) ، ابن قیم (م 751ھ) وغیرہ ہیں۔
قرونِ وسطیٰ میں سیرت نگاری
قرونِ وسطیٰ میں سیرت کے بڑے بڑے مجموعے منصہ شہود پر آئے جو متعدد جلدوں پر مشتمل تھے، جیسے ”متاع الاسماع“ از مقریزی (م845ھ)، ”سبل الہدیٰ“ از صالحی شامی (م942ھ)، ”انسان العیون“ از حلبی (م1044ھ)، ”وفاءالوفاء“از سمہودی (م911ھ)، ”نفائس الدرر“ از الفاسی (م1119ھ) وغیرہ۔
اسی دور میںمختصر مگر جامع کتبِ سیرت کی کئی جلدوں پر مشتمل شروح بھی رقم ہوئیں جیسے امام سُہیلی (م591ھ)، امام زرقانی (م1122ھ)، امام مغلطائی (م 762ھ) وغیرہ ۔انھی عظیم تالیفات اور محکم علمی روایات کی بدولت ”علمِ سیرت“ تفسیر وحدیث کے علوم کی طرح ایک مستقل اور منظم علم قرار پایا ہے۔ امام سُہیلی کی ”الروض الانف“، ابن قیم کی ”زاد المعاد“ اورامام زرقانی کی ”شرح مواہب“ محکم استدلال، گہرے نظم و ضبط اور غزارت علمی کے اعتبار سے ابن حجر کی ”فتح الباری“ اور ”تفسیر قرطبی“ سے کم نہیں۔ یہی خوبیاںان مشاہیر سیرت نگاروں کو بھی امامت کے درجے پر فائز کرتی ہیں۔انھی ائمہ کے دور میں سیرت نگاری اپنے عروج تک پہنچی۔
سیرت کے قدیم مکاتب ِفکر
مؤرخین کے مکتبِ فکر میں واقعات تاریخی ترتیب سے پیش کیے جاتے تھے اور زمانی ربط و تسلسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا، لیکن اُن میں درج شدہ روایات پر نقد و جرح اور صحت وسقم کے متعلق زیادہ بحث و تحقیق نہ ہوتی تھی۔ جیسے واقدی، ابن ہشام، ابن اسحٰق اور ابن سعد کی تالیفات مؤرخین و اہلِ سیر کے مکتب ِفکر سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے ان میں روایات کی صحت اور نقد وجرح کا زیادہ اہتمام نہیںہوا، البتہ ان میں سے ابن ہشام جیسے محتاط ماہرین ِسیرت اپنی روایات کی سندیں بیان کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو ئے۔
محدثین کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی کتبِ سیرت کے مؤلفین و مصنفین بذاتِ خود نامور اور عظیم محدثین اور شارحینِ حدیث تھے۔ اُن کی تالیفات میں سیرت کی تاریخی روایات صحت و استناد کے اعتبار سے مؤرخین سے بہتر انداز میں ہیں، جیسے ابن الجوزی، قاضی عیاض، ابن القیم، ابن حزم، ابن کثیر، ابن عساکر، ابن حبان، ابونعیم، بیہقی، ابن سید الناس، ابن عبدالبر اور دیگر کی تالیفات ہیں۔
سیرت کے جدید دور کے مکاتبِ فکر
بیسویں صدی میں سیرت کا کلامی و ادبی مکتبِ فکر وجود میں آیا۔ کلامی وادبی مکاتبِ فکر کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب بیسویں صدی میں عالم اسلام تہذیبی، سیاسی اور عسکری سطح پر محکومی اور غلامی کے مراحل سے گزرا، اور اُسے عصرِرواں کے جدید فکری اور تہذیبی مسائل سے دو چار ہونا پڑا۔
کلامی وادبی مکتبِ فکر اُن علماءومفکرین کا مکتب ہے جنھوں نے سیرتِ نبویؐ کے ضمن میں مسلمانوں کے معاصر تہذیبی ومعاشرتی مسائل کو پیشِ نظر رکھا۔ اپنی تصانیف میں جدید پڑھے لکھے انسان کو مخاطب بنایا۔ اس طرح کے علماءمیں سعید حوّٰی (م1989ء)، متولی الشعراوی (م 1998ء)، محمد الغزالی مصری (م1996ء)، سعید رمضان بوطی (م2013ء) وغیرہ ہیں۔ ان علماءمیں زیادہ ترمصر کے اخوانی اہلِ قلم ہیں، تاہم دیگر ممالک کے ہم خیال افراد بھی ان کے ہمرکاب ہیں۔ برصغیر میں کلامی و ادبی مکتبِ فکر کے اہم نمائندے علامہ شبلی نعمانی (م1914ء) اور سید سلیمان ندوی (1953ء) ہیں۔
سیرت کے علم و فن کے حامل محدثین کی عملی تطبیق عرب علماءکے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی۔ ان کی کاوشوں سے سیرت کی تحقیق و تنقیح کا کام بامِ عروج کو پہنچا۔ ان میں نمائندہ علماءناصر الدین البانی، دکتور اکرم ضیاءالعمری اور رزق اﷲ مہدی شامل ہیں۔
مصطفیٰ السباعی(م 1964ء) اور محمدالغزالی، رمضان بوطی (م2013ء) فقہ السیرۃ کے نامور پیش رو ہیں۔ دیگر نامور محققین جیسے علی محمد صلابی، دکتور منیر غضبان اور دکتور موفق سالم نوری وغیرہ نے اسے مزید ترقی دی۔
برصغیر میں جدید سیرت نگاری
1857ءکی جنگِ آزادی تک تفسیر، حدیث اور سیرت پر وہ شان دار کام نہ ہو سکا جو فقہ، فتاویٰ اور معقولات کی تعلیم، تحقیق اور تدریس کے میدان میں ہوا۔ تاہم احیاءوبیداری کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے تفسیر، حدیث اور سیرت کے میدان میں پچھلے تمام داغ دھو ڈالے۔
برصغیر میں جدید سیرت نگاری کا آغاز سرسیداحمد خاں (م1898ء) کے کام سے ہوا۔ سرسید نے یورپی مستشرقین کی تحقیقات کا پول کھولا، مسلمانوں کے خلاف برپا علمی جنگ میں اپنا کردار ادا کیا اور مسلمانوں کا اپنے نبیؐ اور دین پر اعتماد پختہ ہوا۔ لیکن اس میں بعض مقامات پر اسلامی روایت سے انحراف ہوا۔
قاضی سلیمان منصور پوری (م 1930ء) نے ایک نہایت بلند پایہ کتاب ”رحمۃللعالمین“ 1912ءمیں لکھی۔ اس کتاب کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب مسلمانوں کے مسلمہ عقائد ونظریات کے عین مطابق ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کی سیرت اُن کی وفات کے بعد1917ءمیں منظر عام پر آئی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے شکست و ریخت کے باوجود علمی سطح پر الحاد کو کمزور کیا۔ علامہ اقبال جیسے مفکرین نے جدید الحاد کی قبا چاک کی، اور الحمدللہ آج دین کی حقانیت پر مسلمانوں کا ایمان روز افزوں ہے۔
علامہ شبلی کی ”سیرتِ نبویؐ“ فنِ تاریخ، مستشرقین کے جوابات، حقانیتِ اسلام اور علم وادب کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ شہ پارہ ہے، تاہم شبلی کے شہوارِ قلم نے کئی مقامات پر ٹھوکر کھائی ہے۔تنقید جناب عبد الرؤف دانا پوری(م 1932ء) صاحبِ ”اصح السیر“ کی طرف سے سامنے آئی۔
علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کے بعد اردو میں نہایت شان دار کتب منصہ شہود پر آئیں۔ اُن میں شبلی جیسا کلامی وادبی اسلوب تو نہ تھا لیکن واقعات کی جانچ پڑتال صحیح علمی انداز سے کی گئی۔
پچھلے سو سال میں اردو زبان میں سیرت پر کئی اہلِ قلم نے خامہ فرسائی کی۔ ان میں کئی بلند پایہ علماءبھی شامل ہیں جن میں مولانا ادریس کاندھلوی، سید مناظر احسن گیلانی، ابراہیم میر سیالکوٹی، سید ابوالحسن علی ندوی، سید مودودی، ڈاکٹر حمید اﷲ اور مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری وغیرہم کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔
”سیرتِ سرورِ عالم“ سید مودودی کی بہترین
تالیف مع سیرت کے تراجم
بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں تراجم کا دور شروع ہوا۔ ڈاکٹر حمید اللہ اور عرب کے مصری وسعودی علماءکی کئی کتب کا اردو ترجمہ منظر عام پر آیا۔سیرت کی جدید کتب کے ساتھ ساتھ قدیم بنیادی مصادر اور مطول کتب کے تراجم بھی منظر عام پر آئے۔ جدید دور میں کئی جلدوں پر مشتمل مبسوط کتبِ سیرت شائع ہوئیں، جن میں پیر کرم شاہ ازہری کی ”ضیاءالنبیؐ “ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی زیر نگرانی تالیف شدہ ”سیرت الرسولؐ“ اہم ہیں۔ یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ جناب نعیم صدیقی مرحوم نے ”محسنِ انسانیتؐ“ کے نام سے حضورؐ کی سیرتِ طیبہ پر بہترین کتاب لکھی جسے عمدہ ترین قرار دیا گیا۔
محترم نعیم صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ” محسنِ انسانیتؐ“ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ نوجوانوں کو مطالعہ سیرت کی ایسی راہ پر ڈالوں کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے نبی کریم ﷺ تک جا پہنچیں۔ یہاں اس امر کا تذکرہ کرنا بھی ناگزیر ہے کہ جنرل ضیاءالحق شہید نے سالانہ سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تین چار مرتبہ ”محسنِ انسانیتؐ“ سے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے تھے اور اس سال سیرت پر شائع ہونے والی کتب میں ”محسنِ انسانیتؐ“ کو اول ایوارڈ بھی دیا گیاتھا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے دو جلدوں میں ”سیرتِ سرورِ عالمؐ“ تالیف فرمائی۔ قرآن پاک میں جہاں جہاں نبی کریم ﷺ کے بارے میں آیات کا ذکر آیا سب کو سیرتِ سرورِ عالم کی دونوں جلدوں میں شامل کردیا ہے۔
nn