گل بدین حکمت یار کا دورہ پاکستان

منصورہ لاہور میں سراج الحق کا استقبالیہ
افغانستان میں قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، جلد اسلامی حکومت قائم ہو گی

۔’’اللہ نے چاہا تو وہ دن بہت جلد آنے والا ہے کہ افغانستان میں افغانوں کی پسند کی اسلامی حکومت قائم ہوگی۔افغانستان جنگ سے پاک ایک پُرامن اسلامی ملک ہوگا۔‘‘ یقینِ کامل اور عزم صمیم کی حامل یہ خوش خبری مردِ مجاہد، سابق وزیراعظم افغانستان، حزبِ اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکز منصورہ لاہور میں اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے سنائی۔ استقبالیہ کے میزبان امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور جماعت کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم نے معزز مہمان کو خوش آمدید کہا۔ انجینئر گلبدین حکمت یار کی تقریر کا اردو ترجمہ سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم نے کیا۔ قبل ازیں قاری وقار چترالی کی تلاوتِ قرآن حکیم سے تقریب کا آغاز ہوا، جب کہ نعتِ رسول پاک کی سعادت حافظ لئیق احمد نے حاصل کی۔
معزز مہمان کا خیرمقدم کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ میں ملتِ اسلامیہ پاکستان کی طرف سے اپنے بڑے بھائی جناب انجینئر گلبدین حکمت یار کو جماعت اسلامی پاکستان کے مرکز منصورہ اور سرزمینِ پاکستان پر خو ش آمدید کہتا ہوں، پاکستان کو انجینئر گلبدین حکمت یار صاحب نے ہمیشہ اپنا دوسرا گھر قرار دیا ہے۔ اس لیے وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ کبھی ایک گھر افغانستان اور کبھی دوسرے گھرپاکستان میں ہوتے ہیں۔ جب پاکستان آتے ہیں تو افغان عوام ان کے انتظار میں ہوتے ہیں، اورجب افغانستان جاتے ہیں تو پھر پاکستان کے لوگ ان کے استقبال اور انتظارمیں ہوتے ہیں۔ آج ان کی آمد جماعت اسلامی کی اُس قیادت کے لیے، جو اب دنیا میں نہیں ہے، روح کی تسکین کا باعث ہوگی۔ آج اس اجتماع میں بہت سارے ہمارے وہ بھائی موجود ہیں جن کے جگر گوشے انجینئر صاحب کی قیادت میں اور ان کے کاروان میں جام شہادت نوش کرگئے۔ اس لیے ان کا آنا ہمارے ان تمام بھائیوں کے لیے باعثِ اطمینان بھی ہے اور باعثِ سکینت بھی۔ مجھے انجینئر صاحب بتا رہے تھے کہ جب وہ اسکول میں تھے تو دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھ سے وہ کام لے لے جو تُو نے حضورﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے بعد کسی سے نہیں لیا۔ فرماتے ہیں کہ میں دعا کرتا رہا کہ میں افغانستان میں روس کی شکست دیکھ لوں اور اس میں حصہ بھی لوں، اللہ تعالیٰ نے ان کی پُرخلوص دعائوں کو قبول فرمایا اور یہ افغان سرزمین ہے جو برطانوی استعمار کے بعد روسی استعمار کے لیے قبرستان بن گئی،آج وہی سرزمین امریکہ اور اس کے حواریوں کے لیے بھی شکست و ریخت، ذلت اور رسوائی کا سامان بن رہی ہے۔
انجینئر گلبدین حکمت یار نے تعلیمی اداروں میں ایک فکری اور نظریاتی جہاد بھی کیا۔ جب دشمن اس نظریاتی اور فکری جنگ میں ہار گئے تو جہازوں اور ٹینکوں کے ساتھ انہوں نے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ الحمدللہ ہمارے بھائی اور ان کے ساتھیوں نے مسلح جنگ میں بھی دشمن کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ اب ہم وہ دن دیکھنا چاہتے ہیں کہ افغانستان حقیقی معنوں میں اسلامی حکومت اور خلافت کا مرکز بنے۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب ہمارے افغان بھائیوں کوحقیقی کامیابی سے محروم رکھا گیا اور افغانستان پر ایسے لوگ مسلط کیے گئے جن کے ذریعے وہاں خانہ جنگی شروع کی گئی۔ حقیقی قیادت کو دہشت گرد قرار دے کر عوام کی قیادت سے محروم اور دور رکھا گیا۔ لیکن حالات نے ثابت کردیا کہ جب ایک قوم کی قربانیوں اور جدوجہدکو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر وہاں کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے وقتی طور پر انجینئر صاحب کو اور افغان عوام کو اس حق سے محروم رکھا، اس سے بڑھ کر 15لاکھ شہدا کے خون سے بے وفائی کی گئی۔ اس کھیل سے افغان عوام کو تو جو نقصان ہونا تھا وہ ہوا، مگر اس سازش میں جو لوگ شریک تھے وہ بھی محفوظ نہیں رہے۔
میرے بھائیو اور دوستو! افغانستان کی سرزمین قرآن پاک کی عملی تعبیراور تفسیر ہے اور قرآن کا وہ وعدہ کہ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہکمزور اور چھوٹے گروپ بھی بڑے گروپوں پر غالب آسکتے ہیں، قرآن کا وہ پیغام کہ وما رمیت اذرمیت ولکن اللہ رما،افغانستان میں ہی ہم نے دیکھا کہ پتھر اٹھا کر ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے ٹینکوں کا مقابلہ کیا۔ ڈنڈے اٹھا کر افغانوں نے جدید اسلحہ سے لیس روسیوں کا مقابلہ کیا اور اللہ نے اپنے بندوں کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا۔قل جاء الحق و زھق الباطل، ان الباطل کان زھوقا۔
میں اپنی حکومت کو بھی مشورہ دینا چاہتاہوں کہ امن کے سوا اور کوئی چوائس اور راستہ نہیں ہے۔آج مجھے خوشی ہے کہ امن کے اس راستے کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان میں طالبان اور حزبِ اسلامی ایک پیج پر ہیں۔ دونوں کا مؤقف ایک ہے کہ افغانستان اسلامی اور پُرامن ہو۔ امن کے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نہ صرف میری جماعت بلکہ میری پوری قوم افغان عوام کی پشت پر کھڑی ہے۔ اس خطے میں مستقل امن کے لیے کشمیر کا مسئلہ بھی حل کرنا ضروری ہے۔ کشمیر چار ایٹمی ممالک کے درمیان ایک خطہ ہے۔ چین، روس، بھارت اور پاکستان ایٹمی پاور ہیں۔ یہ مسئلہ کسی بھی لمحے پوری دنیا کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں بھارت سے کہنا چاہتا ہوں کہ تمھارے کروڑوں لوگ صرف ممبئی کے ایک شہر میں فٹ پاتھوں پر رہنے پر مجبور ہیں اور نانِ شبینہ کے محتاج ہیں۔ اپنی فوج کو کشمیر سے نکال کر اور بھاری فوجی اخراجات ختم کرکے اپنے غریب عوام پر خرچ کرو، اپنے اَن پڑھ اور جاہل لوگوں پر خرچ کرو، دو وقت کے کھانے کے لیے ترستے لوگوں پر خرچ کرو… یہ ذہن سے نکال دو کہ کشمیر پر کبھی تمھارا قبضہ مستحکم ہوسکتا ہے۔ جب تک ایک بھی غیرت مند، باضمیر اور باشعور پاکستانی زندہ ہے، کسی بھی صورت میں کشمیر پر بھارت کا قبضہ گوارا نہیں کرے گا، نہیں کرے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ! افغان جہاد نے امت کو دوبارہ ایک امت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ افغان جہاد اس آیت کی عملی تفسیر ہے کہ ان ھذہ امتکم امت واحدہ،کشمیر اور فلسطین آزاد ہوں گے اور افغانستان بھی ایک پُرامن اسلامی افغانستان بنے گا۔ جتنی بلائیں اور اژدھے تھے وہ شکست کھا چکے ہیں۔ اب اگر کوئی مشکل بھی ہے تو افغان عوام اپنے اتفاق اور اتحاد سے اس چیلنج کا مقابلہ کامیابی سے کریں گے۔
مجھے خوشی ہے کہ آج انجینئر گلبدین حکمت یار ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے یہ ایسے راہنما اور شخصیت ہیں جو ایک طرف صاحبِ سیف بھی ہیں اور جہاد کا مورچہ انہوں نے سنبھالا ہوا ہے۔ لیکن ایک عجیب بات بتائوں کہ ان تمام ترمصروفیا ت کے باوجو د انہوں نے قلم اور قرطاس کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے رکھا ہے۔قرآن کریم کی ایک تفسیر اور 75کتب تصنیف کیں۔امت کے بہت سارے مسائل پر انہوں نے قلم اٹھایا اور دلائل کے ساتھ اس کی تشریح بھی کی۔انہوں نے اپنی تفسیر کی ابتدا میں ہی یہ بات لکھی ہے کہ قرآن اصل میں کشمکش کی کتاب ہے۔قرآن کو حقیقی معنوں میں وہی سمجھ سکتا ہے جو باطل کے مقابلے میں میدانِ جہاد میں کھڑا ہو۔یہ غاروں اور گوشوں میں بیٹھ کر پڑھنے والی کتاب نہیں ہے۔اس لیے جو قرآن کو سمجھنا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ باطل کو للکارے، میدانِ جہاد میں قدم رکھے تب وہ قرآن کے پیغام اور اصل تعلیم کو سمجھنے میں کامیاب ہوگا۔
سابق وزیراعظم و حزبِ اسلامی افغانستان کے امیر انجینئر گلبدین حکمت یار نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بہت لمبے عرصے بعد منصورہ میں حاضر ہوا ہوں، ایسے حالات میں کہ ہم ایک اور جنگ سے دوچار ہوئے اور اس جنگ میں بھی ہمارا دشمن شکست کھانے پر مجبور ہوا۔ کاش کہ میرے اور آپ کے وہ بزرگ جنہوں نے افغان جنگ میں عملاً بہت کام کیا آج موجود ہوتے، اور وہ شہدا جنہوں نے اس جہاد میں اپنے سروں کے نذرانے پیش کیے تھے آج موجود ہوتے، وہ آج یہاں موجود نہیں ہیں مگر مجھے یقین اور امید ہے کہ افغانستان میں ان کے ارمان پورے ہوں گے۔ صرف 23سال کے مختصر عرصے میں پیغمبر اسلام ﷺ نے اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کو روم اور ایران کی سرحدوں تک پہنچا دیا۔ ابھی ایک صدی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اسلامی مملکت کی سرحدیں مشرق میں ہندوستان اور چین تک، مغرب میں مراکش تک، شمال میں ہسپانیہ تک اور جنوب میں یمن تک پہنچ چکی تھیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کا کوئی ثانی اور حریف نہیں رہا تھا، دنیا کی قیادت امتِ مسلمہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ تاریخ انسانی کے اندر امتِ مسلمہ کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی امت مسلمہ کی قیادت کو تسلیم کرلیا گیا، اس ریاست کے اندر کوئی زکوٰۃ لینے والا موجود نہ تھا۔ سینکڑوں قومیں اور ہزاروں زبانیں بولنے والے ایک خاندان اور گھرانے کی شکل اختیار کرگئے۔ اس خاندان کے افراد ایک دوسرے سے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتے تھے، سب کے درمیان انس و محبت تھی۔ حافظِ قرآن اور عالم دین سب مجاہد تھے، دین کو انہوں نے دنیا کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ کوئی دین کی اجرت حاصل کررہا تھا۔ جہاد کے میدان میں ہر فرد آگے بڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ دین کے نام پر کوئی فرقہ نہیں تھا، جو دین کا سب سے بڑا عالم ہوتا تھا، دفتر میں وہ سربراہ ہوتا تھا، مسجد میں وہ امام ہوتا تھا اور جہاد کے میدان میں بھی وہی سپہ سالار ہوتا تھا۔ جہاد کے میدان کا قائد ہی مسجد کی محراب میں امام تھا۔ محراب کے معنی ہی مورچے کے ہیں، یعنی محراب میں کھڑا ہونے والا دراصل جنگ کے مورچے میںکھڑا ہے۔ ساڑھے تیرہ سو سال تک ہم نے دنیا پر حکومت کی ہے۔ ہماری تہذیب اور تمدن ہی دنیا پر فائز تھا۔ دنیا میں سیاست، اقتصادیات اور جنگ کے میدان میں ہمارا کوئی مدمقابل نہیں تھا۔ سو سال قبل یہ عظیم اسلامی خلافت ایک عالمی جنگ کے نتیجے میں دنیا سے ختم ہوگئی۔ صلیب کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے باہر کے دشمنوں اور اندر کے منافقوں نے اس عظیم خلافت کو ختم کرڈالا۔ ہمارے دشمن نے اسلامی خلافت کا خاتمہ کسی جنگ یا بہادری کے نتیجے میں نہیں کیا، ہمارے اندرونی دشمن باہر کے دشمن کا ساتھ دے رہے تھے، اس کے نتیجے میں ہماری خلافت کا خاتمہ ہوا۔ اس منافقت سے انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ آج وہ عظیم امت ٹکڑیوں میں بٹ گئی ہے، مغرب نے اسلامی ممالک کو تقسیم کرکے ان پر اپنے غلاموں اور جرنیلوں کو بٹھایا،آج ان کے بازار مغرب کی منڈیاں بنی ہوئی ہیں۔ اس طریقے سے مغرب نے اسلامی ممالک پر کنٹرول حاصل کیاہے۔ مسلم ممالک کی معدنیات بھی مغربی کمپنیوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہیں۔ ہماری داخلی اور خارجی سیاست بھی انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔آج دنیا کی ساری جنگیں اسلامی ممالک میں لڑی جارہی ہیں۔ ان جنگوں میں کوئی قتل ہورہا ہے تو وہ مسلمان ہے،گھر چھوڑنے پر مجبور مسلمان ہیں، اور دنیا میں مہاجرین کی 95 فیصد تعداد مسلمانوں کی ہے۔ میڈیا پر مغرب کا کنٹرول ہے خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا۔ تصویر اور آواز سب مغرب کی ڈکٹیشن پر بن رہی ہے، اور امت مسلمہ بھی اسی پر یقین کررہی ہے۔ میڈیا ہماری نوجوان نسل کو اپنے دین اور اقدار سے برگشتہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ میڈیا نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم میں ایسی تبدیلیوں میں لگا ہوا ہے کہ نوجوان کو اوباش اور حیاباختہ بنایا جائے اور ان کا تعلق اپنے شاندار ماضی سے کاٹ دیا جائے۔ مغرب ہمارے نوجوانوں کے اندر سیکولر عناصر پیدا کرنے میں کامیاب ہوا جو یہ سمجھتے ہیں کہ دین الگ اور سیاست الگ ہے، اور دین اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ دین دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ دنیا پر اس کی حکمرانی ہو اور سیاست دین کے تابع ہو۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی پیغمبرنہیں آیا جو غیر سیاسی ہو۔ اللہ کی طرف سے مبعوث کیے گئے تمام پیغمبر سیاسی تھے اور حکمرانی کے لیے آئے تھے۔ ہم انسانی دنیا کے اندر کسی غیر سیاسی دین کے قائل نہیں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ انبیائے کرام دنیا کے سیاسی معاملات کو درست کرنے والے تھے۔ سیاست کا لفظ ہماری اور آپ کی فرہنگ (ڈکشنری) میں آیا ہے۔ اس دردناک اور المناک صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم دوبارہ دین کی طرف پلٹ آئیں اور جہاد کا راستہ اختیار کریں۔ ایک دوسرے کی طرف برابری، بھائی چارے اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ فروعی اور مذہبی اختلافات کو ایک دوسرے کو کافر بنانے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ دین کا فہم اس لیے حاصل نہ کریں کہ ہم اپنے حریف اور مخالف کو کافربنائیں اور اس سے ایک دوسرے کی تکفیرکریں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج بہت سے علماء ایسے ہیں جو لوگوں کوکافر تو بنا سکتے ہیں مگر مسلمان نہیں بنا سکتے۔ ہم دین اس لیے سیکھیں کہ اس کے ذریعے اللہ تک پہنچ سکیں۔ ہم اللہ کی معرفت حاصل کریں اور اس ذریعے سے دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کریں۔ پوری تاریخ کے اندر مسلمانوں نے جب بھی اللہ کی طرف رجوع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد اورنصرت کی ہے۔ افغانستان جو جنگ زدہ اور انتہائی ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہا ہے سو سال کے اندر وہاں کے مسلمانوں نے تین استعماری قوتوں کو شکست دی، اور نہ صرف شکست دی بلکہ ان کا وجود ہی ختم کرڈالا۔ برطانیہ ایسی عظیم سلطنت تھی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا، جب وہ افغانستان میں داخل ہوا تو شکست کھانے پر مجبور ہوگیا، آج وہ اتنی چھوٹی ریاست بن گئی ہے کہ دنیا کے نقشے پر انگوٹھا رکھا جائے تو برطانیہ نظر نہیں آ تا۔ حالانکہ مشرق میں آسٹریلیا، مغرب میں امریکہ ان کے استعمار کا حصہ تھا۔ سوویت یونین نے افغانستان میں نہ صرف شکست کھائی بلکہ آج یو ایس ایس آر کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں۔ ناٹو نے بھی اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔ 95فیصد ناٹو افواج افغانستان چھوڑ چکی ہیں اور باقی جو پانچ فیصد ہیں انہوں نے نکلنے کا معاہدہ کررکھا ہے۔ امریکہ اس کوشش میں ہے کہ اپنے فوجیوں کو جلد از جلد افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کو افغانوں کے لیے قابلِ قبول حکومت میں تبدیل کردے۔ اس جنگ کے دو عوامل تھے، پہلا یہ کہ افغانستان پر حملہ کرنا، اس پر قبضہ کرنا، اور دوسرا یہ کہ افغانستان پر ان کی غلام حکومت حاکم ہو۔ افغان عوام یہ کسی صورت برداشت اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ اس کے افغانستان سے نکلنے کے سوا امن کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ترکی میں ایک کانفرنس میں 6ممالک شرکت کررہے ہیں اور اس میں افغانستان کے مجاہد گروپس اور جماعتیں بھی شریک ہوں گی، اور ماسکو میں جو کانفرنس منعقد ہونے جارہی ہے اُس میں بھی یہی طے کیا جائے گا کہ افغانستان میں صلح کے بغیر امن ممکن نہیں، اور باہمی صلح کی بنیاد پر ایک حکومت قائم کی جائے۔ ہم ان دونوں کانفرنسوں کی تائید کرتے ہیں، ان کی پشت پر ہیں۔ افغانستان کی سیاسی جماعتوں کے سات آٹھ قائدین دونوں کانفرنسوں میں شرکت کریں گے۔ ہم نے ان کانفرنسوں کے لیے اپنی تجاویز بھی مرتب کرلی ہیں۔ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی کامیابی چاہتے ہیں۔
ہم مستقبل کے حوالے سے پُرامید ہیں اور اللہ پر ایمان ہے کہ افغانستان میں افغانوں اور پوری امتِ مسلمہ کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ افغانستان میں کامیابی حاصل ہوگی۔ جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں اوراپنے بیٹے قربان کیے ہیں، شہادتیں دی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو قبول کرتے ہوئے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ اِن شاء اللہ اس کامیابی اور فتح کا جشن منصورہ میں منایا جائے گا اور ایک عالمی کانفرنس ہوگی۔ ہم نے سوویت یونین کی شکست کا جشن بھی مل کر منایا تھا اور اِن شاء اللہ امریکہ کی شکست کا جشن بھی منائیں گے۔ جب تک ہمارا نعرہ سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد رہے گا، امید اور یقین رکھیں کہ کامیابی ہماری ہوگی۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ ہماری مشترکہ جنگ تھی۔ اس جنگ میں پاکستان کے عوام اور بالخصوص جماعت اسلامی نے ہمارا ساتھ دیا۔ وہ جنگ ہم نے متحد ہوکر لڑی۔ ہمارا دشمن مشترک تھا۔ اس مشترک، مغروراور بدمست دشمن کو ہم نے اپنے اتحاد و اتفاق اور اللہ کے خصوصی فضل سے شکست ِفاش دی۔ دنیا میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ افغان عوام سوویت یونین کے خلاف بہت لمبے عرصے تک مزاحمت کرسکیں گے۔ لیکن اللہ کے فضل سے ہم سوویت یونین کے خلاف لمبے عرصے تک مزاحمت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جس طرح میرے بڑے بھائی سراج الحق صاحب نے فرمایا کہ سوویت یونین جب افغانستان میں آیا تو یہاں پر بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو سرخ پرچم لہرا رہے تھے اور انہیں یقین تھا کہ روسی فوجیں طورخم بارڈر کراس کریں گی اور کراچی تک پہنچیں گی، اور ساحلِ سمندر تک ان کے قدم پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ مگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی۔ تاریخ میں یہ بات بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ بیرونی استعماری طاقتوں نے جب کسی ملک پر حملہ کیا تو اس ملک کے اندر سے کچھ لوگوں نے ان جارح قوتوں کے سامنے سرخم کیے اور ان کے بوٹوں کو چومتے ہوئے اپنی قوم کو وہ ان کا غلام بنانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ لیکن ان کے مقدر میں ہمیشہ شکست ہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے عناصر تھے جنہوں نے پہلے سوویت یونین کا ساتھ دیا اور پھر ناٹو کے ساتھی بن گئے اور اپنی قوم کو غیر کا غلام بنانے کی کوششوں میں لگ گئے۔ ہم اگر تاریخ کی طرف پلٹیں تو ہمیں اس طرح کے لوگ بار بار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو بے دین، سیکولر اور ملحد ہیں، ہمیشہ انہوں نے ہی بیرونی حملہ آوروں کا ساتھ دیا ہے۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جو لوگ بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں وہی اللہ پر ایمان رکھنے والے، دین دار لوگ تھے اور ہمیشہ انہی لوگوں کو کامیابی ملی ہے۔ افغانستان اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ جو لوگ سوویت یونین کے خلاف لڑے تھے آج بھی وہ مورچوں میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ اللہ والے، دین سے تعلق رکھنے والے اور اللہ پر پختہ ایمان رکھنے والے ہیں۔ اللہ کے حکم اور قرآن پاک کی آیات کے مصداق ’’جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، اور جو لوگ کافر ہیں وہ طاغوت اور منکر کے لیے لڑتے ہیں۔‘‘جو اللہ پر ایمان لانے اور اس کے سامنے رکوع اور سجدہ کرنے والا ہو ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی بیرونی حملہ آور کے سامنے جھکے اور اس کی حکمرانی کو تسلیم کرے۔ اللہ نے چاہا تو وہ دن بہت جلد آنے والا ہے کہ افغانستان میں افغانوں کی پسند کی اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ افغانستان جنگ سے پاک ایک پُرامن اسلامی ملک ہوگا۔ ایسے حالات میں کہ کئی مسلمان ملک مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں، مجھے یقین ہے کہ اِن شاء اللہ العزیز مسلمانوں کی عظمت بحال ہوگی۔ امتِ مسلمہ کا وہ شاندار ماضی ایک بار پھرلوٹ آئے گا، اور امتِ مسلمہ دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہوگی۔
سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم نے جناب حکمت یار کی آمد پر والہانہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہمارے ہاں وہ مہمان آئے ہیں کہ جب انہوں نے افغانستان کے پہاڑوں سے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا، تو موسموں نے طفل تبسم کی طرح بہار بن کر ان کا استقبال کیا۔آج اس منصورہ کے در و دیوار اس ماضی کو یاد کررہے ہوں گے کہ جب اسی منصورہ میں گلبدین حکمت یار بار بار آیا کرتے تھے، ان کے ساتھ پروفیسر عبد الرب رسول سیاف، برہان الدین ربانی، یونس خالص، مولوی محمد نبی محمدی اور ان کے دیگر ساتھی آیا کرتے تھے۔ افغان سرجیکل ہسپتال کے وارڈز گواہ ہیں کہ یہاں پر کس کس طرح کے شدید زخمی مجاہد آیا کرتے تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ لاشرقیہ لاغربیہ کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہاڑوں کو درمیان میں لاکر بٹھانے کی کوشش کی گئی۔ قریباً 27برس کا ایک وقفہ پڑگیا۔گلبدین حکمت یار کی آمد پرآج منصورہ مسجد کے مینار بھی سرگوشیاں کررہے ہیں اور اس سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو یاد کررہے ہیںکہ جس مردِ درویش نے پوری دنیا کو سرخ اندھیروں سے باخبر کیا، اور اس مسجد کی محراب اس میاں طفیل محمد ؒ کو یاد کررہی ہوگی کہ جب دنیا وسط ایشیاء، تاجکستان اور ازبکستان کو بھول رہی تھی اور افغانستان کو بھولنے کے قریب تھی، تو میاں طفیل محمد ؒ نے فرمایا تھا کہ روسی ٹینکوں کے مقابلے میں اگر ہمیں کچھ اور میسر نہ آیا تو ہم توڑے دار بندوقوں سے ان کا مقابلہ کریں گے۔ پھر یہی پھول اور پھولوں کی کیاریاں اور روش تذکرہ کررہے ہوں گے جناب قاضی حسین احمد ؒ کا کہ جنہوں نے نجانے کتنے سفر ماوریٰ النہر کیے۔ پورے علاقے میں قدم جمائے، مجاہدین کی پشتی بانی کی۔ ہم کیسے بھول جائیں کہ گلبدین حکمت یار کی آمد پر اس گلشن میں کھلے ہوئے پھول جناب سید منور حسن ؒصاحب کو یاد کرتے ہیں کہ جنہوں نے اسی منصورہ سے ’’گوامریکہ گو‘‘ تحریک چلائی اور پوری دنیا میں اس کی بازگشت سنائی دی۔ یہ وہ ساری یادیں ہیں کہ جو آج گلبدین حکمت یار کی منصورہ آمد پر تاریخ کی طرح ہمیں ترتیب وار یاد آرہی ہیں۔ 1980ء کا وہ عشرہ کہ جب لوگ کہتے تھے کہ جس طرح دوسرے مقبوضہ مسلم علاقوں کو بھول گئے، افغانستان کو بھی بھول جائیں۔ لیکن پھر ایک جدوجہد، ایک جہاد، ایک کوشش، لاکھوں لوگوں کی قربانیاں، مجاہدین اور مہاجرین کا ایثار! آج افغانستان کے درو دیوار گواہی دیتے ہیں کہ مجاہدین کی طرف سے کوئی ایک گولی یا راکٹ حملہ آور فوجوں کے سوا کسی مکان یا دکان اور بازار پر چلایا گیا ہو، اور کسی گائوں، شہر، حتیٰ کہ کسی شہری کوبھی نشانہ بنایا گیا ہو۔ لیکن پھر ایک سازش کی گئی، اس شاندار جدوجہد کو بدنام اور ملیامیٹ کرنے کے لیے سازشوں کے تانے بانے بنے گئے۔ عقل مند دشمن تو دشمن تھے ہی مگر بے وقوف اور احمق دوست بھی تھے جنہوں نے کوشش کی کہ افغان جہاد کی کامیابی کے بعد وہاں کی حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہ آنے پائے جنہوں نے یہ جدوجہد کی تھی۔
ہمارے حکمرانوں نے ان کا تر نوالہ بن کر ایک نئی افغان جنگ کی بنیاد رکھ دی۔ یہ سب کچھ افغان جہاد اور افغان عوام کی جدوجہد کو ملیامیٹ اور جہاد کو بدنام کرنے کی سازش تھی، تاکہ امتِ مسلمہ میں وہ جذبہ اور ولولہ تازہ نہ ہوجائے۔ وہ امریکہ اور یورپ جنہوں نے روسی فوجوں کی موجودگی میں اپنی فوجیں افغانستان کے اندر اتارنے کی ہمت اورجرأت نہیں کی تھی، انہوں نے اپنی فوجیں افغانستان میں اتار دیں۔ کوششیں بہت کی گئیں، میر جعفر اور میر صادق پیدا ہوئے۔ تاریخ اپنے آپ کو ہر بار نئی کروٹ کے ساتھ دہراتی ہے۔ تاریخ کی نئی کروٹ بتاتی ہے کہ میر جعفر اورمیر صادق لندن اور دبئی میں بیٹھے پریشان ہیں۔ لیکن اس بار سلطان ٹیپو شہید نہیں ہوئے بلکہ فاتح کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ہمیں یقین محکم ہے اور یہ یقین اس لیے ہے کہ ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں’’فتح مبین کانفرنس‘‘ میںگلبدین حکمت یار صاحب کو مدعو کیا مہمان خصوصی کی حیثیت سے۔ ان کے یہ دوجملے مجھے آج بھی یاد ہیں کہ ’’اگر ہمیں ہماری مرضی کے مطابق جینے کا حق نہیں دوگے تو ہم تمھارا جینا دوبھر کردیں گے ‘‘۔ اور آج امریکہ کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ ان کا دوسراجملہ یہ تھا کہ ’’ہم اپنے دوستوں کو سو سال تک یاد رکھتے ہیں، لیکن اپنے دشمنوں کو دو سو سال تک نہیں بھولتے‘‘۔ دنیا سن لے کہ افغان قوم کی تاریخ میں دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ سلوک کی ایک پوری تاریخ موجود ہے۔ سرزمینِ افغانستان کے عوام امن چاہتے ہیں، پاکستان کے عوام امن چاہتے ہیں،آج ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح روس بغیر کسی شرط کے افغانستان سے نکلا تھا اسی طرح امریکہ بھی بغیر کسی شرط کے ساتھ افغانستان سے نکلے گا تو اس پورے خطے میں امن بھی آئے گا، اسلام بھی آئے گا۔ ہم اپنے ان مجاہد بھائیوں کو سرزمینِ پاکستان اور منصورہ آمد پر ایک دفعہ پھر خوش آمدید کہتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور اس یقین اور عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم پہلے بھی آپ کے ساتھ تھے،آج بھی آپ کے ساتھ ہیں اور آئندہ بھی آپ کی اس جدوجہد میں شریکِ سفر رہیں گے۔