پردیسی

یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ زندگی کے بارونق بازار سے لوگ رخصت ہوجاتے ہیں۔ شہرآباد رہتے ہیں، لیکن شہری بدل جاتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ ہر دس سال کے بعد چہرے بدل جاتے ہیں، گلیاں وہی، مکان وہی، شہر وہی، شہر کی رونق وہی لیکن وہ چہرے کہاں گئے۔ وہ مانوس و محبوب چہرے… رخصت ہوگئے، چلے گئے، اپنے گھر …کون سے گھر… اپنے وطن… کون سے وطن! اگر ان کا وطن کوئی اور دیس تھا تو یہ دیس… ان کا، ہم سب کا پردیس ہے! عجب حال ہے۔ دیس میں پردیس، سب کے لیے، ہمیشہ کے لیے۔
ہر شہر، آباد شہر میں، بارونق اور جگمگاتے شہر میں قبرستان کا ہونا ایک عجب داستان ہے۔ یہ داستان اہلِ دل کے لیے عبرتوں اور حقیقتوں کا دبستان ہے۔ اہلِ فضل اور اہلِ فکر حضرات اپنے اصل دیس کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ سرِ پُر غرور کا انجام نگاہ میں رکھتے ہیں۔ وہ تاجوری سے نوحہ گری تک اپنے حاصل کا لاحاصل دیکھتے رہتے ہیں۔
لڑکیوں، عورتوں اور خواتین کو باربار سمجھایا جاتا ہے کہ یہ دنیا بابل کا گھر ہے اور وہ دنیا سسرال ہے، اور ہر لڑکی کو سسرال جانا ہی ہوگا… دراصل یہ اطلاع ہے، یہ اعلان ہے، یہ وارننگ ہے کہ جانا ہی ہوگا… پردیس میں رہنے والو! اسے غلطی سے اپنا دیس سمجھنے والو! یہ سمجھ لو کہ جانا ہی ہوگا… اس کے بغیر چارہ ہی نہیں… دیس پردیس ہے اور ہم سب پردیسی ہیں۔ ہم سنتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ ہمیں دعوت ہے کہ اے آنکھوں والو! سیر کرو دنیا کی اور دیکھو عاقبت ان جھوٹے مالکوں کی، جن کی اصل ملکیت کچھ نہ تھی۔ یہ عبرت کدہ ہے۔ وقت کا عبرت کدہ… آج کے کھنڈر کل کے محلات تھے۔ آج جہاں اُلّو بولتے ہیں، وہاں کل تک رونق تھی، روشنی تھی، ظل سبحانی کے جلال کا شہرہ تھا۔ آج وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ پردیسی اپنے دیس کو چلے گئے اور چھوڑ گئے ویرانیاں اپنے بعد… ہم سمجھتے نہیں، مالک بن بیٹھتے ہیں۔ زمین کو انتقال کراتے کراتے ہمارا اپنا انتقال ہوجاتا ہے اور یہ پردیس نئے پردیسیوں کا انتظار کرتا ہے۔
بڑے بڑے شہروں میں تو ویسے بھی پردیسی رہتے ہیں۔ دُور سے آنے والے یہاں مقیم ہوتے ہیں۔ پلاٹوں کی سیل (SALE) ہوتی ہے اور پھر وہی حال یعنی وہی برا حال… جانا ہی ہوگا، اپنے گائوں… اپنے گائوں کے ویران قبرستان میں۔ نامعلوم دیس کا پہلا اسٹیشن… اور پھر منزلیں… منزل در منزل… سفر در سفر، اور پھر آئے گا اپنا دیس، اصل دیس… جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا… اس واقعہ کو ہر روز آدمی دیکھتا ہے… دیکھتا ہے اور بھول جاتا ہے اور اُس وقت تک بھولے رہتا ہے جب تک اسے زور سے جھنجھوڑا نہ جائے کہ آگئی تیرے سفر کی باری… گھر جانے کی گھڑی، اور اب جانا ہی ہوگا، ناگزیر ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو کرائے کے مکان میں رہنے والا ساری عمر خود کو پردیسی سمجھتا ہے۔ نہ جانے کب اسے مکان سے نکال دیا جائے… آدھی سے زیادہ قوم کرایہ دار ہے، پردیسی ہے۔
ملازم پیشہ انسان کا کوئی دیس نہیں۔ آج یہاں، کل وہاں۔ ان لوگوں کی زندگی کا اندازہ لگائیں کہ بیوی کہیں، خود کہیں۔
سوچنے کا مقام ہے۔ ریل گاڑیوں کو دیکھیں، کھچا کھچ بھری ہوئی۔ پردیسی آرہے ہیں، پردیسی جارہے ہیں۔ ہزار ہا بسیں ہمہ وقت سفر میں ہیں۔ پردیسی آرہے ہیں، جارہے ہیں۔ ہوائی جہازوں کی بکنگ… ٹکٹ نہیں ملتا… پردیسیوں کو۔ یااللہ! تمام مسافروں کا کون سا دیس ہے۔ یہ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔
آج کی بین الاقوامیت نے دیس کے تصور کو ویسے بھی رد کردیا ہے۔ ہم کسی دیس کے شہری نہیں۔ ہم دنیا کے رہنے والے ہیں۔ سب پردیسی ہیں، وطن میں، وطن سے باہر!۔
ہمارے سیاستدان سب پردیسی ہیں۔ کسی کی کتاب ہندوستان میں چھپتی ہے، کسی کی انگلستان میں… اپنے اپنے دیس میں… سیاست پرورش پاتی ہے۔ بیرونی ممالک میں اور پھر واپسی پر… بہاریں ساتھ لائوں گا اگر لوٹا بیاباں سے… لیکن نہیں… پردیسیوں کے کیا ٹھکانے… جانے کب کیا ہوجائے۔ لندن میں بیٹھ کر دیسی لوگ پلاننگ کرتے ہیں، دیس کے بارے میں، اپنے دیس کے بارے میں، اپنے پردیس میں… عجب حال ہے۔ پردیس ہی پردیس ہے۔
سب سے خطرناک حالت اُن پردیسیوں کی ہے، جو کسب معاش کے لیے باہر گئے… بیرون ملک گئے۔ ان کے عزیز ان کے انتظار میں یہاں پردیسی ہیں، وہ وہاں پردیسی۔ دولت کی ہوس نے جدائیاں پیدا کردی ہیں۔ پیسہ آرہا ہے اور عمر بیتی جارہی ہے۔ حالات بہتر کرنے کی تمنا نے حالت خراب کردی ہے۔ خواہشات کا پھیلائو، نمائش کی خواہش، آرائش کی تمنا نے مجبور کردیا کہ اپنے محبوب بیٹے، محبوب خاوند کو وطن سے باہر بھیجا جائے۔ اب گھر میں انتظار ہے، خط کا انتظار ہے، پیسے کا انتظار، پیسہ بھیجنے والے کا انتظار… جس کی خاطر گھر سجایا، وہی گھر میں نظر نہ آیا۔ حیرت ہے، افسوس ہے۔ ہم کیوں نہیں سادہ زندگی بسر کرتے۔ کیا غریب الوطنی کے بغیر گزر نہیں ہوسکتی؟
(”دل دریا سمندر“)

بیادِ مجلس اقبال

مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد

اس شعر میں علامہ اپنی شاعری کی حقیقت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملّت کے درد و الم کی داستان بھی ہے، اور اس میں حیاتِ نو کا پیغام بھی ہے۔ درد و الم سے معمور، اقبال کا دل ملّت کی غم خواری کے جذبوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ملّت کے تاریخی عروج و زوال کی تفصیلات سے آگاہ مردِ خود آگاہ اقبال کا کلام، بھٹکے ہوئے آہو کی رہنمائی اور رہبری کے لیے وقف ہے۔ ایسا دل اور ایسا کلام، ایسی اپنائیت اور ایسی وفا اقبال سے ہٹ کر کسی اور کے ہاں سے نہیں مل سکتی۔