بچے اور سزا

بچہ انسان کا باپ ہے۔
بچے قوم کی امیدیں ہیں!۔
بچے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں!۔
بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر جب کبھی بات چلے، اس قسم کے خوش نما اور خوش آئند جملے عام طور سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن پوچھا جاسکتا ہے کہ مستقبل کے اس باپ، امید اور سرمائے کی مناسب حفاظت، تربیت اور ذہنی و جسمانی نشوونما کی طرف ہم نے سچ مچ کبھی سنجیدہ رویہ اختیار کیا ہے؟
میرا خیال ہے، نہیں۔ مثال کے طور پر کیا آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بچوں کو جیب خرچ دینا اُن کی شخصیت بنانے اور بگاڑنے میں کتنا اثر رکھتا ہے؟ آپ ناک چڑھائیں گی، واہ، یہ بھی کوئی مسئلہ ہے جس پر مغز پچی کی جائے۔ مگر آپ نہیں جانتیں، واقعی یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ بچے کی شخصیت پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ یا ٹھیریے! بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور سزا دینے کے مسئلے کی تو کچھ نہ کچھ اہمیت آپ تسلیم کریں گی۔ اچھا، اس موضوع پر آپ نے کبھی سنجیدگی سے سوچ بچار کیا ہے؟
غالباً نہیں!۔
اور آپ کیوں کریں؟ جب ’’ڈنڈا پیر مسٹنڈوں کا‘‘ اور ’’مار کے آگے بھوت بھی بھاگے‘‘ جیسے محاورے آپ نے سن رکھے ہیں تو کیوں ناں آپ ان آزمودہ نسخوں کو ’’بوقتِ مشکل‘‘ استعمال کرلیں! آخر بچے بھوتوں یا مسٹنڈوں سے تو زبردست نہیں ہوتے۔ بس ادھر کسی بچے نے ذرا شرارت کی، ادھر آپ نے ڈانٹ پلائی۔ اور لیجیے خاموشی چھا گئی۔ کتنا آسان علاج ہے۔ اب بھلا آپ ان آزمودہ نسخوں کو چھوڑ کر نئے نئے، صبر آزما طریقے کیوں برتنے لگیں؟
مگر آپ اندازہ نہیں کرسکتیں کہ آپ کی اس ’’سہل انگاری‘‘ نے آپ کے بچے کی شخصیت کی نشوونما کے امکانات کو کس قدر تاریک کردیا۔ اس کے دل کی کلیوں کو کیسے جھلسا دیا۔ اس کی روح کو کیسے پژمردہ بنا ڈالا۔
بچوں کی پرورش اور تربیت پر غور کرتے وقت دو باتیں ہمیشہ پیش نظر رکھیے۔ پہلی یہ کہ بچے بے حد حساس ہوتے ہیں۔ کسی بھی دیکھی یا سنی بات کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر عمل کا ردعمل ہوا کرتا ہے۔ اور بچوں کی حالت میں تو یہ ردعمل انتہائی شدید ہوتا ہے۔ اس لیے بنا سوچے سمجھے ان کو مت ڈانٹیں، اور پیٹیں تو بالکل نہیں۔ ورنہ ان کے دل میں آپ کے خلاف نفرت و بغاوت کے جذبات جڑ پکڑنے لگیں گے۔
بدقسمتی سے ہمارے بچوں کا گھروں میں اپنا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ کوئی درجہ، کوئی رتبہ نہیں ہوتا۔ ہم انہیں صرف دل بہلاوے کا سامان ہی سمجھتے ہیں، چابی والے کھلونے، جنہیں بوقتِ ضرورت چابی دی اور اپنی مرضی کا ناچ نچوالیا، یا سُر نکال لیا، اور جب ہم ناول پڑھنے، ریڈیو سننے یا راز و نیاز میں مصروف ہوں تو ان کی ذرا سی حرکت، ذرا سے شور پر سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ ننھے منے کھلونے سہی، مگر بے جان نہیں ہیں، ان کے اندر بھی ہماری ہی طرح جذبات ہیں، ان کی بھی اپنی پسند ہوتی ہے، رجحانات ہوتے ہیں۔ جب تک ہم ان کے جذبات اور پسند کا احترام نہ کریں گے، ہم ان سے اپنا احترام نہ کراسکیں گے، تعظیم نہ لے سکیں گے۔
یہ ضروری ہے کہ بچے گستاخ نہ ہونے پائیں۔ وہ سیکھیں کہ انہیں کیسے بولنا، اٹھنا، بیٹھنا اور دوسروں سے پیش آنا چاہیے۔ مگر یہ سب ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ اس سے تو الٹا اُن کی شوخی و شگفتگی مر جاتی ہے، حوصلہ پست ہوجاتا ہے، اور قوتِ عمل کمزور پڑ جاتی ہے۔ ایسی ڈانٹ پھٹکار زہر ہلاہل کے برابر ہے۔ اور یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے گھریلو ماحول میں یہ زہر تشویش ناک حد تک گھلا ہوا ہے۔
والدین اور نووارد مہمانوں کے روبرو کوئی لڑکا بڑا مؤدب و منکسر بن کے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کیسا سمجھ دار اور سیانا بچہ ہے۔ لیکن انہیں کیا پتا کہ یہ ادب اور انکسار صرف بناوٹ ہے، ملمع ہے، مجبوری ہے اس ڈانٹ پھٹکار سے بچنے کی، جو ذرا بھی اِدھر اُدھر ہونے سے انہیں پڑ سکتی ہے۔ بچوں کو ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اس قسم کی دورنگی کی جو عادت پڑ جاتی ہے اور جو آخر عمر تک ان کے ساتھ رہتی ہے، اس کی ذمہ داری مکمل طور پر والدین کی اس ڈانٹ پھٹکار اور لعن طعن پر ہے جنہیں ہمارے بچے شاید روزِ پیدائش ہی سے اپنی لوحِ تقدیر پر نقش کروا کر لاتے ہیں۔
ایک منظر دیکھیے:۔
کسی نے تپائی پر رکھا خوش نما، بلوریں گلدان توڑ ڈالا۔
’’یہ گلدان کس نے پھوڑ دیا؟‘‘
’’میں نے نہیں پھوڑا‘‘۔
۔’’اور یہاں تھا کون؟… تم ہی نے پھوڑا‘‘۔
۔’’میں نے نہیں پھوڑا‘‘۔
۔’’نہیں پھوڑا… اچھا، میں بتلاتی ہوں‘‘۔
اور ماں کا تمتمایا، غضب ناک چہرہ دیکھ کر بچے کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے سمجھ لیا کہ اب انکار کیا اور تھپڑ لگا۔ چنانچہ پھر جو ماں نے بہکایا تو اس نے گردن ہلاکر جرم کا اقبال کرلیا۔ اور لو، اِدھر اس نے اقبالِ جرم کیا اور اُدھر ایک طمانچہ رخسار پر جڑ دیا گیا۔ بچے کی آنکھوں میں آنسو لرزنے لگے۔ شاید اس لیے کہ اس نے پٹائی سے بچنے کے لیے گلدان نہ توڑنے پر بھی مجرم ہونا تسلیم کرلیا تھا، اس پر بھی سزا مل ہی گئی۔ بعد میں پتا چلا کہ گلدان اصل میں لڑکے نے نہیں، چھوٹی بہن نے توڑا تھا، اور اس حقیقت کو نہ تو لڑکا ہی بتلا رہا تھا، نہ اس کی بہن ہی جرأت کررہی تھی کہنے کی… طمانچے کی دہشت جو تھی۔
سچ بولنے اور قصور مان لینے پر بھی اگر سزا ملے تو کوئی بچہ کیوں سچ بولے گا؟ کیوں ناں وہ جھوٹ بول کر آسانی کے ساتھ سزا سے بچ جائے اور والدین کی نظروں میں معصوم بھی بنا رہے۔ اعترافِ گناہ کے بعد بھی جو ماں باپ بچوں کو سزا دیتے ہیں، وہ گویا انہیں اپنے اس فعل سے جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، وہ انہیں دروغ بیانی پر مجبور کرتے ہیں۔ خود ان کو جُل دینے کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
ابتدائی عمر میں ہم بچوں سے یہ امید نہیں کرسکتے کہ سزا کا خوف سامنے رہتے ہوئے بھی وہ سچ کہہ سکیں گے۔ یہ امید تو سن وسال کی پختگی اور کریکٹر کی تعمیر کے بعد ہی کی جاسکتی ہے۔ اور سزا کی سنگین کی نوک کے سہارے جو سچ کہلوایا جاتا ہے، بیشتر حالتوں میں وہ سچ کے بجائے جھوٹ ہی ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ماں باپ کو دہشت انگیزی کے بغیر اصل حقیقت کا پتا لگانے کی سعی کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی سچ بولنے پر ہرگز سزا نہ دینی چاہیے، خواہ ان سے کیسا ہی گناہ سرزد ہوا ہو، کتنا ہی نقصان ہوگیا ہو۔ اس سے بچے کو سچ کہنے کی ترغیب ملے گی۔
جھوٹ بولنا ہی نہیں… چوری، دغا، فریب سب برائیوں کی جڑ یہ تھپڑ کا خوف ہی ہے۔ اس نامراد شے کو گھریلو ماحول سے دور کردیجیے، جیسے معصوم اور نازک الطبع یہ ننھے فرشتے ہوتے ہیں، ویسا ہی نرم اور ملائم سلوک آپ کو ان سے کرنا چاہیے۔ نرمی و ملائمت سے سمجھانے سے بچے بہت جلد سمجھ اور سیکھ لیتے ہیں۔
مار پیٹ سے بچے بگڑتے ہیں، سنورتے نہیں۔ اس سائنٹفک سچائی کو آپ جتنا جلد ذہن نشین کرلیں گی، آپ کے اور آپ کے بچوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ مار کھاتے کھاتے بچے ڈھیٹ بن جاتے ہیں۔ آپ کی پھٹکار اور پٹائی کا ان پر اثر نہیں ہوتا۔ وہ تھپڑ پروف ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ ڈنڈے کو ہی سب خرابیوں کا تریاق سمجھتی آئی ہیں تو خبردار رہیے، یہ تریاق بھی بے اثر ہوسکتا ہے۔
صرف یہی نہیں کہ کسی بچے کو خود ہی پیٹا جائے تو وہ بگڑے۔ دوسرے بچوں کو پٹتے دیکھ کر بھی ان کے معصوم دلوں پر برا اثر پڑتا ہے، وہ بڑوں سے ڈرنے لگتے ہیں، نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اکثر بچے مار پٹائی کے ڈر سے ہی اسکول جانے سے گھبرانے لگتے ہیں، اور کئی تو سدا کے لیے اسکول چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
اس سے واضح ہوگیا ہوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر سنجیدہ ہے اور آپ کی کتنی توجہ مانگتا ہے۔ کیا ہم امید کریں کہ آپ اپنے گھروں سے خوف و دہشت کا ماحول بدل دیں گی اور بچوں کو آزادی، پسند اور رجحانات کے مطابق اپنی نشوونما کرنے دیں گی۔ بچے اگر قوم کا سرمایہ ہیں تو اس قومی امانت کی ایمان داری اور ذمہ داری کے ساتھ حفاظت کیجیے۔ صرف اسی طرح آپ ایک اچھا معاشرہ اور صحت مند قوم پیدا کرسکیں گی۔