پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے پاکستان کی سیاست کو ’’گٹر سیاست‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس سیاست سے اتنا تعفن اٹھ رہا ہے کہ کوئی پرفیوم تعفن پر غالب نہیں آسکتا
غالب نے کہا تھا:۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
پاکستانی سیاست نے غالب کے اس مصرع کا جواب تخلیق کیا اور کہا: ۔
’’مری تعمیر میں مضمر ہے ہر صورت خرابی کی‘‘
لیکن پاکستانی سیاست نے اس مصرع پر قناعت نہ کی۔ وہ خرابیوں کے راستے پر مسلسل آگے بڑھتی رہی اور ایک شاعر کے مطابق اب اس کا حال یہ ہے:۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
طوائفیں اپنے جسم بیچتی ہیں، مگر پاکستان کے منتخب نمائندے اور سیاست دان سینیٹ کے انتخابات میں اپنا ضمیر بیچتے ہیں، اس لیے وہ طوائفوں سے بھی بدتر ہیں۔ بدقسمتی سے اِس بار پھر سینیٹ کے انتخابات میں ضمیر فروشی کی شرمناک اور ہولناک مثالیں سامنے آئیں۔ پی ٹی آئی کے ڈیڑھ درجن اراکین بک گئے۔ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کے حفیظ شیخ ہار گئے اور پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی جیت گئے۔ حفیظ شیخ کو 164 اور یوسف رضا گیلانی کو 169 ووٹ ملے۔ انتخابات سے چند روز پیشتر ہی یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس ویڈیو میں علی گیلانی تحریک انصاف کے اراکین کو ووٹ ضائع کرنے کے طریقے بتا رہے تھے۔ اب عمران خان نے قوم سے خطاب میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے پندرہ سولہ اراکین پی ڈی ایم کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس پر ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کا سیاسی اعتبار سے ’’فحش نعرہ‘‘ سامنے آرہا ہے۔
مغربی جمہوریت اب بھارت کیا امریکہ اور یورپ میں بھی ایک شرمناک کھیل بنی ہوئی ہے، اس لیے کہ اس سے مودی اور ٹرمپ جیسے کردار سامنے آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے تلخ تجربات کے باوجود بھارت میں ’’مودی ازم‘‘ اور امریکہ میں ’’ٹرمپ ازم‘‘ بڑھ رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت تو دھوکے سے بھی آگے کی چیز ہے۔ جمہوریت کی ایک تعریف یہ ہے کہ یہ ایک عوامی نظام ہے جو عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے وجود میں آتا ہے۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت ابتدا سے Made in America اور Made in GHQ ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت امریکی ساختہ یا جی ایچ کیو ساختہ نہیں ہوتی، جمہوریت عوام ساختہ ہوتی ہے۔ مغربی جمہوریت کی اصل تعریف یہی ہے۔ مگر پاکستان میں نہ کل جمہوریت عوام ساختہ تھی، نہ آج عوام ساختہ ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ امریکہ جب چاہتا ہے ملک میں مارشل لا لگ جاتا ہے۔ جب چاہتا ہے جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ جب چاہتا ہے کوئی جنرل پرویزمشرف کسی بے نظیر کو این آر او دے دیتا ہے۔ امریکہ کو اگر پاکستان میں واقعتاً جمہوریت سے دلچسپی ہوتی تو وہ کبھی بھی مارشل لا کو قبول نہ کرتا۔ وہ کبھی بھی فوجی آمروں کی پشت پناہی نہ کرتا۔ لیکن امریکہ نے ہمیشہ پاکستان میں مارشل لا کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس نے ہمیشہ پاکستان میں فوجی آمروں کو دس دس سال تک برسراقتدار رہنے دیا ہے۔ یہی مسئلہ ہمارے جرنیلوں کا ہے۔ وہ جمہوریت کی بات ضرور کرتے ہیں، مگر انہیں جمہوریت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ ہمیشہ ایسی جمہوریت کو آگے بڑھاتے ہیں جو اُن کے کامل غلبے کو تسلیم کرنے والی ہو۔ آزاد جمہوریت جرنیلوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ غالب نے کہا ہے:۔
ڈھانکا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
پاکستان کی جمہوریت کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جمہوریت کا نعرہ جمہوریت کا پردہ بن جاتا ہے، ورنہ پاکستانی جمہوریت ہر لباس میں ننگِ وجود ہے، ننگِ جمہوریت ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کا المیہ اور بھی گہرا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے المیے کا ایک پہلو یہ ہے کہ صرف امریکہ اور جرنیل ہی جمہوریت کے قاتل نہیں، پاکستان کے سیاست دانوں کی عظیم اکثریت بھی جمہوریت کی قاتل ہے۔ میاں نوازشریف ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر وہ جرنیلوں کی نرسری میں 25 سال تک دادِ عیش دیتے رہے ہیں۔ وہ جرنیلوں کے نرغے سے نکلے ہیں تو انہوں نے ’’سول آمریت‘‘ کا لباس زیب تن کرلیا ہے۔ چنانچہ نواز لیگ شریف خاندان کی لونڈی ہے۔ اس میں کبھی نہ انتخابات ہوئے ہیں، نہ ہورہے ہیں، نہ کبھی ہوں گے۔ آج نواز لیگ پر میاں نوازشریف سواری گانٹھ رہے ہیں، وہ نہیں ہوں گے تو ان کی دختر نیک اختر نواز لیگ کی سواری گانٹھے ہوئے ہوں گی۔ وہ نہیں ہوں گی تو میاں نوازشریف کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف نواز لیگ کی تقدیر کے مالک ہوں گے۔ وہ بھی نہیں ہوں گے تو حمزہ شہباز نواز لیگ کو چلا رہے ہوں گے۔ مطلب یہ کہ نواز لیگ کبھی شریف خاندان کی لونڈی کے کردار سے جان نہیں چھڑا سکے گی۔ یہی قصہ بھٹو خاندان کا ہے۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو زندہ تھے انہوں نے پیپلزپارٹی کو چلایا، اور کبھی پارٹی میں انتخابات کی راہ ہموار نہ ہونے دی۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ رہے تو اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو پیپلزپارٹی کی مالک بن گئیں۔ اب وہ نہیں ہیں تو اُن کے شوہر اور فرزند پیپلزپارٹی کو چلا رہے ہیں۔ عمران خان بھی بہت جمہوریت جمہوریت کرتے ہیں، مگر ان کی پارٹی میں انتخابات ہوئے تو جسٹس وجیہ نے انہیں دھاندلی زدہ قرار دے دیا۔ اصولاً عمران خان کو جسٹس وجیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا، اور انہیں جسٹس وجیہ کو اختیار دینا چاہیے تھا کہ وہ پارٹی میں منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کریں۔ مگر انہوں نے خرابی دور کرنے کے بجائے خرابی کی نشاندہی کرنے والے جسٹس وجیہ کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر ان کی پارٹی بھی موروثی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے والدِ بزرگوار جمعیت علمائے اسلام چلاتے تھے۔ اب مولانا خود جمعیت علمائے اسلام کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ وہ نہیں ہوں گے تو ان کا بیٹا یا بھائی پارٹی کو چلا رہا ہوگا۔ ایم کیو ایم بھی جمہوریت کا راگ الاپتی ہے مگر وہ 25 سال تک الطاف حسین کے شکنجے سے باہر نہ آسکی۔ اب بھی اس میں کوئی داخلی جمہوریت موجود نہیں ہے۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی ہے جو نہ ’’خاندانی‘‘ ہے، نہ ’’موروثی‘‘ ہے۔
ایک وقت تھا کہ ملک کی سیاست میں نظریات کا عمل دخل تھا۔ جماعت اسلامی مذہب کی علامت تھی۔ پیپلزپارٹی سوشلزم، سیکولرازم اور لبرل ازم کی علامت تھی۔ قوم سیاست کو نظریات کی عینک سے دیکھتی تھی۔ مگر اب قومی سیاست کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب تک سیاست نظریات کی اسیر رہتی ہے معاشرے کے تعصبات دبے رہتے ہیں، مگر جیسے ہی نظریات کی سیاست ختم ہوتی ہے معاشرے کے تعصبات سطح پر آجاتے ہیں اور سیاست پر حکم چلاتے ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس وقت ہماری سیاست صوبائی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات کے نرغے میں ہے۔ میاں نوازشریف ماضی میں ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگا چکے ہیں۔ اب ان کی بیٹی خود کو بار بار ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ ثابت کررہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان کی سیاست پنجاب سے شروع ہوتی ہے، پنجاب میں آگے بڑھتی ہے، اور پنجاب میں ختم ہوجاتی ہے۔ میاں نوازشریف 35 سال سے قومی سیاست میں ہیں، مگر انہوں نے کبھی نواز لیگ کو دوسرے صوبوں میں متعارف کرانے اور مضبوط بنانے کی رتی برابر بھی کوشش نہیں کی۔ ان کے لیے ان کا پنجاب، اور پنجاب سے حاصل ہونے والی سیاسی کامیابی کافی ہے۔ ایک وقت تھا کہ بے نظیر بھٹو کو چاروں صوبوں کی زنجیر اور پیپلزپارٹی کو وفاق کی علامت کہا جاتا تھا، مگر اب پیپلزپارٹی سر سے پیر تک صرف ’’سندھی پارٹی‘‘ ہے۔ اس کی سیاست دیہی سندھ سے شروع ہوتی ہے، دیہی سندھ میں آگے بڑھتی ہے اور دیہی سندھ میں ختم ہوجاتی ہے۔ ایم کیو ایم پہلے دن سے مہاجر زدہ ہے۔ اس کی سیاست مہاجریت سے شروع ہوتی ہے، مہاجریت میں آگے بڑھتی ہے اور مہاجریت میں ختم ہوجاتی ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف گزشتہ انتخابات میں ایک وفاقی جماعت بن کر ابھری تھی، مگر عمران خان نے کراچی کو سر کا تاج بنایا، نہ پنجاب میں پیش قدمی کی شعوری کوشش کی۔ جہاں تک پاکستان کے مذہبی ووٹ بینک کا تعلق ہے تو اس پر فرقوں اور مسلکوں کی مہریں لگی ہوئی ہیں۔ کسی مذہبی جماعت کا ووٹ بینک ’’دیوبندی‘‘ ووٹ بینک ہے، کسی مذہبی جماعت کا ووٹ بینک بریلوی ووٹ بینک ہے۔ کسی جماعت کا ووٹ بینک شیعہ ووٹ بینک ہے۔
پاکستان کی سیاست مدتوں سے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور Electables کی سیاست ہے۔ یہ صورتِ حال جمہوریت اور سیاسی نظام کو مذاق بنائے ہوئے ہے۔ عمران خان ملک میں تبدیلی کی علامت بن کر ابھرے اور انہوں نے صاف کہا کہ وہ نہ سرمائے کی سیاست کریں گے اور نہ Electables کی سیاست کریں گے۔ مگر گزشتہ انتخابات سے چند دن پہلے انہوں نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے یوٹرن لیا اور صاف کہا کہ وہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، چنانچہ وہ سرمائے کی سیاست بھی کریں گے اور Electables کی سیاست بھی کریں گے۔ انہوں نے کیا بھی یہی۔ مگر اب وہ کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں پیسہ چلا ہے۔ ان کی بات غلط نہیں، مگر عمران خان کے پاس یہ کہنے کے لیے ’’اخلاقی ساکھ‘‘ نہیں ہے، اس لیے کہ وہ خود سرمائے اور Electables کی سیاست کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو ہماری جمہوریت اور سیاسی نظام کی کوئی اخلاقیات ہی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ملک کی بڑی جماعتوں میں سے کوئی بڑی جماعت جمہوریت اور سیاسی نظام کو اخلاقیات کے تابع بھی نہیں کرنا چاہتی۔ نواز لیگ اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی جانی دشمن ہیں مگر پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے دونوں میں خوب ’’مک مکا‘‘ ہوا۔ اس سلسلے میں نہ نوازشریف اور مریم کو شرم آئی، نہ عمران خان نے اس میں کوئی حیا محسوس کی۔ جہاں تک سینیٹ کے انتخابات میں حفیظ شیخ کی شکست اور یوسف رضا گیلانی کی فتح کا تعلق ہے تو اس کی ایک توجیہ یہ ہے کہ اس انتخاب میں اسٹیبلشمنٹ نے اس طرح عمران خان کی مدد نہیں کی جس طرح اس نے صادق سنجرانی کے انتخاب میں عمران خان کی مدد کی تھی۔ اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ جس کے پاس سرمایہ زیادہ تھا وہ جیت گیا، جس کے پاس سرمایہ کم تھا وہ ہار گیا۔ عمران خان نے قوم سے خطاب میں الیکشن کمیشن کو صورتِ حال کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ مگر الیکشن کمیشن تو پردہ ہے، ان کا اصل شکوہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سینیٹ کے انتخابات میں عمران خان کی مدد کرتی تو عمران خان انتخابات کے حوالے سے کوئی اخلاقی سوال نہ اٹھاتے۔ عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑ کر اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے مگر اصولوں پر سودا نہیں کریں گے۔ لیکن ان کی اس بات میں جان نہیں ہے۔ انہیں اصول عزیز ہوتے تو نہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھتے، نہ سرمائے اور Electables کی سیاست کرتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے پاکستان کی سیاست کو ’’گٹر سیاست‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس سیاست سے اتنا تعفن اٹھ رہا ہے کہ کوئی پرفیوم تعفن پر غالب نہیں آسکتا۔