بڑی آنت کے سرطان کے علاج میں ترک سائنسداں کی اہم تحقیق

ترکی کے ایک سائنسداں نے بورون آکسائیڈ گیس کی بدولت بڑی آنت کے سرطان جیسے پیچیدہ اور مشکل مرض کے معالجے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ پروفیسر اوزگر البوز نے اپنے تجربات میں بورون آکسائیڈ کو استعمال کیا ہے جس سے کینسر کے خلیات بطورِ خاص تباہ ہوتے ہیں، جبکہ اطراف کے تندرست خلیات کو زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اوزگر نے انقرہ اور دیگر ہسپتالوں کے مریضوں پر بھی بعض تجربات کیے ہیں۔ تاہم انسانوں سے قبل انہوں نے جانوروں پر اس کے وسیع تجربات کیے۔ انہوں نے ترکی کے مشہور ڈاکٹر عبدالرحمان یارسلان مرکز برائے سرطان کے مریضوں پر بھی اپنی اختراع آزمائی ہے۔ کئی اقسام کے کینسر میں رسولی نکالنے کے بعد بھی کینسر کے خلیات اندر ہی موجود رہتے ہیں اور دوبارہ مرض کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اسی خدشے نے خود ڈاکٹر اوزگر کو بھی پریشان کیے رکھا اور اب انہوں نے بورون آکسائیڈ کے انجکشن کو سرطانی خلیات کے خاتمے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ڈاکٹر اوزگر کہتے ہیں کہ بورون میں کئی اشیا کے ساتھ ملاپ کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح بورون آکسائیڈ پانی جذب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صرف ترکی میں دنیا بھر کے بورون کے 75 فیصد ذخائر موجود ہیں اور یہ معدن کئی جگہوں پر استعمال کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بڑی آنت کے سرطان میں بورون آکسائیڈ کو کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بورون آکسائیڈ کے سرطانی خلیات اور صحت مند خلیات پر الگ الگ اثرات دیکھے ہیں اور بعد میں چمک دار خردبینی (فلوریسنس مائیکرواسکوپی) میں بھی ان کی تصدیق کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بورون آکسائیڈ سرطانی خلیات کی بڑی تعداد کو تیزی سے مار ڈؑالتی ہے جبکہ صحت مند خلیات کو بہت کم نقصان ہوتا ہے۔

فیس بک کا ایک منٹ کی ویڈیو سے رقم کمانے کا آپشن

فیس بک نے ٹک ٹاک کی طرز پر ایک منٹ کی ویڈیو اور اسٹریم پر بھی رقم کمانے کا آپشن پیش کردیا ہے۔ اس آپشن کا مقصد زیادہ سے زیادہ صارفین کو فیس بک ویڈیو کی جانب راغب کرنا ہے اور انہیں بہتر آمدنی کے مواقع بھی فراہم کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی کے تجزیہ کاروں کے مطابق فیس بک کا یہ قدم ٹک ٹاک کے جواب میں اٹھایا گیا ہے، کیونکہ ٹک ٹاک پہلے ہی مختصر ویڈیو کو مونیٹائز کرنے کی سہولت فراہم کررہا ہے اور لوگ اس پلیٹ فارم کی جانب راغب ہورہے ہیں۔ اس تناظر میں فیس بک سے وابستہ مونیٹائزیشن ڈائریکٹر یوو آرنسٹائن نے بتایا کہ ان کی کمپنی ایسے ویڈیو تخلیق کاروں کی مدد کرنا چاہتی ہے جو مختصر ویڈیو بناتے ہیں اور لائیو ویڈیوز پیش کررہے ہیں۔ اس کےبدلے ان کی ویڈیوز پر اشتہار چلیں گے جس سے انہیں کچھ آمدنی ہوسکے گی۔ اس طرح فیس بک ایپ کو ٹک ٹاک سے مقابلے کے قابل بنایا جارہا ہے۔ مختلف انفلوئنسر ٹک ٹاک پر ایپ کری ایٹرز فنڈ کی بدولت اپنی ہر دیکھی جانے والی ویڈیوز پر رقم کماتے ہیں، لیکن فنڈ میں کم ازکم 10 ہزار فالوورز ہونے چاہئیں اور یہ تعداد مونیٹائزیشن شروع ہونے سے 30 روز قبل موجود ہونی چاہیے۔ اس پروگرام کے تحت انفلوئنسر ایک ہزار مرتبہ دیکھی جانے والی ویڈیوز کے دو سے چار سینٹس کمالیتے ہیں۔ اس طرح بعض انفلوئنسر 200 سے 20 ہزار ڈالر تک کی رقم کمارہے ہیں۔ فیس بک میں اشتہاراتی مہم سے 1000 ویوز کے 8.75 ڈالر ملتے ہیں اور بعض انفلوئنسر لاکھوں ڈالر تک کماتے ہیں۔ تاہم ٹک ٹاکرز کے مقابلے میں فیس بک کی شرائط کچھ سخت ہیں۔ اول یہ کہ آپ کے 10 ہزار سے زائد فالوورز ہونے چاہئیں اور مجموعی طور پر چھے لاکھ منٹ کے ویوز ضروری ہیں۔ ان میں پانچ عدد لائیو اسٹریمز بھی ضروری ہیں۔

صارفین کا نجی ڈیٹا جمع کرنے پر گوگل کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ میں تین صارفین نے گوگل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گوگل انہیں اُس وقت بھی خفیہ طور پر ٹریک کرتا ہے اور ڈیٹا جمع کرتا ہے جب وہ انکوگنیٹو آپشن یعنی پوشیدہ رہ کر سرچنگ کا آپشن استعمال کررہے ہوتے ہیں، یا صارفین کے اپنے طور پر پرائیویسی سیٹ کرنے کے باوجود گوگل ٹریکنگ جاری رکھتا ہے۔ صارفین نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا تھا کہ گوگل کا پرائیوٹ ڈیٹا ٹریکنگ بزنس ہے جو صارفین کی جانب سے پرائیویسی سیٹنگ سخت کرنے یا کروم میں پوشیدگی کا طریقہ استعمال کرنے کے باوجود نجی معلومات اور دیگر براؤزرز تک رسائی حاصل کرکے ڈیٹا جمع کرتا رہتا ہے۔امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ضلعی جج نے اس مقدمے کے فیصلے میں لکھا کہ گوگل نے صارفین کو پیشگی مطلع نہیں کیا تھا کہ وہ انگوگنیٹو موڈ میں بھی صارفین کا مبینہ ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ملوث ہے جس پر گوگل کو سخت قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو کہ 5 بلین ڈالر تک کے ہرجانے کا بھی ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ گوگل نے رواں سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ تیسری پارٹی سے باخبر رہنے والے کوکیز کو مرحلہ وار بنا رہے ہیں اور وہ کوکیز کو کسی ایسی جگہ سے تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے جو ناگوار ہوسکتا ہے، حالانکہ اس سے کمپنی کے اشتہاری کاروبار پر اثر پڑے گا۔