ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا

ڈاکٹر شکیل فاروقی

ڈاکٹر شکیل فاروقی بھی راہیِ ملکِ عد م ہوئے۔انا للہ واناالیہ راجعون۔ یقین نہیں آتا کہ کیسے یہ سب کچھ یکایک ہوگیا! جس کسی نے بھی شکیل صاحب کی طبیعت کے بارے میں پوچھا تو میں نے بہت اعتماد سے جواب دیا کہ اِن شاء اللہ طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔ یہ یقین اس لیے بھی تھا کہ ان کی صحت قابلِ رشک تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جوان نظر آتے تھے اور فٹنس اتنی کہ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے انتخابات کا مرحلہ درپیش تھا، ڈاکٹر شکیل فاروقی صاحب کو صدر اور مجھ کو جنرل سیکرٹری کے لیے ایک ہی پینل سے نامزد کیا گیا۔ اب مرحلہ تھا الیکشن مہم کا۔ اساتذہ سے ملاقاتیں کرنا اور پوری جامعہ کراچی کے ہر استاد کے دروازے تک جانا اور اس سے ملاقات کرنا… شکیل فاروقی صاحب دس بجے صبح ہمارے ہمراہ نکلتے اور دوپہر میں ہم سب نڈھال ہوتے اور کوشش ہوتی کہ اب تھوڑا آرام کرلیا جائے، لیکن فاروقی صاحب اُس وقت بھی تروتازہ نظر آتے۔ میں اپنے احباب سے کہتا کہ فاروقی صاحب اس عمر میں بھی ہم سے زیادہ جوان ہیں۔ ان سے اس مہم میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا، مثلاً کس طرح لوگوں تک اُن کے موضوع کے لحاظ سے باتیں کرکے اپنی بات پہنچانی ہے۔ کس طرح مختلف لوگوں کے درمیان تنازعات سے الگ ہوکر اپنی بات کہنی ہے۔ مقرر غضب کے تھے، اور کیوں نہ ہوتے، انجمن طلبہ جامعہ کراچی کا صدر ہو اور مقرر نہ ہو یہ ممکن نہیں، لیکن جب وہ بولتے تو مجمع پر سکوت طاری ہوجاتا۔ بلاتکان بولتے اور الفاظ گویا ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے۔ جامعہ کراچی سے وابستہ تو 1978ء میں بطور طالب علم انٹرمیڈیٹ کے بعد ہوگئے۔ شعبۂ نباتیات میں داخلہ لیا اور 1983ء میں بی ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اور اسی سال انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس کے اگلے سال 1984ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے صدر انجمن طلبہ جامعہ کراچی منتخب ہوئے، لیکن چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں طلبہ یونین کا خاتمہ کردیا، اور یوں یہ آخری صدرِ انجمن قرار پائے۔ طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک شروع ہوئی تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور اس جرم کی پاداش میں تقریباً سوا دو سال جیل بھی کاٹی۔ بعد ازاں جامعہ کراچی سے 1986ء میں ایم ایس سی کیا، اور 1988ء میں جامعہ کراچی سے بحیثیت لیکچرر وابستہ ہوئے۔ پی ایچ ڈی کی اسکالرشپ حاصل کی اور امریکہ چلے گئے۔ کنساس اسٹیٹ یونیورسٹی سے 1994ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ واپس جامعہ کراچی آئے اور دوبارہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ 1995ء میں اسسٹنٹ پروفیسر بنے اور اس کے بعد رکن سنڈیکیٹ جامعہ کراچی۔ شیخ الجامعہ کے مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ اس دوران شکیل فاروقی صاحب کا بڑا کارنامہ جامعہ کراچی کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ شعبہ جینیات کی نئی عمارت کے بنانے اور اس کے لیے فنڈز کے حصول میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے بعد ٹیچر ایجوکیشن کے شعبے کا قیام اور اس کی نئی عمارت ڈاکٹر شکیل فاروقی کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خوش گفتار کے ساتھ ساتھ خوش لباس شخصیت کے مالک تھے۔ ادب اور شاعری کا نفیس ذوق آپ کی پہچان تھی۔ اسی لیے جہاں بھی گئے اس کے نقوش چھوڑے۔ اسٹاف کلب جامعہ کراچی کی عمارت انتہائی مخدوش تھی تو ڈاکٹر فاروقی کو اسٹاف کلب کا کنوینر مقرر کردیا گیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس میں حیرت انگیز تبدیلیاں آنی شروع ہوئیں۔ پہلے ادبی محافل کا انعقاد شروع ہوا، اور اس کے بعد اس کی عمارت کی تزئین و آرائش… گویا اسٹاف کلب کا نیا روپ ایسا خوبصورت تھا جیسا کہ فاروقی صاحب کی شخصیت۔ انہوں نے اتنا کچھ کیا لیکن اپنی ترقی کے لیے کبھی کچھ نہ کیا۔ اسسٹنٹ پروفیسر تھے اور پروفیسر بننے کے اہل ترین فرد تھے لیکن کبھی درخواست جمع نہ کروائی۔ بہت مرتبہ پوچھا لیکن کوئی واضح جواب نہ دیا۔ اب ان کی موت کے بعد سمجھ میں آیا کہ انسان گریڈ یا عہدوں سے نہیں بلکہ اپنی شخصیت و کردار سے بڑا ہوتا ہے۔ ایسی دبنگ اور رعب دار شخصیت، پھر خوش لباسی و خوش گفتاری، اعلیٰ سائنسدان، بہترین مقرر، شاعر اور ادیب… ان سب کو کسی ایک انسان میں سمو دیا جائے تو اس کو شکیل فاروقی کا نام دیا جاتا ہے۔ 2016-17ء میں دو مرتبہ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے صدر منتخب ہوئے۔ گویا ایک نمایاں اعزاز، پہلے صدر انجمن طلبہ اور پھر صدر انجمن اساتذہ صرف شکیل فاروقی صاحب کے حصے میں آیا۔ اسی دوران ملک بھر کی جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ انجمن فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل کی متنازع شقوں کو ختم کروانے کی جدوجہد میں شامل رہے۔ گزشتہ سال جولائی میں ریٹائر ہوئے تو اس کے بعد ان کے بڑے بھائی انتقال کرگئے۔ بھائی کے انتقال کے بعد اپنے قریبی دوستوں سے گفتگو میں کہا کہ اب میرا بھی وقت قریب ہے۔ بات آئی گئی ہوگئی، کسی نے مذاق سمجھا، کسی نے شاید ڈپریشن… لیکن صرف دو ہفتوں میں جیتے جاگتے، ہنستے مسکراتے ڈاکٹر شکیل فاروقی راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔ ابھی تو بہت سے ایسے کام تھے جو ڈاکٹر فاروقی کو کرنے تھے، لیکن اللہ کو شاید منظور نہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ جامعہ کراچی کی تاریخ کو مرتب کیا جائے، اور میری نظر میں ڈاکٹر شکیل سے زیادہ موزوں آدمی اس کام کے لیے کوئی اور نہ تھا، کیونکہ پہلے انجمن طلبہ اور پھر انجمن اساتذہ، تقریباً چار دہائیاں جامعہ میں بطور طالب علم اور پھر بطور استاد دونوں حیثیتوں میں قیادت کا فریضہ انجام دیا۔ بہت سے واقعات کا عینی شاہد اور جامعہ کراچی کی حرکیات پر نظر رکھنے والا جوکہ سیاست اور تعلیم و تحقیق میں بھی یکساں مہارت رکھتا ہو، اور ادبی ذوق جوکہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے لازمی ہے شاید ان کے ہم عصروں میں کوئی نہ تھا۔
جامعہ کراچی سوگوار ہے۔ آج بھی ان کے گھر کے سامنے سے گزرا تو ایسا لگا کہ کوئی گھنا سایہ دار درخت تھا جو اب نہیں رہا۔ جامعہ کراچی میں عہد ِفاروقی کا خاتمہ ہوا۔ ظلم و زیادتی کے خلاف بلند ہونے والی چند آوازوں میں سے ایک بڑی توانا اور مستحکم آواز اب نہیں رہی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بہترین مہمان نوازی کرے، ان کی حسنات کو قبول فرمائے، گناہوں سے درگزر کرے، آمین۔ اور جامعہ کراچی کو پھر کوئی اور فاروقی نما فرد عطا فرمائے، کیونکہ اندھیرا مزید بڑھ گیاہے۔