ویکسین ہے کیا، کیسے بنائی جاتی ہیں، کیوں لگائی جاتی ہیں، کیا فوائد ہیں
۔”میں نے تو نہیں پلائے قطرے اپنے بچے کو، جب دیکھو آجاتے ہیں۔ ڈاکٹر! مجھے لگتا ہے کوئی سازش ہے، کیا خیال ہے؟“
انگریزی میں گفتگو کرتے کرتے اب بات اردو میں ہونے لگی تھی۔
میں نے جب بتایا کہ پہلی مرتبہ میں نے 14 سال کی عمر میں قطرے پیے تھے اور پچھلی مہم میں بھی پولیو کے قطرے خود پیے ہیں، تو حیرت سے کہنے لگیں ”مگر کیوں؟“
میرا جواب تھا ”تاکہ لوگوں کے شکوک دور کرسکوں“۔
ویکسین کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہے اور اس سے زیادہ وہ غیر معیاری معلومات ہیں جو انٹرنیٹ سے حاصل کی گئیں۔ بلاتحقیق جھوٹی خبروں کا آگے بڑھایا جانا بھی اس کا ایک سبب ہے۔
ویکسین ہے کیا، کیسے بنائی جاتی ہیں، کیوں لگائی جاتی ہیں، کیا فوائد ہیں، کامیابی کی کیا داستان ہے… یہ سب آگہی پہنچانا طبی ماہرین اور عملے کی ذمہ داری ہے۔
مگر شاید ابھی تک ہم نے یہ ذمہ داری صحیح طرح سے ادا نہیں کی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے ”اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کرو۔“
بطور ایک ڈاکٹر ویکسین پر میرا یقین اسی فرمانِ رسول اکرمؐ کے عین مطابق ہے۔
آپ جب کوئی ویکسین استعمال کرتے ہیں تو بنیادی طور پر اس مخصوص بیماری کے مُردہ خلیات، اس کے پروٹین کا حصہ، یا کمزور کیے گئے جراثیم جو کہ اب جسم کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر آپ کے جسم میں موجود رہتے ہیں اور آپ کا جسم ان مخصوص جراثیم کے خلاف اینٹی باڈیز بنا دیتا ہے جو جسم کے سسٹم میں بطور یادداشت گردش میں رہتی ہیں، جوں ہی وہ مخصوص جراثیم آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں، جسم میں موجود یادداشت ان کو پہچان لیتی ہے کہ پہلے بھی واسطہ پڑا ہے، اور فوراً ان کے خلاف ردعمل کا اظہار اینٹی باڈیز کی صورت میں کرتی ہے، اور اس طرح انسانی جسم ان جراثیم کے حملے سے محفوظ یا بہت ہی معمولی متاثر ہوتا ہے جو ویکسین نہ لگے ہونے کی صورت میں شدید نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔
ویکسین کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ مثلاً بیماری کے جراثیم کے ایک مخصوص حصے سے بنی ویکسین (Fragmented Vaccine)، بیماری کے جراثیم کی بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کو بہت کمزور کرکے بنائی گئی ویکسین (Live Attenuated Vaccine)، مُردہ جراثیم سے بنائی گئی ویکسین (Killed Cell Vaccine)، بیماری کے جراثیم سے نکلنے والے زہر (Toxin) سے تیار کردہ ویکسین، اور بالکل جدید ٹیکنالوجی یعنی میسنجر آر این اے کے ذریعے بنائی گئی ویکسین، کورونا وائرس کی ویکسین (جو فی الحال اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے نہیں ہے)۔
اب بات کرتے ہیں بچوں میں ویکسین کے بارے میں۔
ویکسین کیوں ضروری ہے؟ اور ویکسین لگنے یا پلانے سے کوئی نقصان تو نہیں؟ ویکسین کے بعد بخار، درد وغیرہ وغیرہ یا کوئی سائیڈ ایفیکٹس؟
حکومتِ پاکستان عرصہ دراز سے پاکستانی بچوں کے لیے مکمل طور پر فری ویکسین فراہم کررہی ہے، اور اس پروگرام کو شہروں، قصبوں اور دیہات میں، (Expanded Program of Immunization) EPIکے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے۔
ویکسین عموماً مکمل جانچ پڑتال کے بعد بچوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور مکمل طور پر محفوظ ہوتی ہے، اس لیے بلا کسی شک و شبہ کے آپ اپنے بچوں کو ویکسین لگوائیں۔
پیدائش کے فوراً بعد اگر بچے کو کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اس کو بی سی جی کا ٹیکہ، پولیو کے قطرے اور ہیپاٹائٹس بی کا ٹیکہ لگایا جانا چاہیے۔
چھے تا آٹھ ہفتے کے دوران پانچ بیماریوں سے بچاؤ کا ٹیکہ (Penta) جس میں شامل DTaP,Hepatits B،Hib یعنی خناق (Deptheria) کالی کھانسی(Whooping Cough)، اور تشنج (Tetnus)، ساتھ میں پولیو، اور شدید نمونیے سے بچاؤ کے لیے PCV 13 / PCV 10 کا ٹیکہ اور روٹا وائرس (Rota Virus) کے قطرے پلانے چاہئیں۔
یہاں پر 6 بیماریوں سے بچائو کا ٹیکہ ایک ساتھ پرائیویٹ طور پر لگایا جاتا ہے جس میں DTap, Hib,Hepatitis B , IPV شامل ہیں جن بچوں کی پرائیویٹ طور پر ویکسی نیشن کی جاتی ہے۔ ان کو پولیو کے قطروں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ IPV پولیو کے انجکشن ہیں۔
دس سے بارہ ہفتے پر،یعنی پچھلی ویکسین کے چار ہفتے بعد اوپر جن ویکسین کا ذکر کیا گیا ہے وہ دوبارہ لگائی جاتی ہیں۔
جن بچوں کو EPI / گورنمنٹ کی ویکسین لگائی جاتی ہے ان کے لیے 14 ہفتے کی عمر میں گورنمنٹ IPV کا ٹیکہ لگانے کا اہتمام کرتی ہے، اور جو بچے پرائیویٹ طور پر ویکسین لگواتے ہیں ان کو 14 ہفتےپر یہ نہیں لگایا جاتا کیونکہ 6 ویکسین کے اندر یہ شامل ہے۔
چودہ سے سولہ ہفتے پر اوپر بیان کردہ ویکسین کی تیسری خوراک دی جاتی ہے۔
اس طرح ویکسین چاہے آپ گورنمنٹ کی لگوا رہے ہوں یا پرائیویٹ طور پر، بنیادی ویکسین تقریباً چار ماہ کی عمر میں لگ جاتی ہے، جس میں دو مرتبہ شدید قسم کے وائرل ڈائریا روٹا وائرس کی ویکسین بھی شامل ہے۔
اس طرح چار ماہ کی عمر تک آپ کے بچے کو9 مختلف خطرناک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے ٹیکے/ قطرے دیے جاتے ہیں، پھر تقریباً آٹھ نو ماہ کی عمر تک کوئی ویکسین نہیں ہے۔ اگر آپ نے ویکسین گورنمنٹ کے پروگرام یا پرائیویٹ کسی طور پر بھی لگوائی ہیں، سوائے اس کے کہ آپ نے ویکسین چھوڑ دی تھیں یا تاخیر سے شروع کروائی تھیں۔
ویکسین چاہے پرائیویٹ ہو یا گورنمنٹ کی، دونوں کی افادیت ایک جیسی ہے۔آٹھ نو ماہ کی عمر میں بچے کو خسرہ سے بچاؤ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے،
پھر ایک سال کی عمر کے بعد MMR ( خسرہ، کن پیڑے، اور جرمن خسرہ ) کا پہلا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ چکن پاکس کا پہلا ٹیکہ۔
ہمارے گٹر سسٹم کی خرابیوں اور پینے کے صاف پانی میں گٹر کے پانی کی آمیزش کی وجہ سے پاکستان میں چونکہ ٹائفائیڈ بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے گورنمنٹ نے پچھلے سالوں سے ٹائفائیڈ کے ٹیکے بھی نو ماہ سے اوپر کے بچوں کو لگانے شروع کردئیے ہیں تاکہ انہیں ٹائفائیڈ سے بچایا جاسکے۔
اگر پانی ابال کر یا فلٹر کرکے پینے کے لیے استعمال کریں، باتھ روم کے استعمال کے بعد صابن سے ہاتھ اچھی طرح دھولیں اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں تو ٹائفائیڈ اور وائرل ہیپاٹائٹس اے سے بچاؤ ممکن ہے۔
آگے بڑھتے ہیں،
ڈیڑھ سال کی عمر میں ہم بطور بوسٹر DTaP, Hib, IPV/ OPV لگاتے ہیں، اس لیے ہیپاٹائٹس بی کے ابتدائی تین یا پیدائش والے ٹیکے کو شامل کرکے چار کے بعد کسی بوسٹر کی ضرورت نہیں۔
ہیپاٹائٹس اے کھانے اور پینے سے لگنے والی ایک بیماری ہے جیسے کہ ٹائفائیڈ۔ ہیپاٹائٹس اے سے بچاؤ کے ٹیکے پاکستان میں پرائیویٹ طور پر دستیاب ہیں، ان کو لگوانا بہتر ہے۔ ان کو لگانے کی عمر ڈیڑھ سال سے اوپر ہے، اور دوٹیکوں کا کورس چار ماہ کے فرق سے مکمل کیا جاتا ہے۔
دوسال کی عمر کے بعد اگلے ٹیکے چار تا پانچ سال کی عمر میں لگائے جاتے ہیں اور ان کو بوسٹر 2 کہا جاتا ہے، اور اٹھارہ ماہ کی عمر میں جو ویکسین استعمال کی گئی تھیں یعنی DTaP, Hib , IPV/ OPV وہ استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ MMR 2 اور چکن پاکس 2 بھی اسی عمر میں عام طور پر استعمال کیا جاتی ہیں۔
اس کے علاؤہ کچھ مزید ویکسین بھی استعمال کی جاتی ہیں جن کا لگوالینا بہت ہی بہتر ہے، مثلاً گردن توڑ بخار سے بچاؤ کی ویکسین، اور نوجوان بچیوں میں خاص طور پر Cervical cancer سے بچاؤ کی ویکسین۔
کسی بھی ویکسین کو لگانے کے بعد عام طور پر بچوں کو ہلکا سا بخار، کبھی کبھی 102 تک، دو دن تک آسکتا ہے، اور اس بخار میں پیراسیٹامول کے سوا کچھ بھی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح ویکسین لگنے کے بعد اُس جگہ کی سنکائی یا برف سے ٹکور کردیں تاکہ بچے کو تکلیف سے بچایا جاسکے۔ عام طور پر بخار اور درد کے سوا کوئی سائیڈ ایفیکٹس ویکسین کے بعد نہیں ہوتے، مگر ہر دوا کی طرح ویکسین بھی ایک دوا ہے، اس لیے بخار اور درد کے سوا کوئی بھی علامات اگر بچے میں نظر آتی ہیں جو آپ کے خیال میں ویکسین کی وجہ سے ہوسکتی ہیں تو فوراً بچوں کے ڈاکٹر کو دکھائیں۔
ہم نے کوشش کی ہے کہ اس مضمون میں ویکسین سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کردیں۔
دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا سوائے پاکستان اور افغانستان کے۔ اگر ہم چاہیں تو پاکستان سے بھی اس کا خاتمہ ممکن ہے۔
آسی طرح دیگر ایسی بیماریوں میں بھی کمی ممکن ہے جن سے ہمارے ملک کا مستقبل یعنی ہمارے بچے دوچار ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں تپ دق (TB)، ہیپاٹائٹس بی، کالی کھانسی، ٹائفائیڈ وغیرہ شامل ہیں۔
یہ مضمون چونکہ بچوں کی مناسبت سے تحریر کیا گیا ہے اس لیے اس میں بڑوں سے متعلق بہت ساری اقسام کی ویکسین کا ذکر موجود نہیں، ان کے متعلق یا مزید کسی ویکسین سے متعلق معلومات اپنے ڈاکٹر سے آپ لے سکتے ہیں۔