افغانستان گہرے شکوک و شبہات میں امن کی امید

تسلسلِ اقتدار کے لیے اپنے ہی ملک کو خون کا غسل دینا کہاں کا تدبر اور کیسی سیاست ہے؟

دوحہ (قطر) میں 29 فروری 2020ء کو امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے سے افغانستان میں امن کی جو امید پیدا ہوئی تھی اس کے بارے میں شکوک و شبہات گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اس معاہدے سے پہلے تقریباً دو سال تک اعصاب شکن مذاکرات ہوئے۔ اس دوران کئی بار ایسا لگا کہ دونوں فریق دیوار سے باتیں کررہے ہیں۔ ستمبر 2019ء میں امریکی فوج پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات معطل کردیے تھے، لیکن چند ماہ بعد بات دوبارہ شروع ہوئی، اور آخرکار معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ جیسا کہ ایک نشست میں ہم اس سے پہلے عرض کرچکے ہیں کہ یہ معاہدئہ امن نہیں بلکہ عزمِ امن کا معاہدہ(Agreement for Bringing Peace in Afghanistan)ہے۔ سمجھوتے کے اہم نکات میں:۔
٭ جنگی قیدیوں کی رہائی
٭ بین الافغان مذاکرات
٭ تشدد میں کمی
٭ مئی 2021ء تک غیر ملکی افواج کا انخلا اور
٭ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی شامل تھی۔
طالبان کے اصرار پر کابل انتظامیہ کو بات چیت سے علیحدہ رکھا گیا، اس لیے ڈاکٹر اشرف غنی کو اس پورے معاملے پر شدید تحفظات تھے اور انھوں نے اپنی ناراضی کا کھل کر اظہار بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ طالبان نے اپنے قیدیوں کی جو فہرست دی ہے اس میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اخلاقی جرائم میں ملوث ہیں، جس پر انھیں افغان عدالتیں قید بلکہ کچھ کو سزائے موت سنا چکی ہیں، ان لوگوں کو جنگی قیدی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکی حکومت کے دبائو پر قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہوگیا۔ تاخیر کی بنا پر ستمبر سے بین الافغان بات چیت کا آغاز ہوا۔
۔6 ماہ گزر جانے کے باوجود اب تک مذاکرات کے ایجنڈے پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ اس حوالے سے بنیادی اختلاف دونوں فریق کی حیثیت پر ہے۔ کابل انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ افغان عوام کے منتخب نمائندے ہیں جن کے خلاف طالبان نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ حکومتی وفد چاہتا ہے کہ اپنے مطالبات پیش کرنے سے پہلے طالبان ہتھیار رکھ دیں۔ کابل انتظامیہ نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ طالبان کا مؤقف کھلے دل سے سنے گی اور ایک باوقار معاہدے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اُس وقت اماراتِ اسلامی افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ امارات نے غیر ملکی جارحیت کے خلاف مادرِ وطن کا کامیابی سے دفاع کیا، جبکہ کابل انتظامیہ وہ کٹھ پتلی ہے جسے حملہ آوروں نے غداری کے انعام میں کابل کا تخت عطا کیا۔ طالبان اس غداری کو دل سے معاف کرنے کو تیار ہیں اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ غیر ملکی فوج کی واپسی کے بعد نئی انتظامیہ تشکیل دیتے وقت افغان حکومت سمیت ملک کی تمام سیاسی، لسانی اور مذہبی اکائیوں کو مناسب نمائندگی دی جائے گی۔ ایک اور نکتہ افغانستان کا آئین ہے۔ افغان حکومت کا اصرار ہے کہ بات چیت اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کے مطابق ہوگی اور نئے بندوبست میں آئین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ طالبان موجودہ دستور منسوخ کرکے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک نیا آئین ترتیب دینا چاہتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ باہمی اعتماد کا ہے۔ معاہدے کی صورت میں طالبان کو افغانستان کے طول و عرض میں پھیلے اپنے اڈوں، اسلحے کے ذخائر، اسلحہ سازی کی تنصیبات، لیبارٹریز اور تربیتی مراکز ختم کرنے ہوں گے۔ چھاپہ مار افغان فوج میں ضم کردیے جائیں گے۔ طالبان کو ڈر ہے کہ اس مرحلے پر اگر امریکہ نے چالاکی دکھائی تو کیا ہوگا؟ اسی طرح کابل انتظامیہ خوف زدہ ہے کہ نیٹو فوج کی واپسی کے بعد اگر طالبان معاہدے سے مکر گئے تو طالبان کے غیظ و غضب سے انھیں کون بچائے گا؟
قطر معاہدے کے بارے میں طالبان اور امریکہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اپنی رپورٹ میں امریکی وزارتِ دفاع (پینٹاگون) اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا تھا کہ طالبان کے القاعدہ، داعش یا کسی اور دہشت گرد گروپ سے تعلقات کا کوئی ثبوت نہیں ملا، یعنی افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی پر شک کی کوئی وجہ نہیں۔ تاہم امریکی کانگریس کے قدامت پسند و جنگجو عناصر کو طالبان کے وعدوں پر اعتماد نہیں۔ کانگریس کی افغان امور سے متعلقہ کمیٹی نے فروری میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو افغان امن عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس کے لیے عجلت میں فوج کے انخلا سے خانہ جنگی کا خدشہ ہے، جس سے نہ صرف خطے کا استحکام متاثر ہوگا بلکہ القاعدہ کے دوبارہ منظم ہونے کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ اس موقع پر سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل (ر) جوزف ڈنفورڈ نے کہا ”امریکہ کو افغان جنگ میں کامیابی طالبان کے ہاتھ میں نہیں دینی چاہیے“۔
قطر معاہدے کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کو اِس سال مئی تک واپس ہونا ہے۔ لیکن صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی نظرثانی تک امریکی فوجیوں کے انخلا سمیت معاہدے پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ امریکہ کے نیٹو اتحادیوں نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر افغانستان میں حالات ایسے ہی کشیدہ رہے اور طالبان و افغان حکومت کے درمیان ایک قابلِ قبول امن معاہدہ نہ ہوا تو غیر ملکی فوجیں مقررہ مدت کے بعد بھی افغانستان میں رہ سکتی ہیں۔ دوسری طرف طالبان نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے قطر معاہدے کی پاسداری نہ کی تو وہ بھی اپنے فیصلوں کے لیے آزاد ہوں گے۔ ایک اعلامیے میں طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر مقررہ وقت تک غیر ملکی فوج کا انخلا مکمل نہ ہوا تو افغانستان میں نیٹو افواج کو نشانہ بنایا جائے گا۔
طالبان کا یہ سپاٹ لہجہ ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ کے عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی فوج کی قوت اس کی فضائیہ ہے، تاہم ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ بمباری سے علاقے میں تباہی و دہشت تو پھیلتی ہے لیکن طالبان چھاپہ مار اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے کے مصداق غچہ دے کر نکل جاتے ہیں۔ منشیات کی لت میں مبتلا افغان فوج کے لیے بھی طالبان کا مقابلہ ممکن نہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے طالبان نے ڈرون ٹیکنالوجی تک بھی رسائی حاصل کرلی ہے۔ اب تک ان کے ڈرون پٹاخوں سے ذرا بڑے بم لے کر پرواز کرسکتے ہیں، لیکن امریکیوں کا خیال ہے کہ طالبان بہت جلد اپنے ڈرون کی استعداد کو بڑھا لیں گے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران طالبان نے ڈرون کی مدد سے سرکاری فوج پر مہلک حملے کیے ہیں۔ اس وقت 2500امریکی سپاہ کے ساتھ نیٹو کے 7000 فوجی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ جب ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نیٹو افواج طالبان کو کچل نہ سکیں تو ساڑھے نو ہزار سپاہی کیسے مقابلہ کرسکیں گے؟ جبکہ طالبان نے ڈرون سمیت اپنی حربی استعداد میں خاصا اضافہ کرلیا ہے۔
کورونا کی وجہ سے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی معیشت دبائو کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں فوجی پڑائو کا خرچ 70 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ نے لاک ڈائون اور بندشوں کے نتیجے میں پھیلنے والی معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے گزشتہ چھے ماہ کے دوران عام لوگوں اور چھوٹے تاجروں کوپانچ ہزارارب ڈالر کی نقد مدد فراہم کی ہے جس کی وجہ سے قرض کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔ اس اقتصادی تناظر میں ایک بے مقصد و بے نتیجہ جنگ کے لیے خطیر رقم کی فراہمی آسان نہیں۔امریکہ کے قانون سازوں کو امدادی رقم کے استعمال پر بھی گہرے تحفظات ہیں۔ افغان دفاع پر نظر رکھنے والے امریکہ کے سینئر انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیر نو المعروف سگار (SIGAR)کا خیال ہے کہ امریکی امداد کا 70 فیصد حصہ بدعنوانی اور کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔
شروع میں صدر بائیڈن اوراُن کے وزیرخارجہ کا لہجہ خاصا جارحانہ تھا۔ بلکہ یہ خبر بھی گردش کررہی تھی کہ صدر بائیڈن نے امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اضافی فوج بھیجنے کی تیاری کریں، لیکن پینٹاگون کی جانب سے زمینی صورتِ حال کی جو تصویرکشی کی گئی اُسے دیکھ کر امریکی صدر وہاں تعینات اپنی فوج کے بارے میں کچھ فکرمند ہوگئے ہیں۔ اسی بنا پر جناب زلمے خلیل زاد کی مدتِ ملازمت میں توسیع کردی گئی ہے۔ نئی امریکی قیادت اب معقولیت کی طرف مائل نظر آرہی ہے۔ نقطہ نظر میں اس تبدیلی کا سبب زلمے خلیل زاد کی مشاورت ہے۔
افغان نژاد خلیل زاد نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو کے قدامت پسند ری پبلکن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے پُرجوش حامی ہیں۔ قطر معاہدے میں زلمے خلیل زاد نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے بعد وہ کابل میں امریکہ کے سفیر تعینات ہوئے، اور اس دوران ان کا انداز اور دبدبہ وائسرائے والا تھا۔ زلمے طالبان کے سخت خلاف اور انھیں ”فنا“ کردینے کے لیے پُرعزم تھے۔ لیکن 2019ء میں جب صدر ٹرمپ نے انھیں افغان مفاہمت کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا تو طالبان رہنمائوں سے قریبی رابطے کے بعد طالبان کے بارے میں ان کی رائے تبدیل ہوگئی۔ زلمے صاحب دو دہائیوں سے کابل انتظامیہ کی بدعنوانیاں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چالاک لیکن سادہ مزاج و درویش صفت طالبان رہنما انھیں بہت مختلف محسوس ہوئے۔ جناب خلیل زاد کہتے ہیں کہ میٹھے پشتو لہجے میں نرم مزاج مولویوں کی شستہ انگریزی کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ ستم ظریفی کہ طالبان سے شدید نفرت کرنے والے سیکولر مزاج زلمے کو یہ مُلّا اچھے لگنے لگے ہیں، لیکن صدر اشرف غنی اور کابل انتظامیہ کے اہلکار اب زلمے کو پسند نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ اصحابِ جبہ و دستار نے زلمے کو شیشے میں اتار لیا ہے اور وہ افغان حکومت کے لیے قابلِ اعتبار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن سے درخواست کی تھی کہ زلمے کے بجائے کسی اور کو خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے، لیکن صدر بائیڈن نے یہ درخواست مسترد کردی۔
گزشتہ دنوں امریکی وزیرخارجہ نے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور امن کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو جو خط لکھا ہے اُس میں بڑی صراحت سے کہا گیا ہے کہ امریکہ جو نئی حکمتِ عملی ترتیب دے رہا ہے اس کے مطابق مئی تک فوج کا مکمل انخلا بھی خارج از امکان نہیں۔ مکتوب میں انجامِ بد سے ذرا شائستہ انداز میں ڈراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی فوج کے انخلا کی صورت میں امن و امان کی صورتِ حال مزید خراب ہوسکتی ہے اور کچھ نئے علاقے طالبان کے قبضے میں جا سکتے ہیں، یعنی ہماری واپسی سے پہلے طالبان سے مصالحت کرلو۔
اس سلسلے میں انھوں نے اقوامِ متحدہ کے زیرانتظام روس، چین، پاکستان، ایران اور بھارت کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی بھی تجویز دی ہے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے معاملے پر واشنگٹں ترکی سے بھی رابطے میں ہے۔ جنرل رشید دوستم سمیت ازبک و تاجک دھڑوں سے انقرہ کے اچھے مراسم ہیں۔
اس خط کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ نے آٹھ صفحات پر مشتمل نیا امن منصوبہ بھی کابل بھیجا ہے جس میں ایک ایسی وسیع البنیاد عبوری حکومت کے خدوخال پیش کیے گئے ہیں جس میں طالبان بھی شامل ہوں۔ اسلامی نظام کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے آئینی ترمیم کے لیے خواتین اور اقلیتوں سمیت تمام فریقین پر مشتمل ایک کمیشن کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ عبوری حکومت کا مقصد طالبان کے ان تحفظات کو دور کرنا ہے جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اعتماد کی بحالی کے لیے طالبان کو افغان فوج میں ضم کرکے کسی مُلاّ کو فوج کا سربراہ بنادیا جائے، اور باہمی رضامندی سے افغان فوج کا کوئی سابق سربراہ وزارتِ دفاع کا قلمدان سنبھال لے۔
اسی کے ساتھ زلمے خلیل زاد ایک بار پھر ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نے کابل میں افغان حکام اور دوحہ میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ نئے امن منصوبے پر گفتگو کے بعد اسلام آباد میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ اس دوران افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی وہاں موجود تھے۔
اس حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دورئہ بحرین کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ بحرین میں پاکستان کی عسکری قیادت نے کمانڈر بحرین نیشنل گارڈ فیلڈ مارشل محمد بن عیسیٰ الخلیفہ اور بحرینی قومی سلامتی کے مشیر میجر جنرل شیخ ناصر بن حماد الخلیفہ سے ملاقاتیں کیں۔ گفتگو کے دوران افغان امن عمل میں پیش رفت، سرحدی تحفظ اور افغان امن عمل کو آسان بنانے کے لیے ضروری اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ادھر افغانستان کے لیے روس کے نمائندے ضمیر کابولاف نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ماسکو میں افغان حکومت اورطالبان کے علاوہ امریکہ، ایران، چین اور پاکستانی سفارت کاروں کی کانفرنس بلانے کی تجویز دی۔ خیال ہے کہ یہ بیٹھک 18 مارچ کو جمے گی۔ طالبان اور افغان حکومت نے اس نشست میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ پاکستان، امریکہ اور روس بھی شریک ہونے کو تیار ہوتے ہیں، تاہم ایران کی جانب سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔
امریکی وزیرخارجہ کے خط اور نئے امن منصوبے کے عبوری متن کا کابل انتظامیہ نے اب تک کوئی تحریری جواب تو نہیں دیا لیکن صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ ایک منتخب حکومت کی موجودگی میں عبوری حکومت کی تجویز مضحکہ خیز ہے اور میری زندگی میں ایسا نہیں ہوگا۔ افغان نائب صدر امراللہ صالح نے امریکی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے میں افغان عوام کے ووٹ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ جناب صالح نے عزم ظاہر کیا کہ کسی کو بھی افغان عوام کا حقِ حکمرانی چھیننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
امن کی نئی تجاویز پر کابل کا اشتعال اپنی جگہ، لیکن اشرف غنی حکومت کی اخلاقی حیثیت بجائے خود مشتبہ ہے۔ دو برس پہلے ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب دس فیصد سے بھی کم تھا۔ ان نتائج کو حزب اختلاف نے تسلیم نہیں کیا اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے متوازی حکومت قائم کرلی تھی۔ امریکہ کی مداخلت اور امداد معطل کرنے کی دھمکی پر دونوں فریق مصالحت پر راضی ہوئے۔ اشرف غنی کو صدر تسلیم کرنے کے عوض عبداللہ عبداللہ کو امن کمیٹی کا سربراہ بنادیا گیا۔ پانچ سال پہلے ہونے والے انتخابات بھی متنازع تھے اور اُس بار عبداللہ عبداللہ کے لیے چیف ایگزیکٹو کا منصب تراشا گیا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے لیے عبوری حکومت کی تجویز کو مسترد کرنا اتنا آسان نہیں، لیکن وہ اس امید پر ٹال مٹول کرسکتے ہیں کہ اگر مئی تک فوجی انخلا نہ ہوا اور طالبان نے امریکی و نیٹو افواج پر حملے شروع کردیے تو صورتِ حال یکدم تبدیل ہوجائے گی جس سے غنی اقتدار کو سہارا مل سکتا ہے۔ تسلسلِ اقتدار کے لیے اپنے ہی ملک کو خون کا غسل دینا کہاں کا تدبر اور کیسی سیاست ہے؟

…٭…٭…٭…
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.com
پر تشریف لائیں۔