خواتین کا عالمی دن: ”مضبوط عورت، محفوظ خاندان اور مستحکم معاشرہ“۔

اسلام آباد میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد خان کا سیمینار سے خطاب

پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا آمرانہ دور ہونے کے باوجود ایک طبقے کی جانب سے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی پیش رفت کے حوالے سے کچھ رعایت دی جاتی ہے، مگر اُسی دور میں دو ایسے واقعات ہوئے کہ بعد میں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ ضیاء الحق دور میں اُس وقت کے گورنر سندھ کی اہلیہ کی قیادت میں خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کے لیے ایک مظاہرہ ہوا، اور دوسرا واقعہ یہ کہ جہادِ افغانستان کے دوران افغان مہاجرین کے کیمپوں میں امریکی آشیرباد سے حقوقِ نسواں تحریک شروع ہوئی۔ ضیاء الحق دور کے بعد نوازشریف کے دوسرے دور تک اس معاملے میں ملک میں قدرے خاموشی رہی، تاہم جنرل پرویزمشرف نے بلدیاتی اداروں سے لے کر پارلیمنٹ تک خواتین کو33 فی صد نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا تو گویا ملک میں ایسی ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں کہ جیسے اس ملک میں خواتین کہیں غاروں کے زمانے میں رہ رہی تھیں۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں حدود آرڈیننس تبدیل ہوا، اور اس میں ایسی تبدیلیاں لائی گئیں کہ مسلم لیگ(ق) کی معتدل مزاج قیادت بھی جنرل پرویزمشرف کو ناں نہ کرسکی۔ متحدہ مجلس عمل نے احتجاج کیا جو بے وزن ثابت ہوا۔ مسلم لیگ(ق) کے چودھری شجاعت حسین نے چیلنج دیا کہ اگر کوئی پارلیمانی جماعت 31 دسمبر تک بھی حدود آرڈیننس کو غیر اسلامی ثابت کردے تو حکومت اپنا اقتدار چھوڑ دے گی، مگر کسی بھی پارلیمانی جماعت کی جانب سے حدود آرڈیننس میں تبدیلی کے لیے رائے یا سفارشات نہیں دی گئیں۔ حدود آرڈیننس کے لیے حکومت کو اس وقت ملک کے جید علماء کی حمایت اور تائید بھی میسر رہی۔ حکومت ختم ہوئی تو محترم قاضی حسین احمد نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائر کی کہ عدلیہ ملک میں بڑھنے والی بے حیائی کو روکے۔ یہ رٹ درخواست آج تک زیر سماعت ہے اور عدلیہ اس پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکی ہے۔
بہرحال وقت گزرنے کے ساتھ ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی کے نام پر بہت کچھ ہوتا رہا اور ہورہا ہے۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا فلسفہ اور نعرہ ملک میں ایک وبا کی مانند پھیل رہا ہے، اس دلیل کے سامنے کوئی دوسری دلیل تسلیم نہیں کی جارہی۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی، اور پارلیمنٹ بھی بااختیار ہونے کے باوجود پابند ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 31 کی حد میں رہ کر ہی قانون سازی کرسکتی ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ این جی اوز کے سامنے بے بس ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کے عالمی ایام منائے جاتے ہیں، تاہم کچھ برس سے پاکستان میں 8 مارچ کو یومِ خواتین اس انداز میں منایا جانے لگا ہے کہ ملک کی خواتین کی بہت بڑی اکثریت یومِ خواتین کے موقع پر دیے جانے والے پیغام سے متفق نہیں ہے۔ اِس سال بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر میں خواتین کے حقوق پر مختلف سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں، جبکہ سول سوسائٹی کی جانب سے خواتین کے عالمی دن پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے پنجاب کے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے تحت پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی تفریق کے خاتمے کے حوالے سے ایک ویبینار منعقد کیا۔ ’’خواتین کی معاشی خودمختاری کے ذریعے پاکستان میں صنفی تفریق میں کمی‘‘ کے عنوان سے عالمی یومِ خواتین کی مناسبت سے منعقدہ اس ویبینار کا مقصد پاکستان میں صنفی تفریق کے خاتمے کے حوالے سے اظہارِ خیال کرنا تھا۔ اس ویبینار کا مقصد پاکستان میں خواتین کے لیے خودمختاری کے حصول کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور صنفی تفریق جیسی رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے اقدامات اور پالیسیوں پر بات چیت کرنا تھا۔ ویبینار میں پنجاب کی قائمہ کمیٹی برائے جینڈر مین اسٹریمنگ کی چیئرپرسن عظمیٰ کاردار نے قائداعظم کا قول بیان کرتے ہوئے کہا کہ 50 فیصد سے زائد خواتین والے ملک کی ترقی میں یہ صنف اہم کردار ادا کرسکتی ہے، اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جگہ بنانا چاہتے ہیں تو خواتین کو خودمختار بنانا ہوگا۔ ویبینار میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن پنجاب سارہ اسلم، عمر اخلاق ملک، وقار احمد، سلمان صوفی و دیگر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
یومِ خواتین کے موقع پر جو نعرے لگائے گئے، وہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس پر کھلا حملہ تھے۔ اس کے برخلاف جماعت اسلامی نے یوم خواتین کے موقع پر ’’مضبوط عورت، محفوظ خاندان اور مستحکم معاشرہ‘‘ کے عنوان سے پروگرامات کیے۔ اسلام آباد میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایک پروگرام میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کیا۔ اسلام آباد میں ہی جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے ایک مقامی ہوٹل میں خواتین کے پروگرام میں شرکت کی اور جماعت اسلامی کی پالیسی، ترجیحات اور حکمتِ عملی سے خواتین کو آگاہ کیا۔ یہ دونوں پروگرام خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے لگائے جانے والے نعروں کے جواب میں ایک معاشرے کی جانب سے بڑی مزاحمت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ وفاقی حکومت کے لیے یہ نعرے ایک سوالیہ نشان ہیں، اسی لیے وزیر مذہبی امور بھی متحرک نظر آتے ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کا کہنا ہے کہ عورت مارچ کے موقع پر مبینہ متنازع بینرز اور گستاخانہ نعروں کی تحقیقات کی جارہی ہیں، ملوث کرداروں کے خلاف مقدمات دائر کریں گے، بینرز کو فوٹو شاپ کرکے نشر کرنے والے عناصر کو بھی سزا ملے گی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان عاشقانِ رسولؐ کا ملک ہے، یہاں پر شانِ رسالتؐ میں گستاخی کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی، مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر جاری مبینہ مواد کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔