قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:۔
’’کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر پوچھا گیا کہ ’’مومن کنجوس ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر پوچھا گیا کہ ’’مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں‘‘۔ (مالک، بیہقی)۔
۔’’جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجائو، اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم اِس دنیا کی زندگی میں تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ بھی تم چاہو گے تمہیں ملے گا، اور ہر وہ چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے۔ اور اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں، اور اے نبیؐ نیکی اوربدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں۔ اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘ ۔
(حٰم السجدہ / فصلت نمبر 30 تا 36۔ تفہیم القرآن جلد 4 ص 454)
آدمی حق کو حق سمجھ کر رہ جائے اور اللہ کو اپنا رب تو کہے مگر اپنے فکر و عمل سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہ کرے تو یہ وفاداری بشرطِ استواری نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کا رب ہے، وفاداری بشرطِ استواری تو یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنا رب مان لے۔ ’’جو یقیناً اختیاری ہے، جبری نہیں ہے‘‘۔ پھر اس پر ڈٹ جائے اور ارباب من دون اللہ کی مزاحم قوتیں سامنے آئیں، جو یقیناً آئیں گی، تو ان کا صبر و استقلال کے ساتھ مقابلہ کرے اور ہر طرح سے استقامت دکھائے، تو یہ استواری اصل ایمان ٹھیرے گی اور اللہ تعالیٰ کے اُس انعام و اکرام کا مستحق بنائے گی جس کی بشارت ان آیات میں دی گئی ہے۔
اسلام محض عقیدے کا نام نہیں ہے بلکہ بھرپور عملی زندگی کا نام ہے، اور عقیدہ بھی ایسا عقیدہ کہ ایک مرتبہ اس کو قبول کرلینے کے بعد ساری زندگی اس پر قائم رہے، اور اس کے خلاف پھر کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کرے، اور نہ اس میں کسی باطل عقیدے کی آمیزش کرے، اور اپنے اعمال سے اس کا ثبوت پیش کرتا رہے… پھر اس کو ایسے انعامات ملیں گے اور ایسی نوازشات سے نوازا جائے گا جن کا وہ اِس زندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسی استقامت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنایا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ کہلایا۔ اسی استقامت پر حضرت بلالؓ غلام سے آقا بنے،اور کوئی سید بنے، کوئی سردار بنے، کوئی امیر بنے، کوئی سلطان ہوئے، کوئی امام ہوئے… کتنے غازی کہلائے اور کتنے شہید ہو کر لازوال زندگی کے مالک بنے۔
ایمان میں وفاداری اور قول کی پابندی کا دوسرا انعام مومن مرد اور عورتوں کو یہ ملتا ہے کہ زندگی کے اوّل لمحات سے لے کر موت کے وقت تک، موت کے بعد سے لے کر عالمِ برزخ تک، اور دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت سے لے کر جنت کے دروازے میں داخل ہونے تک فرشتوں کا ساتھ ہوتا ہے۔
دنیا کی زندگی میں فرشتوں کی معیت سچے اور وفا شعار مسلمانوں کے دلوں کی تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ مشکل اور کٹھن وقتوں میں وہ کسی اَن دیکھی طاقت کی قربت کو محسوس کرتے ہیں۔ نیکی اور راہِ حق میں وقت، محنت اور آرام و عافیت کو قربان کرکے اور جان و مال صرف کرکے تسکین حاصل کرتے ہیں۔
اسی صورت سے موت کے وقت بھی فرشتے مومن مرد عورت کے ساتھ ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے، آگے تم جس منزل کی طرف جارہے ہو وہاں تمہارے لیے کسی خوف کا مقام نہیں ہے کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر ہے۔ عالمِ برزخ اور میدانِ حشر میں فرشتے کہیں گے نہ ڈرو، نہ غم کرو، تمہارے لیے تو اس جنت کی بشارت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ عالم برزخ کیا ہے؟ برزخ فارسی لفظ پردہ کا معرب ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ موت اور اس کے بعد کی زندگی یعنی آخرت کے درمیان ایک حدِّ فاصل ہے، جس میں داخل ہوکر کوئی واپس نہیں جا سکتا۔ جہاں وہ اپنے عواقب اور نتائج سے جزوی طور پر آگاہ ہوجائے گا، اور اُس کو اس حقیقت کا اندازہ ہوجائے گا کہ آئندہ اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اس عالم میں تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجامِ بد نظر آتا رہتا ہے جو اُن کا انتظار کررہا ہے، اور تمام نیک لوگوں کو اُس انجامِ نیک کی تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کررکھا ہے۔
قرآن و حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا زمانہ نہیں ہے۔ موت سے جسم اور روح کی صرف علیحدگی ہوجاتی ہے، روح معدوم نہیں ہوجاتی بلکہ اس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے، کلام کرتی اور کلام سنتی ہے۔ جذبات و احساسات رکھتی ہے۔ خوشی اور غم محسوس کرتی ہے۔ اور اہلِ دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔ البتہ روح کا یہ روپ حقیقت جیسا نہیں بلکہ خواب جیسا ہوتا ہے، جیسے نیند میں سویا ہوا ایک شخص خواب دیکھ رہا ہو۔ خواب دیکھنے والا جیسا خواب دیکھتا ہے اُس وقت اُس کے جذبات و محسوسات بالکل حقیقت اور بیداری جیسے ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص خواب دیکھتا ہے کہ وہ ایک خوفناک جنگل میں ہے، جہاں سامنے شیر کھڑا ہے اور پیچھے اژدھا منہ پھاڑے ہوئے ہے۔ خواب دیکھنے والا جس خوف میں مبتلا ہوگا وہ بالکل بیداری جیسا ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ خوف کے مارے چیخے گا اور آنکھ کھل جائے گی۔ عالم برزخ میں آنکھ نہیں کھلے گی۔ اور خوف، گھبراہٹ، جلنے، کاٹے جانے اور بلندی سے گرنے کے خوف، تکلیف، رنج، مصیبت سے چیخنے چلاّنے سے محسوسات و ادراک میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوگا۔
جلنے کی سوزش اسی طرح محسوس ہوگی جیسی سوزش آگ سے جل جانے میں انسان کی زندگی یا بیداری میں ہوتی ہے… یا اس کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص پر موت آجاتی ہے، اور وہ کافر اور مجرم ہے تو مرتے ہی اس کو معلوم ہوگا کہ وہ قتل، ڈکیتی اور بغاوت کرتے ہوئے، مجرمانہ کارروائیاں کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ پولیس کے سپاہی مارتے پیٹتے، دھکے دیتے، زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے اس کو لے جاتے ہیں اور حوالات کی گندی، تنگ، بدبودار کوٹھری میں بند کردیتے ہیں، جہاں نہ اس کو کھانا ملتا ہے اور نہ پانی۔ اور ملتا بھی ہے تو گرم پانی، لہو، خون، پیپ۔ یہ اندوہناک کیفیت پورے احساسات کے ساتھ اس پر قیامت تک رہے گی اور اس کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔
اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال، پھر اس کا جنت کی بشارت سننا اور اس کا جنت کی ہوائوں اور خوشبوئوں سے متمتع ہونا… یہ سب بھی اُس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہوگا جو حُسنِ کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوا ہو۔ اور وعدہ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو۔
جس جنت کی فرشتے بشارت دے رہے ہیں اس جنت کی تعریف یہ ہے کہ اس جنت میں آنے والوں کی حیثیت خدا کے مہمانوں کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کا میزبان اور وہ اللہ کے مہمان ہوں گے۔
اسی سے جنت کی خوبیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور جنتیوں کی حیثیت سمجھی جا سکتی ہے۔ جو خود خدا کے مہمان ہوں اور جن کی میزبانی خدا خود کررہا ہو اُن خوش بختوں کی عافیت، آرام، عزت، رتبہ کا کوئی اندازہ کیا جا سکتا ہے!۔
یہ سارا مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کی مہمانی کا یہ شرف یونہی نہیں حاصل ہوجائے گا، بلکہ ایمان پر استقامت کے ساتھ دوسروں کو ایمان اور استقامت کی راہ پر لگانے اور عمل صالح کرتے رہنے، اور دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے رہنے سے حاصل ہوسکے گا۔ جنت ایسی چیز نہیں ہے جو صرف تمنائوں سے حاصل ہوجائے، بلکہ اس کے لیے خود نیک بننے اور دوسروں کو نیکی کی راہ پر چلانے کی سعی و جہد کرتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کرنی ہوگی۔ اور نیکی بھی معمولی درجے کی نہیں، بلکہ اعلیٰ درجے کی نیکیاں کرنی ہوں گی۔ گالیاں دینے والوں کو دعائیں دینی ہوں گی۔