وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کیا جائے، غریب عوام کو ریلیف پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں اپنی ذمہ داری کا مکمل احساس ہے اور ہم اس کو پورا کرنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار اسلام آباد میں اپنی زیر صدارت منعقدہ اُس اجلاس میں کیا جس کا مقصد مستحق اور غریب افراد کو غذا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی خریداری میں حکومت کی جانب سے براہِ راست سبسڈی کی فراہمی کا جائزہ لینا تھا۔ اجلاس میں وزیراعظم کو مجوزہ ’’احساس فوڈ پروگرام‘‘ کے متعلق آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے معاشرتی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے پروگرام کے خدوخال اور طریقِ کار سے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ پروگرام کا مقصد حکومتی امداد مستحقین تک شفاف طریقے سے براہِ راست اور فوری طور پر پہنچانا ہے۔ اجلاس میں پروگرام سے استفادہ کرنے والے خاندانوں اور افراد کے اعداد و شمار اور ابتدائی تخمینے کی تفصیل بھی پیش کی گئی۔
ممتاز شاعر احمد فراز مرحوم کے فرزندِ ارجمند وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے بھی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران قوم کو نوید سنائی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستان کی بہتری کا فیصلہ کن دور شروع ہوچکا ہے۔ معاشی بہتری کا فائدہ غریب عوام کو پہنچائیں گے۔ عوام کو مہنگائی کے چنگل سے آزاد کرائیں گے۔ غریبوں کو صحت کے ساتھ ساتھ چھت بھی فراہم کریں گے۔ مہنگائی کی وجوہات مختلف ہیں، لیکن اس میں کچھ پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے۔ بعض چیزیں درآمد کی جاتی ہیں، اس کے باوجود ٹارگٹڈ سبسڈی دیں گے تاکہ صاحبِ ثروت کے بجائے مستحق افراد کو فائدہ پہنچے۔ مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے 3 ماہ قبل کام شروع ہوا تھا، عوام بہت جلد اس کے ثمرات دیکھیں گے۔
وزیراعظم عمران خان اور اُن کے وزراء کی دل خوش کن باتیں اور یقین دہانیاں سن سن کر ڈھائی برس میں عوام کے کان پک گئے ہیں اور اب صورتِ حال شاعر کے الفاظ میں کچھ یوں ہے ؎۔
ترے وعدے پہ جیے تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
وفاقی وزیر اطلاعات جناب شبلی فراز نے ارشاد فرمایا ہے کہ کچھ چیزیں ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ مگر قوم اب یہ سمجھ چکی ہے کہ ’’کچھ چیزیں‘‘ نہیں بلکہ ’’کچھ بھی‘‘ موجودہ حکمرانوں کے کنٹرول میں نہیں۔ حکومت نام کی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ جب سے وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے وہ مافیاز پر آہنی ہاتھ ڈالنے کے اعلانات کررہے ہیں، مگر اب تک یہ آہنی ہاتھ کسی کے خلاف حرکت میں نہیں آسکا۔ آٹا اور شوگر مافیاز کے خلاف تاحال کمیشن در کمیشن کی تشکیل کا سلسلہ جاری ہے مگر قوم ابھی تک ان مافیاز میں سے کسی کو شکنجے میں کسا دیکھنے کی منتظر ہے۔ حالت یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ عام آدمی آٹا اور چینی پہلے سے کئی گنا مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہے، مافیاز ہر شعبے میں پوری طرح من مانی کررہے ہیں، جب کہ حکومت ان کے سامنے بے بس اور بے کس، ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنی محض زبانی دعووں میں مصروف ہے۔ وزیر اطلاعات کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ مہنگائی کی مختلف وجوہ میں سے کچھ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ جو کچھ حکومت کے اپنے کنٹرول میں ہے اُس میں حکومت کی کارکردگی کیا ہے؟ چینی، آٹا اور ادویہ وغیرہ کی قیمتیں مافیاز نے بڑھائی ہوں گی مگر بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنا تو حکومت کے کنٹرول میں ہے، اور خود حکومت آئے روز ان بنیادی ضروریات کی قیمتیں دیگر اشیاء کے مقابلے میں کہیں تیز رفتاری سے بڑھاکر دیگر اشیائے ضروریہ کی گرانی کا جواز فراہم کرتی ہے، کیونکہ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر لامحالہ تمام اشیاء کی پیداواری لاگت اور نقل و حمل کے اخراجات پر پڑتا ہے۔ حکومت کئی ماہ سے عوام کو لالی پاپ دیتی چلی آرہی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی حکومتی اور نجی شعبے کی کمپنیوں سے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور وہ حکومت کو سستی بجلی فروخت کرنے پر تیار ہوگئی ہیں، مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہر ماہ ایک سے زیادہ بار بجلی کی قیمت بڑھا دیتی ہے، اور یوں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کا جواز گراں فروشوں کو مہیا کردیتی ہے۔ اس طرح عوام کا اعتماد بھی وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کی باتوں پر سے اٹھتا چلا جارہا ہے۔ اب ’’احساس فوڈ اسٹمپ‘‘ نام کے جس پروگرام کا آغاز کرنے کے عزائم ظاہر کیے جا رہے ہیں بظاہر تو اسے غریب اور مستحق افراد کی مدد کا نام دیا جارہا ہے، مگر وزیراعظم کو سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ غریب عوام کی عزتِ نفس مجروح کرنے اور معاشرے میں بھکاریوں کی ایک نئی قسم کی حوصلہ افزائی کا سامان تو نہیں کررہے؟