کل جماعتی حریت کانفرنس کے نظربند راہنما میر واعظ مولوی عمر فاروق نے خانہ نظربندی کے عالم میں بی بی سی کو ایک اہم انٹرویو دیا ہے۔ اس انٹرویو سے کشمیر کے موجودہ حالات اور مستقبل کے معاملات کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ میرواعظ کے انٹرویو کے ساتھ ساتھ جلاوطن کشمیری راہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی نے بھی ایک مضمون میں مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ دونوں کشمیری راہنمائوں کے خیالات کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان سیز فائر معاہدے کی تجدید ایک خوش آئند آغاز ہے مگر اس کو بامعنی بنانے کے لیے اس سمت میں کئی اہم اقدامات کرنا ہوں گے۔
اپنے انٹرویو میں میرواعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ حریت کانفرنس کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان اور بھارت کی قیادت سے مذاکرات کیے، جس کا مطلب ہے کہ کشمیری جنگ وجدل نہیں چاہتے اور جلد یا بدیر مسئلے کو پُرامن انداز سے حل ہونا ہے۔ مودی کو واجپائی کی سوچ کو اپناکر پاکستان اور کشمیریوں سے بات کرنی چاہیے۔ میرواعظ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھارت نے کشمیر میں جو تبدیلیاں کی ہیں وہ کشمیرکے زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ بھارت ہمیں نظربند رکھے یا آزاد، ہمارا مؤقف تبدیل نہیں ہوگا۔ میرواعظ عمر فاروق 19 ماہ سے نظربند ہیں اور خود اُن کے بقول وہ 82 جمعہ جامع مسجد میں خطاب اور نماز ادا نہیں کرسکے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر ہونے کے بعد سب سے پہلی خبر یہی ملی تھی کہ میرواعظ عمر فاروق کی نظربندی ختم کی جا رہی ہے اور وہ جامع مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کریں گے۔ ایسا نہ ہوسکا اور جامع مسجد اور اُس کے گردو نواح کا علاقہ ایک بار پھر سراپا احتجاج بن گیا۔کشمیری نوجوان پتھر ہاتھوں میں لیے گلیوں میں نکل آئے اور ان کے لبوں پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’بھارت کے لیے تلوار ہیں ہم‘‘کے نعرے تھے۔ جامع مسجد کے گرد ونواح میں نوجوانوں کا یہ احتجاج 5 اگست2019ء کے بعد کشمیر میں عارضی سکون اور سکوت کی چادر میں عوامی جذبات کا پہلا چھید تھا، جس نے یہ بتادیا کہ کشمیریوں کے جذبات، احساسات اور مطالبات کا گراف وہیں ہے جہاں چار اگست کوتھا، صرف بھارت نے طاقت کے ذریعے ایک خوف کی فضا قائم کرکے کشمیریوں کو وقتی طور پر خاموش کرا دیا تھا۔ جوں جوں جبر اور خوف کا ماحول ختم ہوگا اور کشمیری قیادت کو جیلوں سے رہائی اور باہمی مشاورت کے لیے رابطوں کی سہولت حاصل ہوگی، کشمیریوں کے جذبات کا آتش فشاں ماضی کے کئی ادوار کی طرح پھٹ پڑے گا۔ اس سکوت اور سکون کی وجہ بھی یہ تھی کہ کشمیری قیادت کا باہمی اور ان کا عام آدمی سے رابطہ کاٹ دیا گیا تھا۔ کشمیر کی مزاحمت کی رواں تحریک کو چلانے والے مزاحمتی فورم کے راہنمائوں کا حال یہ تھا کہ سید علی گیلانی صحت کی ناسازی کے باعث فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیںرہے،کئی جسمانی عارضوں کا شکار اُن کے جانشین اشرف صحرائی کو گھر سے تین سو کلومیٹر دور اودھم پور جیل میں رکھا گیا، لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک برسوں سے تہاڑ جیل میں مقید ہیں، میر واعظ عمر فاروق بھی گھر میں نظربندی اور زباں بندی کے قانون کی زد میں تھے جس کی وجہ سے عام آدمی تک قیادت کا لائحہ عمل اور پروگرام نہیں پہنچ رہا تھا۔ یہ احساس بھارت کو پوری طرح تھا، اسی لیے بھارت نے کشمیر پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے میں خاصا عرصہ لگادیا۔
سری نگر کی صدیوں سے قائم جامع مسجد کشمیر کے اسلامی تشخص کی علامت اور پہچان ہے۔ جامع مسجد ایک ادارہ ہے جو کشمیریوں کی سیاسی اور مذہبی راہنمائی کرتا ہے۔ اس مسجد کا نگران میرواعظ خاندان ہے، اور میرواعظ کو وادی اور سری نگر کی ثقافت اور روزمرہ کی زندگی میں وہی حیثیت حاصل ہے جو ویٹی کن سٹی میں پوپ کو حاصل ہوتی ہے۔ میرواعظ ہر جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہیں اور دینی موضوعات پر بات کرنے کے علاوہ یہاں کشمیر سمیت سیاسی امور پر بھی بات کی جاتی ہے۔ جامع مسجد اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی سخت گیر پرو پاکستان سوچ اور جذبات کا مرکز رہا ہے۔ جامع مسجد کی اسی حیثیت کو دیکھتے ہوئے بھارتی حکومت نے پانچ اگست سے پہلے ہی مسجد کو خاردار تاروں میں محصور کرکے صدر دروازے پر تالے چڑھا دیئے تھے۔ یوں تاریخ میں پہلی بار جامع مسجد سجدہ گزار جبینوں اور روح پرور نظاروں کو ترس رہی تھی۔ اب میرواعظ عمرفاروق پرویزمشرف من موہن امن عمل میں کشمیر کے آزادی پسند جذبات کے نمائندے تھے۔ اسی عرصے میں انہوں نے بھارت کے دو وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، اور دو وزرائے داخلہ سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اسے سہ فریقی کے بجائے تکونی مذاکرات کہا گیا تھا۔ یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوا تھا، اور اب میرواعظ دوبارہ اسی ٹوٹے ہوئے دھاگے کو جوڑنے کی بات کررہے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ پھنسے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانے کا یہی ایک راستہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر غلام نبی فائی نے بھی کچھ تجاویز پیش کی ہیں جن کے مطابق کشمیر میں فوجی تشدد کا خاتمہ کیا جائے، فوجی انخلاء عمل میں لایا جائے، آبادیوں میں سے بیرکیں اور چوکیاں ہٹائی جائیں، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور کالے قوانین کا خاتمہ کیا جائے،کشمیریوں کا حقِ سفر بحال کیا جائے اور بیرونی دنیا میں آباد کشمیریوں کو وطن واپس جانے دیا جائے تاکہ وہ امن عمل میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
میر واعظ اور غلام نبی فائی کے خیالات بتا رہے ہیں کہ کشمیری امن کی بحالی اور اسے دوام بخشنے میں برصغیر کے دو حریف ملکوں میں معاون اور سہولت کار بننا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو 74 برس سے تشدد کا نشانہ بنی ہوئی ہے، امن کی سب سے بڑی خواستگار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی ہر کوشش کا خیرمقدم ہونا چاہیے، کیونکہ کشمیر کی زمین اس وقت کھلی جنگوں اور پراکسی جنگوں کا میدان بن کر رہ گئی ہے۔ اس کی ساری قیمت کشمیری عوام کو چکانا پڑ رہی ہے۔ اس لیے موجودہ سیز فائر کے بعد سرنگ کے دوسرے سرے پر جو روشنی نظر آرہی ہے سب کا فرض ہے کہ اُسے حقیقت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آئیڈیل ازم کا زمانہ گزر گیا، حالات وواقعات نے ثابت کیا کہ اب ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘، اور ’’سب کی فتح سب کی جیت‘‘ کے اصول کو اپناکر ہی مسئلے کا دائمی اور پائیدار حل نکالا جا سکتا ہے۔