عالمی یوم خواتین : مضبوط خاندان،محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ

جماعت اسلامی کراچی حلقہ خواتین کے تحت ”عورت اور فیملی ازم“ کانفرنس اورخواتین واک

ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اور اس حوالے سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سیمینار کروائے جاتے اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ ان میں  ایک طبقہ تو وہ ہے جو مرد اور عورت کو آپس میں لڑانے اور خاندانی نظام کو نشانہ بنانے کی مغربی خدمت کے مطابق اپنی سرگرمیاں کرتا ہے، جس پر ہمارے معاشرے میں خاصا ردعمل بھی پایا جاتا ہے۔ اِس مرتبہ بھی خواتین کے عالمی دن پر پاکستان کے کئی شہروں میں این جی اوز کے مخصوص ایجنڈوں کے مطابق ”عورت آزادی مارچ“ کے تحت ریلیاں نکالی گئیں، اور ان میں ماضی کی طرح کے وہی نعرے لگائے گئے جو خود پاکستانی عورت پسند نہیں کرتی۔ ان این جی اوز کی سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ یہ عورتوں کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ ان کے استحصال کے لیے کام کررہی ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو عورتوں  کے مسائل اور ان کے لیے معاشرے میں جو مشکلات موجود ہیں ان کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں میں پورے سال لگا ہوتا ہے، وہ حکمرانوں کو بھی متوجہ کرتا ہے اور مرد و خواتین کو بھی بتاتا ہے کہ جو حقوق اور تحفظ اسلام عورت کو دیتا ہے وہ دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی کراچی حلقہ خواتین کے تحت ”عالمی یوم خواتین“ کے حوالے سے دو اہم سرگرمیاں ہوئیں۔ مقامی ہوٹل میں ”عورت اور فیملی ازم“ کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، اور ”مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ“ مہم کے سلسلے میں کراچی پریس کلب پر ”خواتین واک“ کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس ہال میں کتابوں کے اسٹال لگائے گئے، سوشل میڈیا ٹیم بھی موجود تھی، اور ایک بڑی اسکرین بھی نصب کی گئی تھی۔ کانفرنس میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین میں ایوارڈ بھی تقسیم کیے گئے۔ اس کانفرنس سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل دردانہ صدیقی، شعبہ امور خارجہ کی چیئرپرسن، اسلامی نظریاتی کونسل و قومی اسمبلی کی سابق رکن ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، ناظمہ کراچی اسماء سفیر، و دیگر نے خطاب کیا۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین معاشرے کا آدھا حصہ ہیں۔ انہوں نے اہم نکتے پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ میڈیا اور حکومتی سطح پر معاشرے کا آدھا حصہ نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اسلام میں عورت کے اخراجات کی ذمہ داری شوہر، باپ، بھائی، رشتہ داروں اور معاشرے سمیت ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ دور میں میڈیا عورت کی شخصیت کو مجروح کرتے ہوئے اسے بے وفا اور بے اعتبار دکھانے کی کوشش کررہا ہے، یہ سب کس ایجنڈے کے تحت ہورہا ہے؟ عورت کو بے وقعت کرنے اور اشتہار میں استعمال کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھروں کا انتظام چلانے والی خواتین بھی ورکنگ ویمن ہیں۔ اسلام نے عورت کو حقوق اور وراثت میں حصہ دیا ہے، اسلام نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا مکمل حق دیا ہے، جبکہ مغربی معاشرے میں حال یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے قیام کے طویل عرصے بعد 1920ء میں ایک خاتون کو پہلی بار ڈگری جاری کی گئی تھی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ عورت کے حقوق کی بات کرنے والی این جی اوز بھی ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کے لیے بات نہیں کرتیں، عورت ٹھیکیداری نظام کے تحت فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہے، خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کا سرکاری سطح پر کوئی نظام ہی نہیں۔
دردانہ صدیقی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اسلام ہی خواتین کے حقوق کا محافظ اور ضامن ہے، اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی معاشرے میں مرد و عورت دونوں قابلِ احترام ہیں، حقوق وفرائض کی رسّاکشی سے منفی رویّے جنم لیتے ہیں، آج کی سسکتی اور حقوق کی دوڑ میں سرگرداں عورت کے لیے جائے پناہ صرف اسلام کا دامن ہے، موجودہ دور میں آزادیِ نسواں کے دلفریب نعروں کی بدولت عورت دہری ذمے داریاں برداشت کرنے پر مجبور ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان متاثر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جماعت اسلامی کی خواتین اس بات کا عزم کرتی ہیں کہ عورت کو اس کے اصل حقوق دلانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ عورت کو اس کا حق نبی ؐکی تعلیمات کے مطابق دیا جائے۔ اسلام نے عورت کو معاشی، تعلیمی، معاشرتی سمیت تمام حقوق دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو کاروکاری، قرآن سے شادی سمیت دیگر معاملات پر قانون سازی کی ضرورت ہے، موجودہ دور میں عورت کے حقیقی مسائل اجاگر کیے جائیں۔
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ 19ویں اور 20 ویں صدی میں عورت کو حقوق دینے کی آڑ میں مذہب اور معاشرے سے دور کرنے کی سازش کی گئی، جماعت اسلامی فیمیل ازم یا میل ازم کی نہیں، فیملی ازم کی بات کرتی ہے، جماعت اسلامی حلقہ خواتین عورت کو حقوق دلانے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہے، حلقہ خواتین کراچی پاکستان سمیت دنیا بھر میں فعال کردار ادا کررہا ہے، جماعت اسلامی حلقہ خواتین پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا، الخدمت، ویمن اینڈ فیملی کمیشن، لیگل ایڈ کے شعبوں میں فعال کردار ادا کررہا ہے، اسی طرح ہر سال عالمی یوم حجاب کی طرح عالمی یوم خواتین بھی منا رہا ہے، تاکہ خواتین کو حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت بی بی فاطمہ ؓاور حضرت بی بی زینب ؓکی طرح زندگی گزارنے کی ترغیب دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عورت کی پہلی ذمہ داری اپنے وقار اور گھروں کے سکون کا خیال رکھنا ہے۔ اسماء سفیر نے خواتین کے حقوق کے لیے چارٹر پیش کیا جس میں معاشرے میں استحکام خاندان، طلاق کی شرح میں اضافے، عورت پر ہونے والے مظالم، خواتین کی فکری اور گھریلو تربیت، ملک بھر میں دعوت کے فروغ، قدرتی آفات میں بھرپور مدد، فلاح کے نیٹ ورک کا کام، دین پر عمل نہ کرنے کے باعث مسائل، خواتین کے معاشی و سماجی مسائل کم کرنے، نوجوان بچیوں، تعلیم، صحت اور صحافت سمیت دیگر شعبوں کے حوالے سے مختلف نکات شامل ہیں۔ شمائلہ نعیم نے کہا کہ کچھ شعبوں میں خواتین کی کارکردگی مردوں سے بہتر ہے اور کچھ شعبوں میں مردوں کی کارکردگی خواتین سے بہتر ہے۔
”مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ“ مہم کے سلسلے میں کراچی پریس کلب پر ”خواتین واک“ کا بھی انعقاد کیا گیا۔ واک میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین ڈاکٹرز، اساتذہ، وکلا، خاتون صحافیوں، طالبات اور ورکنگ ویمن نے شہر بھر سے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ واک سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، جماعت اسلامی پاکستان حلقہ خواتین کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری آمنہ عثمان، ناظمہ صوبہ سندھ عطیہ نثار، نائب ناظمہ سندھ رخشندہ منیب، ناظمہ کراچی اسماء سفیر، معتمدہ کراچی فرح عمران اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ واک میں خواتین نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔ عالمی یوم خواتین کے پس منظر میں اہم بات یہ ہے جس کا اظہار ناظمہ جماعت اسلامی کراچی اسماء سفیر نے اپنے خطاب میں بھی کیا کہ عورت کو تمام حقوق اسلام ہی دیتا ہے، اسلام سے زیادہ کوئی بھی عورت کو حقوق نہیں دیتا، مغربی تہذیب سے متاثرہ بعض نام نہاد لبرل خواتین حقوقِ نسواں کی آڑ میں غیر اخلاقی نعروں اور مطالبات کے ذریعے خواتین کے تقدس کو پامال کررہی ہیں۔