سماجی فاصلہ یا جسمانی فاصلہ؟۔

آج کل دنیا بھر میں Social Distancing کی اصطلاح کا بڑا چرچا ہے۔ جب سے کورونائی وبا کی تیسری لہر آئی ہے، یہ اصطلاح کچھ زیادہ ہی لہرا رہی ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’سماجی فاصلہ‘ کیا گیا ہے۔ لفظی ترجمہ تو ٹھیک ہی ہے، مگر Distancing کا درست ترجمہ ’تفاصُل‘ ہونا چاہیے تھا۔ شاید اس لیے نہیں ہوا کہ اگر لوگوں سے کہہ دیا جاتا کہ ’سماجی تفاصُل‘ اختیارکیجیے، تو لوگ بدک جاتے:
۔’’کورونا کی وبا ہی کیا کم تھی کہ یہ ایک نئی بلا بھی آگئی… سماجی تفاصُل‘‘۔
اہل ِ خبر بھی اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے کہ ’ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر‘ (عاشقی کی دوسری مصیبتوں کے اوپر یہ نئی مصیبت بھی آگئی)۔ پریشانی کے اوپر ایک ’’پریشانا‘‘بھی آدھمکا۔
مگر سچ پوچھیے تو اس وبا سے بچنے کے لیے جو چیز اختیار کی جارہی ہے وہ ’’سماجی فاصلہ‘‘ نہیں، ’’جسمانی فاصلہ‘‘ ہے۔ سماج میں تو فاصلے پہلے ہی سے موجود تھے۔ باپ اور بیٹے میں سماجی فاصلہ۔ ماں اور بیٹی میں سماجی فاصلہ۔ بلکہ فرد اور سماج میں تو اچھا خاصا فاصلہ عرصۂ دراز سے چل رہا ہے۔ فرد کو سماج کی پڑی ہے، نہ سماج کو فرد کی۔ پھر حکام اور عوام میں تو سدا کا سماجی فاصلہ رہا ہے، بقول رحمٰن کیانی:۔

زردار گھر بناتے ہیں محروم سے الگ
حاکم کی قبر ہوتی ہے محکوم سے الگ

یہاں تک کہ اگر حاکم کی گاڑی گزر رہی ہو تو فاصلہ برقرار رکھنے کے ذمہ دار اہل کار عوام کو اِس گاڑی کی اَگاڑی سے خاصے فاصلے پر کھڑا کردیتے ہیں۔ گھوڑے گدھوں کی پچھاڑی سے تو عوام احتیاطاً خود ہی فاصلے پر رہتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ سماجی فاصلہ اور چیز ہے، جسمانی فاصلہ اور چیز۔ وبائی امراض کے مریض کا جسم چھو لینے سے مرض کے جراثیم صحت مند جسم میں منتقل ہوجاتے ہیں، اور کورونا کے جراثیم کا توکچھ بھروسا ہی نہیں کہ نہ جانے کس کس پر سوار ہوکر سفر کررہے ہوں، لہٰذا لوگوں سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے ’’جسمانی فاصلہ‘‘ رکھیں۔ اور یہی وہ عملاً رکھ بھی رہے ہیں۔
سماجی فاصلے تو صاحبو! وبا کے اِن دنوں میں شاید کم ہی ہوئے ہیں، بڑھے نہیں۔ بچھڑے ہوئے لوگ سماجی ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ جو لوگ بیرونِ ملک چلے گئے تھے اور اُن کا اتا پتا نہیں مل رہا تھا، وبا کے دنوں میں واٹس ایپ پر ’آملے پھر سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘۔ شاعر حضرات جوکورونا کے ڈر سے اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل (Lock Down)کیے بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے، اس وبا کی بدولت گھر بیٹھے نہ صرف دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ملکوں تک ( زُوم کے ذریعے سے) پہنچ پہنچ کر مشاعرے لوٹنے لگے۔ بھلا بتائیے، کیا اب آپ ان سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت! سماجی فاصلہ برقرار رکھیے۔
فاصلے تو عزیزو! بیٹھے بٹھائے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں جہاں اور بہت سی باتیں ایسی ہورہی ہیں جو کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آئی تھیں، وہیں بچارے عدیمؔ ہاشمی کے ساتھ بھی ایک دن ہاتھ ہوگیا۔ Social Distancing دیکھ کر بھونچکا رہ گئے۔کہنے لگے:۔

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

قرنطینہ کے لیے بنائے گئے ’شیشہ گھر‘ کے باہر کھڑے ہوکر کہی ہوئی اس غزل میں اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’میں اُسے محسوس کرسکتا تھا، چھو سکتا نہ تھا‘‘۔اور یہ بھی کہ:۔

مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیمؔ
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

وغیرہ۔ یہ ساری علامتیں کورونا کی ہیں۔مصلحت کا قرنطینہ ہو یا قرنطینہ کی مصلحت،جانے پہچانے لوگ بھی اجنبی نظر آتے ہیں۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کے پھیپھڑوں میں پھڑپھڑاتا ہوا ’انگلش فوبیا‘ بھی شاید بدیسی کورونا ہی کی کوئی وبا ہے۔ تب ہی تو ابلاغیات کی نئی نسل انگریزی کا ڈھاٹا باندھ کر اردو سے ایک ’’سماجی فاصلے‘‘ پر کھڑی ہوگئی ہے۔ اپنے اِن نوجوانوں میں قوتِ مدافعت پیدا کرنے کے لیے ہم پچھلے (وَبا زدہ) سال سے اردو کی جُدرین (Vaccine) جمعے کے جمعے دیے جارہے ہیں، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بھی صرف پینسٹھ سال سے اوپر کے بزرگ ہی استفادہ کررہے ہیں۔کبھی کبھی خوراک بڑھ جانے پر بڑبڑانے بھی لگتے ہیں۔
بہرحال تیماردار کا فرض تو مریض کو بہلا پھُسلا کر خوراک دینا ہے، خواہ وہ چیخے یا چلاّئے یا بڑبڑائے۔ سو، نئی نسل کو معلوم ہو کہ فاصلے کا لفظ فصل سے بنا ہے۔ فصل کا مطلب ہے جدائی۔ یہ وصل کی ضد ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؔ فرماتے ہیں:۔

تُو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی

یعنی تُو لوگوں کو ملانے کے لیے آیا ہے، نہ کہ انھیں جدا کرنے کے لیے۔ اسی طرح’فاصِل‘ جدا کرنے والے یا فاصلہ پیدا کرنے والے کو کہتے ہیں، اور واصل ملانے یا جوڑنے والے کو کہتے ہیں۔ سلیمؔ احمدکی ایک حمد کا یہ مشہور شعر شاید آپ نے بھی پڑھا ہوگا:۔

ہے خطِّ واصل کہ حدِّ فاصل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
سلیمؔ عاجز ہے فہمِ کامل، کہاں بشر ہے، کہاں خدا ہے

’فصل‘ ہی سے دوری اور مسافت کے معنوں میں لفظ فاصلہ بنا۔ امیرؔ مینائی کہتے ہیں:۔

پڑی نگاہ جو دل پر تو حسرتوں نے کہا
کہ تیر بھر کا ہے دلبر سے فاصلہ دل کا

الگ الگ کرنے کے مفہوم سے فصل کے وہ معنی بھی پیدا ہوئے جو رُت یا موسم کے ہیں۔ ہر رُت الگ ،ہر موسم جدا ہوتا ہے۔ اسی نسبت سے پیداوار اور کھیت کو بھی فصل کہاگیا۔ ’ہر طرف فصلیں لہلہا رہی ہیں‘۔ یا ’اس سال گنے کی فصل اچھی ہوئی ہے‘۔ سال کو بھی چارفصول میں بانٹ دیا گیا۔ گرما، سرما،خزاں،بہار۔مومنؔ کا شعر ہے:۔

کیا گُل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گُل تو دور
اور سُوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

اس بھاگا دوڑی کے باوجود کتاب کو ابواب میں تقسیم کردیا گیا اور اسے بھی فصل کہا گیا۔ جب باہر بھاگنے والوں کو روکنے کے لیے یا باہر سے بھاگ بھاگ کر اندر آنے والوں کے رستے بند کرنے کے لیے شہرکے گردا گرد چار دیواری کھینچی گئی تو وہ بھی ’’فصیل‘‘کہلائی۔ کسی واقعے یا کسی معاملے کے تمام ٹکڑے ایک ساتھ جوڑ کر بیان کردیے جائیں تو اسے ’’تفصیل‘‘ کہتے ہیں، اور تفصیل اس طرح پوچھی جاتی ہے:۔

اب ذرا تفصیل سے اے قاصد خوش رو بتا
پہلے اُس نے کیا کہا؟ پھر کیا کہا؟ پھر کیا کہا؟

فصل کا ایک معنیٰ جھگڑا چکانا بھی ہے۔ یعنی غلط اور صحیح کو جدا جدا کردینا۔ اسی کو فیصلہ کہتے ہیں۔ قیامت کے دن کو ’’یوم الفصل‘‘ کہا گیا ہے۔ یعنی فیصلے کا دن۔ اُس دن سارے جھگڑے چکا دیے جائیں گے۔ فیصلہ کرنے والے کو ’’فیصل‘‘ کہتے ہیں، خواہ وہ قاضی و حاکم ہو یا کوئی بات۔ فیصلہ کردینے والی بات ’’فیصلہ کُن بات‘‘ یا ’’قولِ فیصل‘‘ کہلاتی ہے۔
بات سماجی فاصلے یا جسمانی فاصلے سے چلی تھی۔ عادت سے مجبور کالم نگار فاصلہ اختیار کرتے کرتے کھیت میں گھس گیا اور فصلیں خراب کرنے لگا۔ حالاں کہ یہ کام فصلی بٹیرے بہ تمام و کمال کر ہی رہے تھے۔ مگرآپ اِس فیصلے پر نہ پہنچ جائیے گا کہ فاصلہ اختیار کرنے کے لیے صَرف و نحو کی یہ سب تفصیل جاننا ضروری ہے۔ جی نہیں۔ اس کے بغیر بھی آپ منہ پر ڈھاٹا باندھ کر مزے سے فاصلے پر کھڑے رہ سکتے ہیں۔ البتہ اگر یہی تفاصیل آپ بھی بیان کرنا شروع کردیں تو امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی فاصلے ہی پر رہا کریں گے۔