عمران خان اور ان کی حکومت کا تضاد

تعلیمی اداروں میں موسیقی اور رقص کی کلاسوں کی اجازت

۔”ریاست مدینہ‘‘ کے ایجنڈے کے مطابق ہے یا مغرب کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا عملی قدم؟

عمران خان نے پاکستان کو ریاست ِمدینہ بنانے کی بات ایک بار نہیں بار بار کی ہے، اور وہ اس پس منظر میں کافی تفصیلات اور اپنے تجربے کو بیان کرتے رہے ہیں، وہ اکثر فرماتے ہیں ’’میری زندگی مغرب میں، انگلینڈ میں، کرکٹ کھیلتے ہوئے گزری۔ تعلیم کے دوران ہمیں کبھی احساس نہیں ہوا کہ ہمارا رول ماڈل نبیؐ کو بننا چاہیے۔ ہمارے رول ماڈل کوئی اور تھے، کوئی فلمی اداکار تھا، کوئی کھلاڑی تھا۔ ہمیں خبر ہی نہیں تھی۔ ہماری تعلیم ہمیں اس طرف نہیں لے کر گئی۔ میں یہاں پر اپنی زندگی کے تجربے سے پہنچا ہوں‘‘۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی فرماتے رہے ہیں کہ ’’ایک انسان کو اگر عظیم بننا ہے تو اسے چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلے، اور اگر ایک قوم کو عظیم بننا ہے تو مدینے کی ریاست کے اصولوں پر چلے‘‘۔ عمران خان کے مطابق ’’صرف مسلمان گھرانے میں پیدا ہونا اہم نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا اہم ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے مسلمانوں کے لیے اسوئۂ کامل چھوڑا ہے‘‘۔
نومبر 2019ء میں انہوں فرمایا: ’’میرا یہ مشن ہے کہ ہم تعلیم کے نظام کو ایسا بنائیں کہ ہمارے بچوں کو اس بات کی سمجھ آئے کہ وہ کیا کردار تھا جس نے مسلمانوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، ہمیں پاکستان کو مدینے کے اصولوں پر ایک عظیم ریاست بنانا ہے‘‘۔
لیکن وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان کی باتیں صرف باتیں ہی رہیں۔ ان کی طرزِ حکمرانی اور ان کی جماعت ان کی سوچ اور دعووں کے بالکل برعکس ہے جس کا ایک مظہر ان کے وزیر تعلیم شفقت محمود ہیں، جنہوں نے نجی اداروں کو میوزک اور ڈانس کلاسز کی مکمل آزادی دے دی ہے۔ اس بات کی کوشش ایک مخصوص لبرل طبقے کی طرف سے ایک عرصے سے آرٹ اور ثقافت کے نام پر کی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے مشورے قومی ثقافت کو محفوظ بنانے کے نام پر پاکستان بھر سے نامور اداکاروں، فنکاروں اور ہنر مندوں سے کیے گئے۔ اور انہوں نے وہی مشورے دیے جو ان کی تہذیب اور تربیت کا تقاضا تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حُسن کے بازاروں اور ’’کوٹھوں‘‘ کی ثقافت رقص اور موسیقی کو اب ریاستی سطح پر عام کرنے کا باقاعدہ آغاز کرنے کی بنیاد ڈال دی گئی۔ اس صورتِ حال میں اب سوال یہ بنتا ہے کہ یہ اجازت اور تعلیمی پالیسی عمران خان کے دعوے اور ’’ریاست مدینہ‘‘ کے ایجنڈے کے مطابق ہے یا مغرب کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا عملی قدم؟ کیا ریاست مدینہ کے بنیادی تصورات کا تقاضا یہ ہے؟ وزیراعظم صاحب! آپ کی تقریریں ریاست مدینہ، تصورِ اقبال اور قائداعظم کے فرمودات سے بھری ہوتی ہیں، تو کیا اقبال اور قائداعظم کا تصورِ تعلیم یہ تھا؟وہ تعلیم کے حوالے سے یہی نظریہ رکھتے تھے؟ اقبال تو ایسی تعلیم کے سخت مخالف تھے جو مسلمان کو اپنے دین سے بیگانہ کردے، وہ اس کو فتنہ کہتے، ان کا نظریۂ تعلیم تو یہ تھا کہ: ۔

علم کا مقصود ہے پاکیِ عقل و خرد

اقبال تو مغرب کے نظام تعلیم سے نالاں تھے، وہ کہتے تھے ’’مغربی نظام تعلیم مادیت پرستی، عقل پرستی اور بے دینی و الحاد کا سبق دیتا ہے‘‘۔

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

قائداعظم کے تصورات، قراردادِ مقاصد اور آئین کا آرٹیکل 31تقاضا کرتا ہے کہ ہمارا قومی نظامِ تعلیم اور ہمارا قومی نصاب اسلام کے نظامِ حیات پر مبنی ہوگا۔ اور آپ کی حکومت مغرب کے اس ایجنڈے اور خواب کو پورا کرنے کے راستے پر ہے جس کے بارے میں اقبال نے ہی کہا تھا کہ

روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو

وزیراعظم صاحب! آپ نے ایلیٹ مخلوط تعلیمی اداروں کو ناچ گانے کی محفل سجانے کی اجازت دے کر وہ کام کیاہے جو اس سے پہلے سیکولر حکمراں بھی نہیں کرپائے۔ ان اداروں سے پہلے ہی اسلام اور پاکستان کے خلاف طلبہ میں زہر گھولنے کی خبروں کے ساتھ مخلوط ماحول کی ’’بری‘‘ خبریں آتی رہتی ہیں، یہ ایلیٹ کلاس کے تعلیمی ادارے پہلے جو کچھ کررہے تھے اس پر ریاست و قانون کا کچھ عمل دخل تو تھا، کچھ آوازیں اٹھ جاتی تھیںٍ لیکن وہ ادارے جن بیرونی ایجنڈوں کو لے کر چل رہے ہیں  اب آپ کی ’’ریاست مدینہ‘‘ کی حکومت نے ان کو سرکاری سرپرستی دے دی ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہماری تہذیب اور تاریخ میں ان چیزوں کی گنجائش ہی نہیں ہے، یہ ہمارے تمام بنیادی تصورات سے متصادم ہیں۔ ہمارے یہاں پہلے ہی تعلیمی اداروں کی صورت حال بد سے بدتر ہورہی ہے، مخلوط تعلیمی اداروں میں بے حیائی اور منشیات کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ایک منظم منصوبے کے ساتھ ہورہا ہے۔ پہلے ہی ٹی وی ڈراموں نے بے حیائی کو اذہان میں معمول کی بات کی طرح راسخ کردیا ہے۔ اس وقت قحبہ خانہ کا کلچر شہر کی مخصوص حدود سے نکل کر پوش علاقوں تک پہنچ چکا ہے، جس کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔ یہ صورت حال ہماری سوچ سے بھی زیادہ خراب ہے، اخلاقی انحطاط تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس وقت ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے دین، تہذیب، روایات اور ریاست مدینہ کی تعلیم سے ہم آہنگ ہو، ایسا نظام تعلیم اور تعلیمی پالیسی ہو جو آئین کے مقاصد کے تابع ہو۔ آئینِ پاکستان کا تقاضا ہے کہ ریاست کے شہریوں کی انفرادی زندگی اور مختلف اداروں و شعبوں میں قرآن اور سنت کی روح نظر آئے۔ فرد اور قوم کی طرزِ زندگی اسلامی ہو۔ پھر ہمارا تعلیمی ماحول ایسا ہو کہ نسلِ نو اپنی ثقافت، روایات اور اپنے تصورِ حیات کے قریب ہو، نہ کہ دور۔ اس پس منظر میں سید مودودیؒ نے درست رہنمائی فرمائی ہے، وہ کہتے ہیں:۔
’’ ہر تعلیم کسی نہ کسی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ تعلیم کا مقصد کلچر کو زندہ رکھنا بھی ہوتا ہے اور اس کی نشوونما اور تسلسل کا اہتمام کرنا بھی ہوتا ہے تاکہ وہ آئندہ نسلوں میں منتقل ہوسکے۔ نظامِ تعلیم اس تصورِ حیات کو پوری قوم میں پھیلاتا اور نشوونما دیتا ہے جس تصورِ حیات کی حامل وہ قوم ہوتی ہے۔ زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی تہذیبی اور نظریاتی زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اپنی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم کو ترتیب دیتی ہیں۔ نظام تعلیم کی حیثیت ملّی سانچے کی سی ہوتی ہے جس میں قوم کا فرد فرد ڈھلتا ہے۔ اس لیے ملت کے سانچے کا غیروں کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ خالص اپنی ضروریات اور نظریات کے مطابق ہونا لازم ہوتا ہے‘‘۔
وزیر تعلیم شفقت محمود کا یہ قدم قابلِ مذمت ہے اور وزیراعظم عمران خان کو اس حوالے سے اپنی پوزیشن و اضح کرنی چاہیے اور اپنے ریاست مدینہ کے بیانیے اور دعووں کو یاد کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل کو رقص و موسیقی کی تعلیم دینے اور ان کوبے راہ روی کی طرف جانے میں ریاست کی سطح پر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے متنازع اور غیر آئینی فیصلہ فوری طور پر واپس لینا چاہیے ۔
یہ ایک بڑے منصوبے کی ابتدا ہے، اسے  روکنا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ سندھ پہلے ہی اس حوالے سے تضاد کا شکار ہے، جب پاکستان تحریک ِ انصاف کے ہی رکنِ صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان نے کچھ عرصہ قبل ایک خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ چند نجی تعلیمی اداروں میں رقص کی تعلیم دی جاتی ہے جو ان کے خیال میں مذہب ِ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے اس لیے اسے روکا جائے۔اس پرمغرب زدہ این جی اوز کے نوکروں کی طرف سے نکتہ چینی کی گئی تو تحریک ِ انصاف نے بحیثیت سیاسی جماعت خود کو اس معاملے سے یہ کہہ کر علیحدہ کرلیا کہ یہ عمل خرم شیر زمان نے اپنی ذاتی حیثیت میں اٹھایا ہے اور یہ تحریکِ انصاف کی پالیسی نہیں ہے۔کیونکہ اس وقت سندھ کے وزیرِ تعلیم جام مہتاب ڈہر سے منسوب ایک بیان بھی مقامی میڈیا میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے بعض نجی تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی حمایت کی تھی۔اس وقت ایک سرکلر جاری کیا گیا تھا جس میں تمام نجی تعلیمی اداروں سے کہا گیا تھا کہ کچھ اسکولوں نے رقص سکھانے کے نام پر استاد بھرتی کیے ہیں اور وہ بچوں کو ’فحش رقص‘ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس اعلامیے میں ایسے تمام اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔لیکن وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ” اسکولوں میں رقص پرپابندی سے متعلق جاری ہونے والے اعلامیے کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے اور ایسا کرنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی“۔اب جب وفاق یہ کام اپنی سرپرستی میں کرے گا تو پھر سب کو شہہ ملے گی اور ہر صوبے کی ہمت بڑھے گی ۔ اس ضمن میں ہمارے علماء اور نظریاتی سیاسی جماعتوں اور پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والوںکو موثر آواز اٹھانی چاہیے، کیونکہ یہ ہمارا دینی و تہذیبی تقاضا ہے۔اس پر خاموشی کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔