لانگ مارچ کی تیاریاں

لانگ مارچ کے اختتام پر پی ڈی ایم جماعتوں کے درمیان بداعتمادیاں پروان چڑھنے کا قوی اندیشہ موجود ہے

بلوچستان میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے26 مارچ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام سمیت صوبے کی بڑی سیاسی جماعتیں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اورنیشنل پارٹی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ چونکہ مولانا فضل الرحمٰن اتحاد کی صدارت کررہے ہیں، اس لحاظ سے جے یو آئی پر ذمے داریاں زیادہ ہیں۔ بلوچستان مولانا کی جماعت کا اہم اور بڑا عضو ہے جس کے بغیر مطلوبہ عددی ہدف پانا مشکل ہے۔ پی ڈی ایم بلوچستان کی بھی اہم اور بڑی جماعت جے یو آئی ہے جو لانگ مارچ اور دھرنے کا تجربہ رکھتی ہے، اور اِس مرتبہ بھی بارِ گراں جمعیت کے شانوں پر رہے گا۔ یقیناً پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی وسیع سیاسی حمایت رکھنے والی جماعت ہے جس کے وابستگان پارٹی نظم و ضبط کے پابند ہیں۔ اس جماعت نے بھی اسلام آباد کی جانب مارچ کی تیاریاں شروع کررکھی ہیں۔ یہ جماعت بلاشبہ کارکنوں کی بھرپور شرکت یقینی بنائے گی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کی شرکت سے احتجاج کی فضا دوچند ہوگی۔
صوبے میں لانگ مارچ کا آغاز کوئٹہ سے ہوگا۔ ممکن ہے مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی اور دوسرے بڑے کوئٹہ سے مارچ کی قیادت کریں۔ اس ضمن میں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا اسلام آباد پہنچنے پر پی ڈی ایم اہم مقاصد حاصل کر پائے گی؟ کیوں کہ پی ڈی ایم میں ایک رائے اسمبلیوں سے استعفوں کی بھی موجود ہے کہ اس کے بغیر لانگ مارچ فائدہ مند نہیں ہوگا، اور یہ کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز آخری لائن عبور کرنے میں کتنی سنجیدہ ہیں۔
پچھلے لانگ مارچ اور دھرنے میں جے یو آئی کو مایوس ہونا پڑا۔ اس کے ہزاروں کارکنوں کو مارچ، دھرنے اور واپسی میں بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔ جے یو آئی کے اندر کے ناقدین تب اور آج بھی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن استعمال ہوچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے وعدوں کے باوجود ساتھ نہ دیا۔ ناقدین 26مارچ کے متوقع احتجاج کے حوالے سے رائے ر کھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر ’’نیمے بروں نیمے دروں‘‘ کا نمونہ ہوگی۔ گویا اس لحاظ سے کُلّی بوجھ جے یو آئی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اٹھائیں گی۔ خصوصاً پیپلز پارٹی ہارڈ لائن اختیار کرنے کے سرے سے حق میں نہیں ہے۔ وہ مفاہمت یا دوسرے لفظوں میں ’کچھ لو کچھ دو‘ کی سیاست کی قائل ہے۔ چناں چہ اس لانگ مارچ کے اختتام پر پی ڈی ایم جماعتوں کے درمیان بداعتمادیاں پروان چڑھنے کا قوی اندیشہ موجود ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال ستمبر میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں اسمبلیوں سے استعفوں اور ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ ہوا تھا، مگر پیپلز پارٹی ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ یوں ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا گیا، یہاں تک کہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشستوں پر بھی مقابلہ کیا گیا، اور دونوں عہدوں پر پی ڈی ایم شکست سے دوچار ہوئی۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو حزبِ اختلاف کے سات ووٹ نہیں پڑے، جبکہ صادق سنجرانی اور مرزا محمد آفریدی جیسے غیر سیاسی و غیر معروف اشخاص چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔ صادق سنجرانی پیپلز پارٹی ہی کے پسندیدہ تھے۔ آصف علی زرداری نے رضا ربانی جیسے کھرے اور کہنہ مشق سیاست دان کو نظرانداز کرکے اُنہیں فوقیت دے دی تھی، نتیجتاً سنجرانی کسی اور کے پہلو میں جا بیٹھے۔ غرض پیپلز پارٹی اب بھی اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کے واضح مؤقف کی حامل ہے۔
دوسری جانب حکمران جماعت و اتحاد کا سینیٹ الیکشن میں کامیابی کے بعد اعتماد مزید بڑھا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے تو صادق سنجرانی کی کامیابی کو بلوچستان اور پاکستان کی جیت کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوتے تو بلوچستان اور پاکستان ہار جاتے! بہت ہی عجیب منطق و استدلال ہے۔ خوشامد کی بھی حد ہوتی ہے۔ کوئی جام کمال سے پوچھے کہ کیا عبدالقادر کی بلوچستان سے جیت، حکومتی ارکانِ اسمبلی پر نوٹوں کی بارش، حتیٰ کہ حزبِ اختلاف کے دو ارکان کے ووٹ کی خرید، اور ثمینہ ممتاز کی جیت بھی بلوچستان اور پاکستان کی جیت ہے؟ کوئی بندہ صاحب ِاختیار ہوتا تو یہ دو شخصیات کسی طور بلوچستان سے سینیٹر منتخب نہ ہوتے، نہ ہی کسی کو جرأت ہوتی کہ وہ صوابی کی ستارہ ایاز کو سینیٹ انتخابات کے لیے کوئٹہ بھجواتا۔ شاید اپنی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی کے اعتراض پر ستارہ ایاز کو دست بردار کرانا پڑا، کیوں کہ اس خاتون کا تعلق اے این پی سے تھا، اور وہ اے این پی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنی تھیں۔ 2018ء کے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پارٹی فیصلے کے برعکس انہوں نے سنجرانی کو ووٹ دیا، اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر بھی پارٹی فیصلے کی پاس داری نہ کی۔ اس پر اے این پی نے انہیں پارٹی سے نکال باہر کیا۔ چونکہ ستارہ ایاز بلوچستان سے سینیٹ الیکشن نہیں لڑسکی تھیں، اس لیے جام کمال خان کے ذریعے انہیں دوسرے راستے سے فعال رکھا گیا، یعنی اب موصوفہ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی کے امور پر وزیراعلیٰ بلوچستان کی کوآرڈی نیٹر مقرر کردی گئی ہیں۔
لانگ مارچ کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان بھی قدرے تذبذب میں ہوگی، وہ اس لیے کہ یہ جماعت بلوچستان حکومت میں شامل ہے، اور پارٹی کے دو ارکان صوبائی کابینہ کا حصہ ہیں۔ پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی بھی اسمبلی کے رکن ہیں۔ یعنی لانگ مارچ میں شرکت کریں تو کیسے کریں؟