آج بھی اصل مسئلہ فرد کا مسئلہ ہے، جو ہمارے دوسرے مسائل کا سرا ہے، اور یہی ہمیشہ انسانی زندگی کا اصل مسئلہ رہا ہے، کیونکہ فرد وہ اینٹ ہے جس سے سوسائٹی اور حکومت بنتی ہے، اور اس کا حال آج یہ ہوگیا ہے کہ مادہ اور قوت کے سوا کسی چیز سے مطلب نہیں ہے، اِس دنیا کی قدر و قیمت اس کی نظر میں حقیقت سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے، لذت اور خواہشات کی بندگی حد سے گزر گئی ہے اور اپنے پروردگار سے، انبیا کی رسالت سے اور عقیدۂ آخرت سے رشتہ بالکل ٹوٹ چکا ہے۔ بس یہی فرد کا بگاڑ ہے جو سوسائٹی کے بگاڑ کا سرچشمہ اور تہذیب کی بدبختی کا ذمہ دار ہے۔
یہ فرد اگر تجارت کرتا ہے تو لالچ اور ذخیرہ اندوزی کا مظاہرہ کرتا ہے، ارزانی کے وقت مال روک لیتا ہے اور گرانی کے زمانے میں نکالتا ہے، اور اس طرح لوگوں کی بھوک اور پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ یہ فرد اگر مفلس ہوتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اپنی مفلسی کو دور کرنے کے لیے خود کچھ نہ کرے اور دوسروں کی محنتوں کا پھل مفت میں کھالے۔ اگر مزدوری کرتا ہے تو اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، لیکن مزدوری پوری لینا چاہتا ہے۔ اگر دولت مند ہوتا ہے تو اعلیٰ درجے کا کنجوس اور سنگ دل ہوتا ہے، اگر صاحبِ اقتدار ہوتا ہے تو لٹیرا اور بددیانت ہوتا ہے، اگر مالک ہوتا ہے تو ایک ظالم اور خودغرض مالک ثابت ہوتا ہے، جو اپنے فائدے اور اپنے آرام کے سوا کچھ دیکھنا نہیں چاہتا، اگر نوکر ہوتا ہے تو کام چور اور بے ایمان۔ اگر خزانچی بنادیا جاتا ہے تو غبن کرتا ہے، اگر وزیر یا جمہوریہ کا صدر بنادیا جاتا ہے تو شکم پرور، روح سے بے خبر اور بندۂ نفس ہوتا ہے جو صرف اپنی ذات اور اپنی پارٹی کے فائدے کو دیکھتا ہے، اگر لیڈر بن جاتا ہے تو بہت ہی ترقی پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس قوم اور وطن کی حدود سے آگے نہیں بڑھنا چاہتا اور اپنے وطن اور قوم کی عزت بڑھانے کے لیے دوسری قوموں اور ملکوں کی عزت و آبرو خاک میں ملانے سے کسی وقت بھی گریز نہیں کرتا، اگر قانون سازی کا اختیار ہاتھ میں آجاتا ہے تو ظلم کے قانون اور بڑے بڑے ٹیکس مسلط کردیتا ہے، اگر اس کے دماغ میں ایجاد و اکتشاف کی صلاحیت ہوتی ہے تو ہلاکت برسانے والے اور تباہی پھیلانے والے آلات ایجاد کرنے لگتا ہے، زہریلی گیس ایجاد کرتا ہے جو نوعِ انسانی کو ہلاک کردے، بمبار طیارے اور ٹینک بناتا ہے جو بستیوں کو کھنڈر اور راکھ کا ڈھیر بنا ڈالیں، ایٹم بم بناتا ہے جس کی ہلاکت خیزیوں سے نہ انسان بچ سکتے ہیں نہ حیوان، نہ کھیت، نہ باغات۔ اور جب اس فرد کو ان ایجادات کو استعمال کرنے کی قوت بھی مل جاتی ہے تو بستیوں کی بستیاں اندھا دھند نشانے پر رکھ لیتا ہے اور آن کی آن میں زندوں کے شہر، شہرِ خموشاں بنا ڈالتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جب اچھے افراد سے مرکب ہونے والا معاشرہ اور ان سے تیار ہونے والی حکومت ان افراد کی تمام خوبیوں کی آئینہ دار ہوتی ہے تو برے افراد سے تیار ہونے والا معاشرہ اور حکومت دونوں لامحالہ ان تمام افراد کی تمام برائیوں اور بیماریوں کی حامل ہوگی۔ اس میں تاجروں کی ذخیرہ اندوزی بھی ہوگی، نفع کا لالچ بھی ہوگا، تنگ دستوں کی سرکشی بھی ہوگی، مزدوروں کی کم محنت اور زیادہ اجرت کی بری عادت بھی ہوگی، دولت مند کی ہوس کے جراثیم بھی اسے اڑ کر لگیں گے، اپنے حکمران کی بدنیتی اور عیاری بھی اس میں پھیلے گی، مالکوں کا جوروستم بھی اس کی عبادت میں داخل ہوگا، نوکر کی خیانت اور خازن کا غبن بھی اس میں سرایت کرے گا، وزرا کی نفع پرستی اور لیڈروں کی وطن پرستی بھی گل کھلائے گی، قانون سازوں کے اندھیر اور سائنس دانوں کی بے راہ روی بھی اپنا جوہر دکھائے گی، اور زورداروں کی سنگ دلی بھی اس پورے معاشرے اور حکومت میں رنگ لائے گی۔