پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ کی یاد میں

پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا محترم متین الرحمٰن مرتضیٰ پر فرائیڈے اسپیشل کے لیے لکھا گیا خصوصی خاکہ ترمیم اور تلخیص کے ساتھ رحلت پر شائع کیا جارہا ہے۔ زیر نظر خاکے کی آخری سطور وفات کے بعد لکھی گئی ہیں اور یہ اضافہ تازہ ہے۔

استادِ محترم متین الرحمٰن مرتضیٰ بھی دار ِفانی سے رخصت ہوگئے۔میں اگر کبھی اپنے اساتذہ ٔ کرام کو ذہن میں لاؤں اور سوچوں کہ اسکول کے زمانے سے یونی ورسٹی کی تعلیم تک وہ کون سا استاد ہے جس نے میری فکر کی تشکیل میں ذرا سا بھی حصّہ لیا ہو، جس کی رہ نمائی سے مجھے روشنی ملی ہو، جس نے میرے لکھنے پڑھنے خصوصاً لکھنے کے شوق میں میری مدد کی ہو اور پھر عملی زندگی میں بھی جس کی شفقت اور سرپرستی سے میرے مستقبل کی راہیں استوار اور ہموار ہوئی ہوں، تو ایک ہی نام ہے، بہت محترم نام جن کا شمار میں اپنے محسن استاد کے طور پر کرتا رہوں گا۔ اُستادِ محترم جناب پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ۔
متین صاحب شعبہ ابلاغ عامہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے علاوہ ’’جسارت‘‘اخبار کے لیے اداریہ نویسی بھی کرتے تھے۔ یہ اداریے مسائل حاضرہ پر نہایت تجزیاتی، مدلل اور اسلوب ِ تحریر کے اعتبار سے لائق مطالعہ اور ہوش مندانہ۔ بھٹو حکومت کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں کا پول جس جرٔات مندی سے ان اداریوں میں کھولا جاتا تھا، اس سے خود بھٹو مرحوم کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا تھا۔ چناں چہ ایڈیٹر ’’جسارت‘‘ کوان ہی اداریوں کی پاداش میں جیل جاکر قید و بند کی صعوبتیںجھیلنی پڑیں، اخبار الگ بند ہوا۔ یہ بات قریبی حلقوں کے سوا بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ اداریے محمد صلاح الدین نہیں، متین الرحمٰن مرتضیٰ لکھتے ہیں۔ جسارت (اور بعد میں تکبیر ) کے اداریوں پر اس کے ایڈیٹر کا امیج بنتا رہا ا ور متین صاحب گم نام ہی رہے۔ لیکن اس کا کوئی قلق کبھی ان کے دل میں پیدا ہی نہ ہوا۔ سازشی عناصر اس پہلو کی طرف اشارہ کر کے جب بھی متین صاحب کو ایڈیٹر جسارت سے بدگمان ا ور برگشتہ کرنا چاہتے، متین صاحب کا جواب یہ ہوتا تھا:۔
۔ ’’بھئی اگر ان اداریوں کا کریڈٹ میرے بجائے محمد صلاح الدین کو دیا جاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے کہ صلاح الدین صاحب خود بہت اچھا لکھتے ہیں‘‘۔
دونوں کی دوستی مثالی تھی۔ ’’جسارت‘‘جماعت اسلامی کا ترجمان تھا۔ لیکن ہر دو حضرات نے اخبار کی پالیسی خصوصاً بھٹو کے عہد ستم میں ایسی رکھی کہ ’’جسارت‘‘اپوزیشن کی آواز بن گیا۔ اس کے پہلے صفحے پر خان عبدالولی خان، ایئر مارشل (ر) اصغر خان، شیر باز مزاری اور اپوزیشن کے دیگر رہ نماؤں کے بیانات سرخیوں اور شہ سرخیوں میں چھپتے رہے۔ جن لیڈروں کو حکومت کے خوف و احتیاط سے دوسرے اخباروں کے خبری صفحات پر جگہ نہ ملتی، ان کے بیانات ’’جسارت‘‘میںنمایاں کرکے چھاپ دیے جاتے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخبار کی سرکولیشن تقریباً ۷۵ ہزر تک پہنچ گئی۔ اس زمانے میں ’’جنگ‘‘کے سوا اتنی سرکولیشن مشکل ہی سے کسی اخبار کی تھی۔ اپوزیشن کے رہ نماؤں کے بیانات پر اداریے بھی قلم بند کیے جاتے رہے۔
ایک واقعہ جو مجھے متین صاحب ہی نے سنایا جس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اخبار کی ادارتی پالیسی ’’جماعتی اخبار‘‘ہونے کے باوجود کتنی آزاد تھی۔ ہوا یہ کہ70ء کے انتخابات کے زمانے میں مولانا مودودی نے امیر جماعت کی حیثیت سے بیان دیا کہ جماعت اسلامی انتخابات جیت کر قوم و ملک کو اسلامی آئین دے گی۔ متین صاحب نے مولانا کے اس بیان کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا اور اس پر کڑی گرفت کی۔ اداریہ نویس کا مؤقف تھا کہ اسلامی آئین دینا قوم کے منتخب نمائندوں کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ مولانا اگر یہ بیان دیتے کہ تمام دینی اور مذہبی جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوکر ایک اسلامی آئین پارلیمنٹ سے نافذ کرائیں گی تو یہ زیادہ قرین حقیقت بات ہوتی اور اس سے اختلافات ابھرنے کا اندیشہ بھی جاتا رہتا وغیرہ۔ اگلے روز اخبار چھپ کر آیا تو جماعت کے حلقوں میں کہرام سا مچ گیا۔ اس لیے کہ یہ تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ خود جماعت کے اخبار میں بانی اور امیر جماعت کے کسی بیان کا پوسٹ مارٹم بھی ہوسکتا ہے۔ بہت تنقید ہوئی، بہت انگلیاں اٹھیں۔ وہ تو خدا کا کرنا یہ ہوا کہ جس دن اخبار چھپ کر آیا، مولانا نے اداریہ پڑھ کر فوراً ہی اخبارات کو ایک وضاحتی بیان میں اپنے پرانے مؤقف سے رجوع کرلیا، ورنہ اس زمانے کی جماعت میں کشادگی فکر و نظر کا فقدان جانے متین صاحب اور صلاح الدین صاحب کو کس انجام سے دوچار کرتا۔ (الحمدللہ کہ اب ایسا نہیںہے۔ جماعت کی نوجوان قیادت اپنے جلسوں میںمخالف سیاست دانوں کو مدعو بھی کرتی ہے اور اپنے اوپر تنقید بھی سنتی اور سہتی ہے) اس بات میں ذرا مبالغہ نہیں کہ مولانا کی آنکھیں بند ہوتے ہی جنرل ضیاء کے دور میں یہ اندیشہ سچ ثابت ہوا۔ محمد صلاح الدین کی’’جسارت‘‘کی انتظامیہ سے جو تنازع پیدا ہوا اس کی وجہ بھی متین صاحب کا ایک اداریہ تھا۔ تو پھر ایم ڈی اخبار نے اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کیا اور متین صاحب سے کہہ دیا کہ وہ اس ذمّہ داری سے خود کو فارغ سمجھیں۔ یہ اطلاع صلاح الدین صاحب تک پہنچی تو انھوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اداریے کی اشاعت کی ذمّہ داری ایڈیٹر کی ہوتی ہے اور چوں کہ اداریہ بہ حیثیت ایڈیٹر میری اجازت سے شائع ہوا ہے تو اس کی ذمّہ داری قبول کرتے ہوئے میں بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوتاہوں۔ میںنے بھی فوراً ہی اپنا استعفیٰ لکھ کر بھجوادیا۔ اس لیے کہ میں اس اخبار سے متین صاحب کے اصرار و پیش کش پر وابستہ ہوا تھا۔ میری جسارت سے وابستگی کی کہانی یوں ہے کہ’’نوائے وقت‘‘کراچی سے نکلا تو میں نے ابتدا میں وہاں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہمایوں ادیب جو اس کے پہلے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے، لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہوا۔ دو دن چکر لگانے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ کسی نامعلوم سبب سے وہ مجھے رکھنا نہیں چاہتے۔ اپنی مطبوعہ تحریروں کا پلندہ اٹھائے دفتر ’’نوائے وقت‘‘سے مایوس نکل کر گرومندر کے اسٹاپ پہ کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے تویاد آیا کہ استاد محترم متین صاحب کئی بار ’’جسارت‘‘اخبار سے وابستگی کی کھلی آفر کرچکے ہیں اور میں بعض وجوہ سے وہاں جانے سے گریزاںتھا۔ بس اسٹاپ پہ ان باتوں کو سوچتے ہوئے خیال آیاکہ میں اس اخبار میں ملازمت کا خواہاں ہوں جو میری ناقدری پر تلا ہوا ہے اور جہاں قدر ہورہی ہے جس اخبار کے دروازے مجھ پر کھلے ہوئے ہیں وہاں جانے سے میں انکاری ہوں۔ مگر کیوں؟ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دفتر جسارت پہنچانے والی بس سامنے آکھڑی ہوئی۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھلانگ مار کر بس پر سوار ہوگیا۔ دفتر’’جسارت‘‘کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر پہنچا تو ایک کمرے میں استاد محترم کو اداریہ لکھنے میں مصروف پایا۔ انھوں نے سراٹھاکے استفہامیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔
عرض کیا:’’بہ سلسلہ ملازمت حاضر ہوا ہوں‘‘۔
یہ سن کے خوش ہوئے۔ اداریے کا قلم کاغذ پر رکھا اور میرا ہاتھ تھام کے ایڈیٹر جسارت کے کمرے میں لے گئے۔ صلاح الدین صاحب پہلے سے واقف تھے کہ رسالہ”عقاب “کے لیے ان کا ایک عدد انٹرویو کرچکا تھا۔ متین صاحب نے یہ کہتے ہوئے ایڈیٹر صاحب کی خدمت میں پیش کردیا۔
۔ ’’لیجیے۔ صاحب زادے آگئے ہیں‘‘۔
اس فقرے سے قیاس کیا کہ خاکسار کی تقرری کی بابت ہر دو حضرات میں پہلے سے کوئی بات چیت ہوتی رہی ہے۔ یوں میں ’’جسارت‘‘سے منسلک ہوگیا اور استاد محترم کی یہ کرم نوازی نہایت ’’بابرکت‘‘ثابت ہوئی کہ ’’جسارت‘‘میں صلاح الدین صاحب کی ادارت میں کام کرنے کی مکمل آزادی رہی اور تقریباً اکثر شعبوں میں کام کرکے بہت سیکھا۔ یہ بھی جانا کہ صحافت کے طلبہ کو اپنے کیریر کے آغاز میں کسی بڑے اخبار کے بجائے کسی چھوٹے ادارے کو ترجیح دینا چاہیے۔ بڑے اخبار میں کام کرنے اور کام سیکھنے کی آزادی کے وہ مواقع بہر حال نہیں ملتے جو چھوٹے اخبار میں باآسانی مُیسّر آتے ہیں۔
متین صاحب نے جس طرح ’’جسارت‘‘میں آگے چل کر پُر آشوب دن دیکھے، ’’جسارت‘‘سے ان کی وابستگی نے شعبے میں بھی بہ حیثیت استاد ان کی غیر جانب داری کو سیاسی طلبہ اور سیاسی اساتذہ میں مشکوک بنائے رکھاجس کا اظہار انھوں نے ریٹائرمنـٹ کے بعد میرے انٹرویو میں کیا۔ لیکن وہ طلبہ جن کے ذہن اور ضمیر کو بیمار زدہ سیاست نے مسموم نہ کیا تھا، انھوں نے متین صاحب کے علم اور دیانت و امانت کی ہمیشہ قدر کی اور ان سے نہایت ادب اور تعظیم سے پیش آئے۔ بلاشبہ وہ شعبے کے دو ایک اچھے اساتذہ میں سے تھے جو طلبہ کو صحافت کے ادب آداب اور تکنیک سکھانے کی اہلیت و مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے طلبہ و طالبات کو اعلیٰ صحافتی اقدار سے روشناس کرانے کے علاوہ ان میں کردار کی خوبیاں پیدا کرنے کی بھی کوششیں کیں۔
میں ان سے یوں بھی قریب تھاکہ جمعّیت کے اخبار ’’تحریک‘‘اور یونین کے رسالے ’’الجامعہ‘‘کے لیے جب بھی اداریہ لکھتا تو نظر ثانی اور اصلاح کے لیے ان کی خدمت میںضرور پیش کرتا تھا۔ وہ کہیں کوئی لفظ کاٹ کر موزوںلفظ لکھ دیتے۔ کبھی کسی تعلیمی مسئلے کی بابت کسی دلیل کی کمی پاتے تو زبانی بتادیتے جس کا میں بعد میں اداریے میں اضافہ کردیتا تھا۔ ایک مرتبہ خواتین یونی ورسٹی کے جواز پر کہ جمعّیت کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ یونی ورسٹی قائم کی جائے۔ میں نے اداریہ لکھنے کے لیے ان سے اس موضوع پر اپنا ذہن صاف کرنے کے لیے تبادلۂ خیال کیا۔ وہ بھی خواتین یونی ورسٹی کے حامی تھے، لہٰذا وہ اس کے حق میں خاصی دیر تک نہایت مدلّل گفتگو کرتے رہے۔ میں نے ان کے بتائے ہوئے پوائنٹس ذہن میں محفوظ کرلیے لیکن جب اداریہ لکھ کر ان کے پاس لے گیا تو وہ پڑھ کر اک ذرامتعجب ہوئے۔ پھر پوچھا:۔
۔’’یہ معلومات تمھیں کہاں سے ملیں؟‘‘۔
اس لیے پوچھا کہ اداریے میں ان کے دلائل رقم کرنے کے بجائے میں نے استاد محترم پروفیسر ز کریا ساجد جو فرانس اور امریکا میں طویل عرصہ مقیم رہ کر تشریف لائے تھے، ان سے مل کر یہ معلوم کرلیا تھا کہ کیا مغرب کے ان تعلیم یافتہ ملکوں میں لڑکیوں کے لیے الگ یونی ورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں، یا ساری تعلیم مخلوط اداروں میں دی جاتی ہے او ر ساجد صاحب نے یہ بتا کر مجھے حیران کردیا تھا کہ وہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے لڑکیوں کے علیحدہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ انھوں نے ان اداروں کے نام بھی گنوادیے۔ ظاہر ہے جب یہ معلومات ملیں تو اداریے کے دلائل مجرّد اور اصولی و نظریاتی ہونے کے بجائے ٹھوس حقائق پر قائم ہوگئے۔ جب میںنے متین صاحب کے استفسار پر حقیقت حال سے انھیں آگاہ کیا تو وہ خوش ہوئے۔ زبان سے تو کچھ نہ کہا لیکن انداز سے محسوس ہوگیا کہ انھیں اداریہ لکھنے کے لیے میری ’’مشقت‘‘اچھی لگی۔
حضرت عمرؓ کا قول مبارک ہے کہ کسی آدمی کو پہچاننا ہو تو اس کے ساتھ دستر خوان میں شریک ہو، اس کے ہمراہ سفر کرو یا پھر اس سے معاملہ کرو۔ تب ہی اسے تم پہچان سکو گے۔ میںنے متین صاحب کے ساتھ سفر کیا، طلبہ و طالبات کا ایک وفد لے کر ہم کل پاکستان تعلیمی دورے پر روانہ ہوئے۔ ہر جگہ خواہ وہ کسی اخبار کادفتر ہو یا سوات کے کسی زمیندار کا گھر اور اس کے حالی موالی، متین صاحب نے شعبے کا، مضمون کا، طلبہ اور اساتذہ کا تعارف اتنے عمدہ پیرایے میں کرایا کہ میں گفتگو اور تقریر میں ان کے فن کا قائل و گھائل ہوگیا۔ غالباً کسی شہر کے ہوٹل میںہم لوگ ٹھہرے، مرد اساتذہ کے لیے ایک کمرہ بک ہوا۔ یہ کمرہ ہم دونوں کے لیے تھا جس میںا یک ہی بستر پڑا تھا۔ میں نے سر سے گزارش کی کہ وہ اس پہ سوجائیں، میں فرش پر گدّاڈال کر سوجاؤ ںگا۔ انھوں نے خاموشی سے میری گزارش سنی، کچھ جواب نہ دیا۔ کسی کام سے ہی کمرے سے باہر نکلا، واپسی پر ذرا دیر ہوگئی، واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ استاد محترم فرش پر گدّا ڈالے میٹھی نیند سورہے ہیں۔ میں عجیب مخمصے میں گرفتار ہوگیا۔ اٹھاتا ہوں تو نیند خراب ہوتی ہے، خود بستر پہ سوتا ہوں تو نیند کیسے آئے گی کہ امام ابو حنیفہ ؒ کی بابت علامہ شبلی نعمانی کی کتاب ’’سیرت النعمان‘‘میں پڑھ رکھا تھا کہ امام اعظم ساری زندگی اس رخ پر پاؤں پسار کے نہ سوئے جس رخ پر استاد مکرم کا گھر تھا۔ یہ یاد آنا تھا کہ سر کو نیند سے جگایا اور بستر پہ جانے کی درخواست کی۔ وہ کسی طرح تیار نہ ہوتے تھے لیکن جب یہ عرض کیا کہ ’’سر! یہ بستر میرے لیے انگاروں کا بستر ہوگا‘‘تو چپ چاپ اٹھے اپنی چھوٹی چھوٹی گہری نگاہوں سے دیکھا جن میں شفقت ہی شفقت تھی اور پھر بستر پہ دراز ہوگئے۔
متین صاحب سچّے اور کھرے پاکستانی تھے۔ پاکستان کی سالمیت،بقا اور ترقّی کے لیے انھوں نے اپنے قلم کو وقف کیے رکھا۔ خود ان کے بیان کے مطابق جسارت اور تکبیر کے لیے انھوں نے تقریباً چار ہزار سے زاید اداریے لکھے۔ یہ ان مضامین اور مقالات کے علاوہ ہیں جو وہ علمی اور تحقیقی رسائل کے لیے رقم کرتے رہے۔ انھیں کبھی شہرت اور ناموری کا خواہش مند نہیں پایا۔ لکھنے سے اور لکھ کر جو آسودگی اور مسرّت ہر صاحب قلم کو مُیسّر آتی ہے، وہ ا سی پر ہمیشہ قانع رہے۔ البتہ اپنی تحریر میں انھیں کسی قسم کی ایڈیٹنگ اور قطع و برید کبھی گوارہ نہ ہوئی۔ ’’جنگ‘‘، اخبار میں ان کی مضمون نگاری جو اسی ادارے کی فرمائش پر شروع ہوئی تھی، زیادہ دنوں تک اسی لیے نہ چل سکی کہ اخبار ان کی بے لاگ سچائی کا متحمل نہ ہوسکا اور جب ’’قابلِ اعتراض‘‘ فقرے قلمزد کیے گئے تو دوسرے کالم نگاروںکی طرح انھوں نے اسے ٹھنڈے پیٹوں، مارے باندھے برداشت نہ کیا اور ہاتھ آئی شہرت اور ہر دل عزیزی کو آزادی ٔ اظہار پر قربان کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی دیر نہ لگائی اور ’’جنگ‘‘کے لیے لکھنا بند کردیا۔’’جنگ‘‘ اخبار ہی کے حوالے سے ایک اور واقعہ یاد آتا ہے۔ جب میر شکیل الرحمٰن صاحب اپنے والد کے نئے نئے جانشین بنے اور اخبار کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کالم نگاروں کو زیادہ معاوضہ دے کر توڑنے کی ’’بدعت‘‘کا آغاز کیا تو اسی سلسلے میں انھیں ’’جنگ‘‘کے خشک، بے رنگ اور بے جان اداریے کو بھی بہتر بنانے کی فکر ہوئی۔ ’’جسارت‘‘کے اداریے تب بھی پڑھے جاتے تھے۔ چناں چہ وہ متین صاحب کا سراغ لگاکے ان کے گھر جاپہنچے اور انھیں بھاری معاوضے پر ’’جنگ‘‘کے لیے اداریہ لکھنے کی پیش کش کی۔ متین صاحب نے مسکرا کر ان کی ’’آفر‘‘کو سنا اور پھر فرمایا:
۔’’میر صاحب آپ ’’جنگ‘‘کے لیے لکھنے کی آفر لے کر آئے ہیں کہ میں ’’جسارت‘‘کے بجائے ’’جنگ‘‘کے لیے اداریہ لکھوں۔ اب اس معاملے میں فرق صرف اتنا ہے کہ آپ نے ’’جنگ‘‘کی آغوش میں آنکھ کھولی ہے اور ’’جسارت‘‘ میری گود میں پروان چڑھا ہے۔ کیا آپ اس فرق کو محسوس نہیں کرتے؟ بھلا ’’جسارت‘‘چھوڑ کر ’’جنگ‘‘کیسے جوائن کرسکتا ہوں‘‘۔
یقیناً میر شکیل صاحب کے ’’بھاری نوٹوں‘‘نے پہلی بار ہزیمت اٹھائی ہوگی اور میر صاحب کو بھی اندازہ ہوا ہوگا کہ اس ملک میں جسے تجارت پیشہ عیارو چالاک لوگوں نے بتدریج ایک نیلام گھر میں بد قسمتی سے تبدیل کردیا ہے جہاں نیلامی بولی دے کر ہر”صلاحیت“خریدی جاسکتی ہے، ابھی کچھ اصول پسند لوگ بھی بستے ہیں جو اپنی صلاحیت اور اپنی روح کے ہر سودے سے انکاری ہیں۔ چاہے یہ انکار، یہ معذرت کروڑوں اور اربوں کھربوں کی دولت میں کھیلنے والے مالکان میڈیا ایمپائر کی نظروں میں ناقابل فہم ہی کیوں نہ ہو اور اس سے بڑھ کر وہ اسے سادگی یا حماقت ہی کیوں نہ سمجھیں۔
۔’’جسارت‘‘الطاف حسن قریشی صاحب نے پہلے پہل ملتان سے جاری کیا تھا اور متین صاحب اس کو جاری کرنے والی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے ملتان گئے تھے اور ایک عرصے تک وہیں قیام کرکے جسارت کے لیے کام کرتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کا یہ کہنا کہ جسارت میری گود میں پلا بڑھا یا پیدا ہوا، مبنی بر حقیقت تھا، اس میں ذرا بھی مبالغہ نہ تھا۔ وہ جماعت اسلامی کے اس اخبار سے اپنے ’’نکالے جانے تک‘‘منسلک رہے۔ متین صاحب مزاجاً تو صحافی ہی تھے اور اعلیٰ پائے کے صحافی تھے کہ حالات ِ حاضرہ پر ان کی نظر گہری اور معلومات میں وسعت تھی لیکن ان کے ذہن اور حافظے کی جہاں تک بات ہے، اس کی مثال بھی چٹان ہی سے دی جانی چاہیے کہ فرد ہو یا کوئی واقعہ، کوئی رائے، کوئی تجزیہ جب ایک بار وہ کرلیتے تو پھر اس سے کسی طرح دست کش نہ ہوتے تھے۔الّا یہ کہ وہ شخص نئے سرے سے اپنے برتاؤ اور صورت معاملہ سے ان کی راے کو بالکل ہی عاجز کرکے بدلنے پر مجبور نہ کردے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر کسی کے بارے میں کوئی راے قائم کرتے ہیں اور چوں کہ آدمی کو گہرائی سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں تو راے بعد میں بھی درست اور صائب ہی نکلتی ہے۔ متین صاحب آزادی کے وقت آگ اور خون کے دریا کو عبور کرکے آزاد وطن کی سرحدوں میں جس خستہ تنی اور سراسیمگی و افرا تفری کی حالت میں داخل ہوئے اس کی خونچکاں داستان انھوںنے ایک مختصر سی کتاب ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘میں بیان کی ہے۔ یہ داستان جس درد مندی، خلوص اور سچائی سے لکھی گئی ہے اور اس میں 1947ء کے فسادات سے پیدا ہونے والی الم ناکی، بے بسی اور انسانی حرماںنصیبی کی جو تصویر دکھائی گئی ہے، اسے ہر پاکستانی خصوصاً نئی نسل کو ضروردیکھنی چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ یہ ملک ہمیں اغیار نے طشت میں سجا کر پیش نہیں کیا۔ اس داستان کے دوسرے کردار ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر معین الرحمٰن ہیں جو اردو ادب کے ممتاز نقّاد اور محقق گزرے ہیں۔
متین صاحب کے گھرانے نے یہاں آکر بھاول نگر میں قیام کیا۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد متین صاحب کراچی آگئے اور یہاں انھوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے قائم کردہ اردو کالج میں داخلہ لیا۔ مولوی صاحب زندہ تھے، ان سے ارادت پیدا ہوئی جو آخری وقت تک قائم رہی۔ متین صاحب اکثر ان کے قصّے اور واقعات بیان کیا کرتے تھے۔ اردو کالج سے گریجویشن کرکے متین صاحب نے شعبۂ صحافت کراچی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، پروفیسر شریف المجاہد چیئر مین تھے۔ یہیں سے ان سے مراسم قائم ہوئے اور مجاہد صاحب ہی انھیں بہ صد اصرار شعبے میں بہ طور استاد لے کر آئے۔ استاد کے طور پر متین صاحب نے شعبے اور طلبہ کو جو کچھ علم اور تربیّت کے حوالے سے دیا، اس کا کچھ تذکرہ تو پیچھے آچکا ہے لیکن ایک کام وہ ایسا کرگئے جو پاکستان کی کسی یونی ورسٹی کے بہ شمول شعبۂ صحافت کسی مضمون کے بھی شعبے میں نہیں ہوا۔ انھوں نے اردو زبان میں صحافت اور ابلاغ عامہ کے مضامین کے حوالے سے تقریباً ایک درجن نصابی کتابیں تیار کرکے شعبے ہی سے شائع بھی کیں۔ اس گراں قدر تعلیمی و نصابی خدمت میں انھوں نے اپنے طلبہ و طالبات کو راغب کرکے ان سے سا را کام لیا۔”نیو ز پیپر میگزین اینڈ بک پروڈکشن“’کے نصاب کے تحت ہونے والا یہ شاندار کارنامہ خود ان کے شعبے اور جامعات کے دوسرے شعبوں کے لیے ایک لائق تقلید مثال ہے۔ افسوس کہ ہماری اپنی یونی ورسٹی کی انتظامیہ اور کسی وائس چانسلر نے اس خدمت کی کوئی تحسین یا اعترافِ خدمت کی ضرورت محسوس نہ کی۔ حالاں کہ یہ کتابیں آج ملک کی دوسری جامعات کے طلبہ و طالبات کی نصابی ضرورتوں کو پورا کررہی ہیں۔ اور تو اور ان ہی کے بھائی کے بیٹے جو ماشاء اللہ سے لاہور میں ایک اشاعتی ادارے کے مالک ہیں، اپنے چچا کی مرتّبہ کتابوں کو اپنی ملکیت تصّور کرکے دھڑلے سے چھاپ چھاپ کر مال کمارہے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے اپنے چچا یعنی متین صاحب سے اجازت طلبی بھی ضروری نہ سمجھی۔ رائلٹی دینا یا منافع میں چچا کو شریک کرنا تو دور کی بات ہے۔کافی عرصے سے متین صاحب شوگر کے ہاتھوں ثقل سماعت، نقاہت کا شکار چلنے پھرنے سے بھی بڑی حد تک عاجز ہوچکے تھے۔
انھیں شوگر کے ساتھ پتے میں پتھری کی بھی شکایت تھی۔آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے سے ایک روز قبل ان کا فون آیا اور انھوں نے آپریشن کی اطلاع دی اور دعا کے لیے کہا۔مجھے کیا معلوم تھا کہ میں اپنے محسن استاد سے آخری بار ہم کلام ہوں اور آج کے بعد اِس دنیا میں ان سے پھر مخاطب ہونے کا موقع نہ ملے گا۔آپریشن کے بعد میں نے مزاج پرسی کے لیے فون کیا۔ گھنٹی بجتی رہی لیکن کسی نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔پیر کی رات اسلام آباد سے فاروق عادل نے سناونی دی کہ متین صاحب نہیں رہے۔شوگر کے مرض کے ہاتھوں وہ زندگی سے زچ ہوگئے تھے مگر مایوس پھر بھی نہیں تھےاور اپنے مضامین کا مجموعہ مرتب کرچکے تھے جسے کمپوز کراکے پروف خوانی کے لیے میں ان کے حوالے کر چکا تھا۔ہم ان کے شاگرد بھی ان کی کتابیں ہی ہیں جنھیں انھوں نے نہایت بے نفسی سے قلم بند کیا ہے۔روزِ محشر بھی ہم ہی گواہی دیں گے کہ وہ عہدے، منصب، شہرت اور حرص و ہوس سےبلند اور بے نیاز استاد اور دانشور تھے۔ایسا عظیم استاد جو اپنے اوصاف میں منفرد اور یگانہ تھا۔خداوند تعالیٰ ان کی لحد کو اپنے نور سے روشن رکھے اور ان کی بشری کمزوریوں سے صرفِ نظر کرے آمین۔وہ ہمیشہ یاد آتے رہیں گے۔