ارمغانِ ایران

(مقالاتِ منتخبہ مجلہ ’’صحیفہ‘‘)

مرتب : ڈاکٹر وحید قریشی
صفحات : 194 قیمت: 250 روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلسِ ترقیِ ادب
2 کلب روڈ، لاہور
فون : 042-99200856,99200857
ای میل : majlista2014@gmail.com
ویب گاہ : www.mtalahore.com
استاذ الاساتذہ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے بے شمار تحقیقی و ادبی کتب لکھ کر اردو زبان کے ذخیرے میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی شکریے کے مستحق ہیں جن کی وجہ سے یہ عمدہ کتاب دوسری دفعہ طالب علموں اور اہلِ علم و تحقیق کی دسترس میں آئی ہے۔ اس کی طبع اوّل اکتوبر 1971ء میں منصۂ شہود پر آئی تھی، تقریباً پچاس سال کے بعد طبع دوم کا ظہور ہوا ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی تحریر فرماتے ہیں:۔
۔’’مجلہ ’’صحیفہ‘‘ میں ادبیاتِ فارسی سے متعلق جو مقالات شائع ہوتے رہے ہیں ’’ارمغانِ ایران‘‘ ان کا ایک مختصر سا انتخاب ہے۔ فارسی ادب برعظیم پاک و ہند میں مسلسل و متواتر روایت کے طور پر جاری و ساری رہا ہے۔ یہاں کی ادبی و فکری روایت کی تشکیل و تعمیر میں ایران کی تہذیبی اقدار ایک اہم اور قابلِ ذکر کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اس مجموعے کو ’’ارمغانِ ایران‘‘ کے نام سے یاد کرنے کا سبب بھی یہی ہے کہ ادبیاتِ فارسی در پاک و ہند فی الحقیقت ایرانی فکری و ادبی روایات کا عطیۂ خاص ہے۔ جشنِ دو ہزار و پانصد سالہ شاہنشاہیِ ایران کی تقریبات کی مناسبت سے یہ نذرانہ پیش کیا جارہا ہے۔
ایران اور برعظیم پاک و ہند کے ادبی و ثقافتی روابط ڈھائی ہزار برس سے کسی طرح کم نہیں۔ مسلسل ادبی اشتراک کی وجہ سے سرزمینِ پاک و ہند میں فارسی ادب کی مربوط روایت تشکیل پاتی رہی ہے جس میں مقامی عناصر کے اظہار کے باوجود مشترک تہذیبی اقدار کا پلہ بھاری رہا ہے۔ فکری و ادبی سطح پر اشتراکِ عمل کی ان لطیف و نظیف صورتوں کے دلکش نمونے ان ادبی نگارشات میں ظاہر ہوئے جو برعظیم پاک و ہند میں تخلیق ہوئیں۔ مذہبی، فکری اور ادبی روایات کی یک جہتی نے برعظیم کے فارسی ادب کو ایسی اقدار سے روشناس کیا جس کا اثر و نفوذ قومی زبانوں کے علاوہ فکری وحدت اور علاقائی ادبیات پر بھی ہوا۔ لیکن اس کی اعلیٰ ترین شکلیں ادبیاتِ فارسی ہی میں نمایاں ہوئیں۔
محمود غزنوی کی آمد کے بعد لاہور ادبی روایات کا امین ہوا۔ فارسی ادبی، دفتری اور سرکاری زبان ہی نہیں، بول چال کی زبان بھی تھی۔ اس سے غزنیں و لاہور کے درمیان فکر و نظر کے وہ رشتے قائم ہوئے جن کی وجہ سے دونوں شہروں کے طریقِ بود وباش اور مجالسِ ادبی و فرہنگی کا انداز ایک ہی سانچے میں ڈھلتا چلا گیا۔ مسلمانوں کے قدم دِلّی تک جاپہنچے تو لسانی و ادبی روایات کا دھارا برعظیم کے دوسرے شہروں میں پھیل گیا۔ فارسی بول چال کی زبان کے طور پر تغلق خاندان کے عہد تک مستعمل رہی ہے۔ ابن بطوطہ کے سفرنامے اور ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ کے اوراق گواہ ہیںکہ فارسی کی یہ حیثیت عہد ِ تغلق تک مسلّم تھی۔ اُن شہروں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، فارسی بول چال کی زبان کے طور پر مدتوں رائج رہی۔ ’’سفرنامۂ ابن بطوطہ‘‘ میں ایک ہندو عورت کے ستی ہونے کے سلسلے میں سرکاری مزاحمت پر عورت کا عربی عبارتوں کے درمیان فارسی میں یہ کہنا کہ:۔

۔’’مارا ازآتش می ترسانی؟ مامی دانیم کہ این آتش است‘‘۔
۔(تم ہم کو آگ سے ڈراتے ہو؟ ہم جانتے ہیں کہ آگ ہے)۔

اس بات کی دلیل ہے کہ فارسی ُس زمانے تک بول چال میں مروج تھی۔ فرمان روایانِ تیموری کی آمد کے بعد اگرچہ مقامی پراکرتوں نے نشوونما پائی تھی، پھر بھی فارسی کی سرکاری حیثیت مسلّم رہی۔ بول چال سے خارج ہوجانے کے باوجود فارسی کی تہذیبی و ثقافتی برتری قائم تھی۔ ایران اور برعظیم پاک و ہند کے درمیان آمدورفت کے مواقع بھی فراہم تھے اور ادبی اور انتظامی سطح پر باہمی اتحاد و اعتماد کی فضا موجود رہی۔ انگریزوں کے تسلط سے پہلے تک فارسی کو سماجی زندگی میں جو رتبہ حاصل رہا، اس کی وجہ سے مدتوں فارسی ادب کی ترویج و ترقی میں مقامی ادبا اہم خدمات انجام دیتے رہے۔ تیموری دربار نے ایرانی فضلا، ادبا اور شعرا کی سرپرستی و قدردانی کا حق ادا کیا اور اس طرح برعظیم کے فارسی ادب میں ایرانی افکار کی آمیزش کا عمل ایک فعال اور مؤثر عنصر کے طور پر جاری رہا۔ یہاں ایرانی ادبا کی جو قدردانی اور حوصلہ افزائی ہوئی اُس کی طرف علی قلی سلیم نے یوں اشارہ کیا ہے:۔

نیست در ایران زمین سامانِ تحصیلِ کمال
تا نیامد سوے ہندوستان حنا رنگین نشد

۔(ایران میں تحصیلِ کمال کے مواقع نہیں ہیں۔ جب تک حنا، مہندی ہندوستان نہیں آتی اس میں رنگ پیدا نہیں ہوتا ۔مطلب ہے ایرانیوں کی سچی پذیرائی اور ان کی فنی صلاحیتوں میں کمال ہند میں پیدا ہوتا ہے)۔
اس اشتراک و اتحاد کے نتیجے میں مقامی شعرا و ادبا نے ایران سے وارد ہونے والے ادبا و شعرا سے مل کر فارسی ادب کی آبیاری کی۔ سماجی عمل کے تحت یہاں کے ادب نے بعض خاص رنگ اختیار کیے۔ ادبِ فارسی میں مقامی عناصر کے تال میل سے نثر و نظم میں خاص خاص اسلوب وضع ہوئے۔ برعظیم میں فارسی کی جڑیں اس طرح پیوست ہوگئیں کہ مذہبی و فکری اقدار کا بنیادی سانچا تو وہی رہا جو فارسی کے توسط سے ہم تک پہنچا، لیکن مقامی اثرات نے اس میں بعض تفصیلات کا اضافہ کیا۔ مسعود سعد سلمان، ابوالفرج رونی، شہاب مہمرہ، عمیدالدین سنامی، امیر خسرو، حسن دہلوی، مطہر، مسعود بک، سید محمد گیسودراز اور جمالی کنبوہ سلطانی دور میں… اور فیضی، منیر لاہوری، ہاسم کشمی، داراشکوہ، غنی کاشمیری، برہمن، خوشحال خاں خٹک، غنیمت کنجاہی، ناصر علی سرہندی، بیدل، تیموری دورِ عروج میں فارسی شاعری کی ایک نئی روایت کے پاسبان ہوئے۔ تیموری دورِ زوال میں محسن ٹھٹوی، واقف لاہوری، آفرین لاہوری، قمر الدین منّت کے علاوہ غلام علی آزاد، خان آرزو، مظہر جانِ جاناں اور غالب کے نام زندہ رہیں گے۔ شاعری کے علاوہ نثر میں بھی برعظیم کے ادیبوں نے اپنا جداگانہ اسلوب نکالا۔ حسن نظامی، قاضی حمیدالدین ناگوری، امیر خسرو، حسن سجزی، ضیا الدین برنی، فیروز تغلق، سراج عفیف، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری، حضرت نور قطب عالم، خواجہ بندہ نواز گیسودراز، سید اشرف جہانگیر سمنانی، ابوالفضل، ملا عبدالقادر بدایونی، فیضی، خواجہ محمد ہاشم کشمی، حضرت خواجہ باقی باللہ، امام ربانی مجدد الف ثانی، عبدالحق محدث دہلوی، ہندو شاہ فرشتہ، نورالدین جہانگیر، اورنگ زیب عالمگیر، داراشکوہ، محمد صالح کنبوہ، منیر لاہوری، چندر بھان برہمن، عبدالحمید لاہوری، عبدالقادر بیدل، نعمت خاں عالی، شاہ ولی اللہ، خافی خاں، شاہنواز خاں، شیر خاں لودھی، غلام علی آزاد بلگرامی، خان آرزو، مظہر جانِ جاناں، محمد صادق خاں اختر، محمد حسن قتیل، غلام حسین طباطبائی، میر تقی میر، درگاہ قلی خاں، سید احمد شہید، مولوی حمیدالدین خاں بہادر اور اسد اللہ خاں غالب اسی ادبی متاعِ گراں بہا کے اہم عناصر ہیں۔
اس عظیم نثری اور شعری روایت کے نقوش ادبیاتِ فارسی کا ایک حصہ ہیں۔ ’’صحیفہ‘‘ کے زیر نظر مقالات بھی برعظیم کے فارسی ادب کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔ ’’صحیفہ‘‘ بنیادی طور پر اردو تحقیق سے متعلق ہے، لیکن برعظیم کی فارسی روایت کے ادراک کے بغیر اردو کی ادبی روایت کا ذکر ممکن نہیں، اس لیے اس میں وقتاً فوقتاً ادبِ فارسی سے متعلق بعض مقالے شائع ہوئے۔ آئندہ اوراق میں جو گلدستہ پیش کیا جارہا ہے وہ اسی حصے کا مجمل انتخاب ہے‘‘۔
کتاب میں جو مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:۔
٭ڈاکٹر شوکت سبزواری: دو قدیم ہند ایرانی مصوّتے
٭ ڈاکٹر نذیر احمد: خلجی اور تغلق دور کے چند گمنام شاعر
٭ڈاکٹر عندلیب شادانی: مرزا غالب کا اسلوبِ نگارش (پنج آہنگ میں)۔
٭مرزا محمد منور: مرزا غالب کی فارسی غزل
٭ڈاکٹر اسلوب احمد انصاری: ابرِ گہر بار کا ایک پہلو
٭ڈاکٹر عبدالغنی: میرزا غالب کا سفر کلکتہ اور بیدل
٭ ڈاکٹر سید عبداللہ: اقبال اور حافظ کے ذہنی فاصلے
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔