افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد عبدالرحمٰن الثانی بھی موجود تھے۔
زلمے خلیل زاد کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا، جنہوں نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا معاہدہ تکمیل پذیر ہوچکا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اِس سال مئی میں امریکی فوجوں کا مکمل انخلا ہونا ہے۔ نئی بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد امریکہ طالبان معاہدے کی تکمیل کے بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں۔ بارک اوباما کے دور میں جوہری ہتھیاروں کے مسئلے پر ایران کے ساتھ 5 عالمی طاقتوں کے ہمراہ امریکہ نے معاہدہ کیا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آتے ہی اس معاہدے پر عمل درآمد معطل ہوگیا۔ موجودہ صدر جوبائیڈن بارک اوباما کے دور میں نائب صدر رہے ہیں۔ اس طرح اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ٹرمپ کے دور میں کیا گیا افغانستان سے فوجی انخلا کا معاہدہ بھی معطل ہوسکتا ہے۔ آثار یہ ظاہر ہورہے ہیں کہ امریکہ کے پاس مکمل فوجی انخلا کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زلمے خلیل زاد ابھی تک اپنے منصب پر برقرار ہیں۔ انہوں نے حالیہ دور میں کابل اور اسلام آباد کے کئی دورے کیے ہیں۔ اس عرصے میں افغانستان کے کئی رہنمائوں نے پاکستان کا دورہ کیا ہے، آئندہ دنوں میں ترکی اور روس میں بین الاقوامی مذاکرات ہوں گے جن میں اشرف غنی حکومت اور طالبان سمیت کئی گروپ شرکت کریں گے۔ ان مذاکرات کا مرکزی موضوع مستقبل کے افغانستان کے نظامِ حکومت کا تعین ہے۔ اس سلسلے میں کلیدی نکتہ یہ ہے کہ افغانستان جدید سیاسی تاریخ کا سب سے اہم کردار ہے۔ 100 برسوں کے اندر تین عالمی طاقتوں کو افغانستان کے پہاڑوں میں شکست ہوئی ہے۔ افغانستان میں پہلی شکست برطانوی استعمار کو ہوئی تھی، اور یہ وہ وقت تھا جب برطانوی استعمار کا پرچم اس طرح پوری دنیا میں لہرا رہا تھا کہ یہ کہا جاتا تھا: برطانوی اقتدار میں کہیں سورج غروب نہیں ہوتا۔ اب برطانیہ ایک جزیرے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ دوسری شکست کمیونسٹ روس کو ہوئی، جس کے بارے میں یہ تاثر یقین بن گیا تھا کہ جہاں ایک بار روس چلا گیا تو پھر واپس نہیں گیا۔ لیکن دنیا نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ 1988ء میں آخری روسی سپاہی نے دریائے آمو پار کیا تو مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ واقعہ سوویت یونین کی تحلیل کا سبب بن گیا۔ آج یو ایس ایس آر کے نام سے کسی عالمی طاقت کا وجود نہیں ہے۔ سوویت یونین کے انہدام نے سرد جنگ کو ختم کیا، اس کے ساتھ ہی امریکہ نے نیوورلڈ آرڈر کے نام سے یک قطبی سامراجیت کا اعلان کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ مغرب کی فتح کا دعویٰ کیا، حالانکہ یہ فتح فقیر و غریب افغان مجاہدین اور تصورِ جہاد و شہادت کی فتح تھی۔ یک قطبی سامراجیت کے تکبر میں مبتلا ہو کر امریکہ نے نائن الیون کے ’’پراسرار‘‘ واقعے کے بعد دنیا کی 40 طاقتور ترین فوجوں کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کیا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے حکمرانوں کو دھمکی دے کر کرائے کے سپاہی بننے پر مجبور کیا گیا۔ یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن گئی۔ حالاں کہ افغان مجاہدین کو اپنی سرزمین اور اپنے عقیدے، دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے کسی مسلمان ملک کی زبانی یا اخلاقی حمایت بھی حاصل نہیں تھی۔ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر مغربی تہذیب کے قائد امریکہ نے جتنے جھوٹ بولے ہیں تاریخ میں اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔ انسانی قتلِ عام، درندگی اور سفاکی کے حوالے سے چنگیز خان اور تاتاری علامت بنے ہوئے ہیں، لیکن وسیع پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کی ایجاد اور انہیں استعمال کرنے کے باوجود امریکہ مہذب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کسی کے ذہن میں بھی یہ تصور نہیں تھا کہ ہر قسم کی حمایت اور مدد سے محروم افغان مجاہدین طویل مدت تک مزاحمت برقرار رکھ سکیں گے۔ لیکن یہ جدید تاریخ کا معجزہ ہے کہ ایک صدی کے اندر تین عالمی طاقتوں کی شکست کا سہرا پسماندہ افغانستان کے سر گیا ہے۔ امریکہ نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ دنیا کے سامنے اپنی ہزیمت اور شکست کا تاثر دیے بغیر افغانستان سے فوجی انخلا میں کامیاب ہوجائے، لیکن میدانِ جنگ کے ساتھ مجاہدین نے سفارت کاری کے دائرے میں بھی اپنی اہلیت کو ثابت کردیا ہے۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد جہاد کے ثمرات سے افغان مجاہدین، عوام اور ان کے پاکستانی پشتیبان کو محروم رکھنے کے لیے امریکہ نے جہاد کو خانہ جنگی میں تبدیل کردیا۔ اس واقعے سے افغانوں نے سبق سیکھا ہے۔ اب بھی امریکہ کی کوشش ہے کہ اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے کہ اس جنگ کے اصل فاتح افغان طالبان اور مجاہدین ہیں اور انہیں ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ مستقبل کے افغانستان کا فیصلہ کریں۔ لیکن جاتے جاتے امریکہ الحادی نظریات کی بنیاد پر قائم ہونے والے سیاسی ڈھانچے کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہ کش مکش جاری رہے گی۔ توقع ہے کہ افغان مجاہدین اور ان کے مختلف گروہ تدبر اور بصیرت سے کام لیں گے اور ماضی کے تجربات دہرانے نہیں دیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان سختی سے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پر معاہدے کے مطابق مئی کے بعد ایک غیر ملکی فوجی بھی موجود نہیں رہے گا۔ سرزمینِ افغانستان عہدِ جدید کی تاریخ میں نصرتِ الٰہی کی علامت ہے۔ افغانوں نے تاریخ کو تبدیل کیا ہے، عالمی صف بندی تبدیل ہوئی ہے۔ افغان تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مزاحمت میں ہی زندگی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت، طاقت نہیں ہے۔ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت نے تاریخ کی ترقی یافتہ جنگی ٹیکنالوجی کو شکست دی ہے۔ اصل قوت و طاقت اللہ کی نصرت ہے۔ افغان مجاہدین اللہ کی مدد اور نصرت سے ہی مستقبل کے افغانستان کے بارے میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے واضح ہوچکی ہے کہ افغانستان میں امن پوری دنیا کی ضرورت ہے۔ عالمی صف بندیاں تبدیل ہوچکی ہیں، امریکہ کی یک قطبی سامراجیت کو نئی طاقتیں تسلیم کرنے سے انکار کررہی ہیں۔ اسی وجہ سے چین اور روس بھی افغان مسئلے کے حل میں اہم کردار بن چکے ہیں۔ عالمی سیاسی کش مکش میں مسلم امہ کا مرکزی کردار ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں نے سامراج کا آلہ کار بن کر امتِ مسلمہ کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس وجہ سے مستقبل کے افغانستان کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، لیکن دنیا کی واحد سپر پاور کی شکست سب سے بڑی حقیقت ہے۔