حضرت ابراہیم علیہ السلام امامِ انسانیت

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی پر اللہ جل شانہٗ کا بڑا فضل ہے کہ ان کے قلمِ معجز رقم سے صلاح اور فلاح، علم و تحقیق، تبلیغ و دعوت کے خیر کثیر کا صدور ہوتا ہے اور ایک جہاں اس سے فیض یاب ہوتا ہے۔ ان کی مایہ ناز تصنیف ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام‘‘ بھارت میں کئی مرتبہ چھپ چکی ہے، اسی طرح پاکستان سے بھی متعدد بار شائع ہوچکی ہے۔ پہلے یہ کتاب ’’حضرت ابراہیم… حیات، دعوت اور عالمی اثرات‘‘ کے نام سے شائع ہوتی رہی ہے، یہ اس کا جدید ایڈیشن ہے جو ادارہ معارف اسلامی کراچی نے اپنے حسین و جمیل اسلوب میں شائع کیا ہے۔
کفر و شرک کی تاریک رات میں توحید کے نور کی ندیاں جاری کرنے والی عظیم شخصیت حضرت ابراہیمؑ پر یہ بڑی عمدہ کتاب ہے جسے تحریک ِاسلامی سے وابستہ ہر شخص کو بالخصوص زیر مطالعہ رکھنا چاہیے اور اپنے علم کو ٹھوس بنیاد مہیا کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی تحریر فرماتے ہیں:
’’انبیاء کی تاریخ میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیمؑ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن میں جتنے انبیاء کا تذکرہ ان کے ناموں کی صراحت کے ساتھ آیا ہے، ان میں بیشتر آپؑ ہی کی نسل سے تھے۔ دنیا کی بڑی مذہبی قومیں نہ صرف آپؑ پر ایمان اور آپؑ سے عقیدت کا تعلق رکھتی ہیں، بلکہ آپؑ سے انتساب کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت جو قومیں قرآن کی براہِ راست مخاطب تھیں، حضرت ابراہیمؑ ان سب کے جدِّ امجد تھے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے آپؑ کا تذکرہ بار بار اور پورے زور و قوت کے ساتھ کیا ہے۔ انبیائی سلسلۃ الذہب میں حضرت ابراہیمؑ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰؑ کے بعد سب سے زیادہ تذکرہ آپؑ ہی کا ہوا ہے۔ مطالعہ قرآن کے دوران حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں چند باتیں بہت ابھر کر سامنے آتی ہیں۔
-1 قرآن کریم میں ’’ملّتِ ابراہیم‘‘ کا تذکرہ بار بار ہوا ہے۔ قرآن نے یہود و نصاریٰ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یوں تو اپنے جدِّ امجد کا دم بھرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انہی کے طریقے پر چل رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ملّت ِ ابراہیمی میں بہت زیادہ تحریفات کردی ہیں اور اس میں بہت سی باتیں اپنی خواہش کے مطابق شامل کرلی ہیں۔ قرآن ایک طرف انہیں دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے خود ساختہ طریقوں کو چھوڑ کر ملّت ِ ابراہیمی کو اختیار کریں، تو دوسری طرف وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی دین کی دعوت دے رہے ہیں، جسے حضرت ابراہیمؑ لے کر آئے تھے۔
-2 قرآن میں حضرت ابراہیمؑ کی بہت سی فضیلتیں مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے اعزازات و اکرامات سے نوازا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں وہ تمام خصوصیات بدرجۂ اتم موجود تھیں جو اللہ کے ایک فرماں بردار بندے میں ہونی چاہئیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو پیش نظر رکھا اور ایک لمحے کے لیے بھی اس سے سرمو انحراف نہیں کیا۔
-3 حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ کو شہرت ملی اور دونوں کی نسلیں خوب پھیلیں اور پھولیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی نسل بنی اسماعیل تھی اور حضرت اسحاقؑ کی نسل ان کے بیٹے حضرت یعقوبؑ (اسرائیل) کی طرف منسوب ہوکر بنی اسرائیل کہلائی۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے درمیان منافست پیدا ہوگئی۔ اور یہ منافست اتنی بڑھی کہ بنی اسرائیل نے تمام فضیلتیں اپنی جانب منسوب کرلیں اور حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت کے ان پہلوئوں پر پردہ ڈال دیا جن سے حضرت اسماعیلؑ کی فضیلت کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ ان کی مذہبی کتابوں سے بھی اس پہلو پر کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ قرآن کریم نے جہاں کتب ِسابقہ کی دوسری بہت سی تحریفات کی اصلاح کی ہے، وہیں اس نے حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت کے ان پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی ہے، جنہیں بنی اسرائیل نے نظرانداز کردیا تھا۔
حضرت ابراہیمؑ کی حیاتِ طیبہ پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ آپؑ کا تذکرہ قصص الانبیا اور قصص القرآن نامی کتابوں میں بھی ہے اور مستقل کتابیں بھی تصنیف کی گئی ہیں۔ مگر ان میں محض زمانی ترتیب سے آپؑ کی حیاتِ طیبہ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ملتِ ابراہیمی اور اسوۂ ابراہیمی کے موضوعات کم ہی زیر بحث آئے ہیں۔ اس سلسلے کی معلومات یکجا اور مربوط انداز میں نہیں ملتیں۔ زیر نظر کتاب انہی پہلوئوں کو نمایاں کرکے پیش کرنے کی ایک ادنیٰ کاوش ہے۔
کتاب کے ایک باب میں ملتِ ابراہیمی پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ قرآنی بیانات کی روشنی میں اس کے عناصر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پھر اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ یہود و نصاریٰ نے ملتِ ابراہیمی کے بعض عناصر کو فراموش کردیا تھا، اس موضوع سے مفصل بحث کی گئی ہے کہ اسلام میں ملتِ ابراہیمی کے تمام عناصر باقی رکھے گئے ہیں۔ ایک باب میں قرآن میں مختلف مقامات پر مذکور حضرت ابراہیمؑ کے اوصاف وشمائل کو یکجا کیا گیا ہے، اور ان کی روشنی میں ’’اسوۂ ابراہیمی‘‘ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک باب حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت پر بعض قدیم و جدید اعتراضات کے تنقیدی جائزے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے شروع میں ایک باب ’’عہدِ ابراہیمؑ‘‘ پر اور دوسرا ’’حضرت ابراہیمؑ کی حیات ِطیبہ‘‘ پر شامل کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا بیشتر حصہ سہ ماہی ’’تحقیقات ِاسلامی‘‘ علی گڑھ اور بعض دوسرے مجلات میں شائع ہوچکا ہے۔ میرے لیے باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ پورا مسودہ میرے استاذ گرامی محترم مولانا سید جلال الدین عمری مدظلہ العالی صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کی نظر سے گزر چکا ہے اور ان کے قیمتی مشوروں کی روشنی میں، میں نے اس میں ترامیم و اضافہ بھی کیا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس کتاب میں حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت کا محض تاریخی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس میں آپؑ کی دعوت اور پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی تالیف میں سب سے زیادہ استفادہ قرآن و حدیث سے کیا گیا ہے۔ انجیل، کتبِ تاریخ و سیرت اور کتب قصص الانبیا وغیرہ سے بھی ضروری حد تک فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان کتابوں میں حضرت ابراہیمؑ کی جانب منسوب واقعات کا کوئی استناد نہیں ہے۔ (باقی صفحہ 41پر)
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ملتِ ابراہیمی کے اتباع اور راقمِ سطور کو خدمتِ دین کی سعادت بخشے۔ وماتوفیق الاباللہ‘‘۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کے سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ایک مثالی زندگی تھی۔ انہوں نے اللہ کے سوا تمام تعلقات منقطع کرکے صرف اللہ واحد سے اپنا رشتہ جوڑ لیا تھا۔ زندگی کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک معاملے میں وہ اللہ کی مرضی کی پابندی کرتے تھے، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے، اپنی کوتاہیوں پر انایت و استغفار کرتے اور ضرورتوں اور خواہشوں کی تکمیل کے لیے اس کے سامنے دستِ دعا پھیلاتے تھے۔ اپنے باپ، بیوی بچوں اور ماتحتوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ ادب و احترام، دل سوزی، محبت و شفقت اور بردباری پر مبنی تھا۔ وہ اخلاقِ فاضلہ کا اعلیٰ نمونہ تھے‘‘۔
شاید اسی لیے اللہ جل شانہٗ کا اعلان واجب الاذعان ہے:
قد کانت لکم اسوۃ ِحسنہ فی ابراہیم
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ میں ایک اچھا نمونہ ہے‘‘۔
nn