نواب بگٹی وزیر اعلیٰ نہیں بن سکے!۔

نواب بگٹی، بلوچ سرداروں اور نوابوں سے بہت مختلف شخصیت کے مالک تھے۔ اُن میں کشش بھی تھی۔ جب کبھی وہ پریس کلب آتے اور آنے سے پہلے کچھ دیر کلب کے باہر کھڑے ہوتے تو انہیں دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہوجاتے اور اُن سے ہاتھ ملاتے رہتے۔ وہ ایک مخصوص بلوچی شال پہنتے تھے جو بلوچی کشیدہ کاری کے رنگ بکھیرتی تھی۔ ایک دن میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کس طرح بنتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ تمام کام باریک سوئی کے ذریعے کیا جاتا ہے، اس کو بنانے میں 2 سے 3 سال لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’جب میں لندن گیا تو میری شال کے بارے میں خواتین پوچھتی تھیں کہ یہ شال مشین پر بنتی ہے؟ میں انہیں جواب دیتا کہ نہیں، یہ تو ہماری خواتین سوئی سے بناتی ہیں، اس پر انہیں یقین نہیں آتا تھا، اور وہ ہاتھ لگا لگاکر دیکھتی تھیں اور بڑی حیران ہوتی تھیں۔‘‘ اتنی خوبصورت اور اتنی قیمتی شال میں نے کسی نواب یا سردار کے پاس نہیں دیکھی۔
نواب اکبر خان بگٹیٖ کی شخصیت ایک لحاظ سے کرشماتی تھی، باہر سے آنے والے صحافی ان سے بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ انہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا، والد نے ابتدائی عمر میں ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ علامہ آئی آئیقاضی اور ایک انگریز خاتون ان کے ٹیوٹر تھے۔ اس لیے وہ اپنے خیالات کا اظہار بڑی روانی سے کرتے تھے۔ غیر ملکی صحافی اُن کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے، اور بلوچی لباس میں انگریزی بولنا انہیں حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ نواب کو محض انگریزی پر ہی عبور نہیں تھا بلکہ ان کا انگریزی شاعری کا مطالعہ بھی خوب تھا اور بلوچی شعراء پر بھی اُن کی نظر تھی۔ جب وہ موڈ میں ہوتے تو مجھے بلوچی کلاسیک شاعری سناتے تھے اور ترجمہ بھی کرتے تھے۔ میں اُن سے سوالات کرتا تو وہ جواب دیتے تھے۔ بعض دفعہ غیر ملکی مہمان اور خاص طور پر ادیب یا صحافی آتے تو نواب مجھے ضرور دعوت دیتے تھے، اس طرح میری معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ بعض دفعہ نواب صاحب اپنے بچپن کے واقعات بڑی دلچسپی سے سناتے تھے۔ پاکستان کے اکثر و بیشتر سیاست دانوں سے اُن کے قریبی تعلقات تھے۔ اُن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے تھے۔ وہ غیر ملکی مہمانوں کے سامنے میرا ہمیشہ تعارف کراتے اور انہیں بتاتے تھے کہ اس کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ حالانکہ اُن دنوں میں جماعت اسلامی کا رکن نہیں تھا۔ بگٹی ہائوس میں پاکستان کے اکثر و بیشتر سیاست دانوں سے ملاقات رہتی تھی، اور اُن سب کے بارے میں نواب صاحب اپنی رائے ضرور دیتے تھے۔
نواب صاحب کے ایک مہمان پر میری نظر ہمیشہ رہتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ یہ کون ہے؟ اس کا قد 6 فٹ سے کچھ اوپر ہوگا۔ وہ بلوچی لباس میں رہتا تھا۔ وہ جب بھی نواب بگٹی کے کمرے میں داخل ہوتا تو زور سے کھڑے کھڑے نواب سے بلوچی میں حال احوال پوچھتا تھا اور نواب سے نہ ہاتھ ملاتا اور نہ ان کے پائوں کو چھوتا۔ اور جب تک وہ بیٹھتا بالکل خاموش رہتا تھا۔ باقی جو بھی نواب صاحب سے ملنے آتا وہ نواب کے پائوں کو چھوتا، اور نواب صاحب کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ بلوچی زبان میں وہ حال احوال بتاتے تھے، اور بلوچی حال بڑا مختصر ہوتا تھا۔ جب نواب صاحب مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے تھے وہ ’’خاموش بگٹی‘‘ بڑے آرام سے سلام کرتا اور محفل سے اُٹھ جاتا تھا۔ ایک دن میں نے نواب سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کا نام خان محمد ہے۔ یہ نواب کا مقدم تھا۔ نواب بگٹی جب ایوب خان کے دورِ حکومت میں جیل میں تھے تو اُن کی غیر حاضری میں تمام قبائلی امور خان محمد بگٹی کے ذمے تھے، اور وہ ان ذمے داریوں کو بڑی خوبی سے ادا کرتا تھا۔ ایک واقعے یا حادثے نے ان دونوں کے درمیان ایسی خلیج حائل کردی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں حالات ایسے بن گئے کہ خان محمد بگٹی کو ڈیرہ بگٹی مع اپنے قبیلے کے چھوڑنا پڑا، اور یہ بے نظیر کا دورِ حکومت تھا تو وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے اس قبیلے پر ہاتھ رکھا اور انہیں اسلحہ فراہم کیا۔ یہ اسلحہ زکوٰۃ کی رقم سے فراہم کیا گیا۔
بے نظیر کے دورِ حکومت میں نواب کو مارنے کا پروگرام بھی بنایا گیا لیکن نواب محفوظ رہے۔ نواب صاحب نے ایک دن بتایا کہ میں اپنے علاقے سے کوئٹہ کی جانب چلا، ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ذہن میں خیال آیا کہ مجھے اپنا راستہ بدل دینا چاہیے، اور میں نے راستہ بدل دیا، بعد میں علم ہوا کہ پہاڑی پر مسلح لوگ میرے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے، اور یہ سب جنرل بابر کا منصوبہ تھا۔ نواب بگٹی کے خلاف بے نظیر کے دور میں اس طرح کے منصوبے جنرل بابر بناتے رہتے تھے۔ نوازشریف نے بے نظیر کو ہٹانے کے لیے منصوبہ بنایا، اُن دنوں نواب صاحب وزیراعلیٰ بلوچستان تھے۔ انہوں نے اس میں نوازشریف کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ نواب بگٹی نوازشریف کے بہت قریب چلے گئے تھے۔ جب صدرِ مملکت نے حکومت توڑ دی اور دوبارہ انتخابات کا مرحلہ شروع ہوا تو نواب بگٹی کی پارٹی نے 14 نشستیں جیت لیں، تب نوازشریف نے ہاتھ کھینچ لیا۔ اُس وقت نواب کی پارٹی بلوچستان اسمبلی میں سنگل اکثریت میں تھی۔ مولانا محمد خان شیرانی جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی صدر تھے، انہوں نے بھی نواب بگٹی سے عدم تعاون کا فیصلہ کرلیا۔ جو حالات اُس وقت بن رہے تھے ان میں نوازشریف سازش کررہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ نواب بگٹی کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ نہیں بننے چاہیے، مولانا فضل الرحمٰن بھی اس کھیل میں نوازشریف کے ساتھ تھے۔ نواب نے نوازشریف کو فون کیا اور کہا کہ مسلم لیگ کو کہیں کہ وہ میری حمایت کرے، آپ مجھے حکومت بنانے کا کہیں تو میں حکومت بنالوں گا۔ سرور خان نے مسلم لیگ میں اپنا گروپ ایک منصوبے کے تحت بنالیا تھا، یوں مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ نوازشریف نے کہا کہ آپ مسلم لیگ سے بات کریں، اگر وہ آپ کی حمایت کرے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ایک دھڑے کی سربراہی سرور خان کاکڑ کررہے تھے۔ ان کی نواب بگٹی کے ساتھ سیاسی چپقلش تھی۔ میں نواب صاحب سے ملا اور اُن سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں رشید بیگ کے ہمراہ سرور خان کاکڑ سے ملوں۔ اور اُن سے کہا کہ سرور خان کاکڑ جو مانگیں آپ اُن کودے دیں گے۔ نواب صاحب نے کہا: ٹھیک ہے آپ دونوں بات کریں۔ سرور خان کاکڑ کو فون کیا اور بتایا کہ کل ہم آپ سے ملنے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا آجائیں۔ ہم دونوں صبح سویرے پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک سینئر صحافی سرور خان کاکڑ کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے رشید بیگ سے کہا کہ ہمارا فون سرکار نے سن لیا اور اس صحافی کو بھیج دیا ہے تاکہ رپورٹ کرے، یہ سرکار کا مخبر ہے۔ ہم دونوں بیٹھ گئے اور انتظار میں تھے کہ یہ اُٹھے تو ہم بات چیت شروع کریں، لیکن وہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا، میں نے پشتو میں آہستہ سے کہا کہ اس کو فارغ کریں، اس پر سرور خان نے جیب میں ہاتھ ڈالا، 500 روپے کا نوٹ نکالا اور اسے دے دیا اور رخصت کا کہا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ خان صاحب میں تو صرف آپ سے ملنے آیا تھا۔ اس نے نوٹ نہیں لیا بلکہ واپس کردیا۔ ہم نے سرورخان سے کہا کہ آپ کو آپ کی پسندیدہ وزارت نواب صاحب دیں گے، آپ اپنے دھڑے کے ساتھ نواب کی حمایت کریں۔ تو انہوں نے کہا کہ شادیزئی صاحب آج وقت میرے ساتھ ہے، یہ وقت کل نواب کے ساتھ تھا، انہوں نے مجھے وزارت سے محروم کیا، آج بازی میرے ہاتھ میں ہے، ہم نواب صاحب کی حمایت بالکل نہیں کریں گے۔ ہم دونوں نے جتنے دلائل ہوسکتے تھے دیے، لیکن انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ وقت آج میرے ساتھ ہے اور نواب کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ ہم دونوں واپس آگئے اور تفصیل نواب صاحب کو بتادی۔ نواب بہت زیادہ پریشان تھے، انہوں نے ہم سے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں وقت دیا ہے ملنے کا، وہ فون پر بات نہیں کرنا چاہتے، میں اسلام آباد جانا چاہتا ہوں۔ نواب صاحب سے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو ہم بھی آپ کے ساتھ جہاز میں اسلام آباد جائیں گے۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اکیلے جائوں گا۔ اس طرح نواب صاحب اسلام آباد چلے گئے۔ واپسی پر اُن سے ملا اور پوچھا کہ کیا بنا؟ نواب صاحب نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں تھے اور انہوں نے جو وقت دیا اُس وقت پر وہ نہیں آئے اور نہ انہوں نے فون کیا، اس طرح مجھے واپس آنا پڑا۔ یوں نوازشریف نے مولانا فضل الرحمٰن سے مل کر اپنا کھیل کھیلا اور بلوچستان میں حکومت بنالی، اس طرح نواب بگٹی حزبِ اختلاف میں دھکیل دیے گئے اور صوبائی وزیراعلیٰ تاج محمد جمالی بن گئے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے جمعیت کی نئی وزارتیں حاصل کرلیں۔ میر تاج محمد جمالی کا دورِ حکومت 8 جولائی1990ء سے لے کر 22مارچ1992 تک تھا، اُس وقت صدر مملکت غلام اسحاق خان تھے اور بلوچستان میں نگران وزیراعلیٰ میر ہمایوں خان مری تھے۔ یہ نواب کے داماد اور نواب خیر بخش خان مری کے بھتیجے تھے۔ جب الیکشن قریب آگئے تو ایک دن نواب نے کہا کہ میر ہمایوں مری نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ میرے علاقے کا دورہ کریں تاکہ لوگ حمایت کے لیے آمادہ ہوں، کتنا کمزور ہے، مجھ سے مدد مانگ رہا ہے! اور سندھ میں دیکھیں جام صادق ہے اور پیپلز پارٹی اس سے پناہ مانگ رہی ہے، جام صادق نے ہی MQM کے بانی کو کہا کہ آپ خطرے میں ہیں، ملک سے چلے جائیں اور وہ چلے گئے، اب وہ شاید اپنی زندگی میں پاکستان نہ آئیں۔
سیاست کا کھیل نواب بگٹی کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ بلوچستان کے حالات بڑی تیزی سے کسی اور طرف جارہے تھے۔ جنرل پرویزمشرف اور نواب کے درمیان سیاسی خلیج حائل ہوگئی تھی اور اس کھیل میں گورنر بلوچستان اویس غنی ملوث تھے۔ اگست کے مہینے میں جناب فصیح اقبال نے کوئٹہ کلب میں اویس غنی کو ایک عشائیہ دیا تھا، میں بھی اس میں شریک تھا۔ اویس غنی نے خیر مقدم کے بعد جس طرح تقریر کی اُس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ بلوچستان میں اب جنرل پرویزمشرف اپنا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں اور سب تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں، وہ نواب بگٹی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ خوف کی ایک سرد لہر بدن میں اُٹھتی ہوئی محسوس ہوئی اور خطرات اور خدشات کا ہجوم ذہن میں اُٹھنے لگا۔ عشائیہ سے اُٹھا تو دل پریشان تھا اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک خونیں کھیل کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ یہ کب شروع ہوگا؟ اس کا اندازہ لگارہا تھا۔ انہی خیالات کے ہجوم میں گھر لوٹ رہا تھا، اور جو ہونے والا تھا اس پر کسی سے بھی گفتگو نہیں کی۔ نواب کو مارنے کا منصوبہ کیسے بنا؟ اس کا ذکر کسی مضمون میں کروں گا، اور شاید اس کی آخری قسط پیش کروں گا۔
(جاری ہے)

عالمگیر آفریدی کو صدمہ، دعاؤں کی درخواست

فرائیڈے اسپیشل کے وقائع نگار برائے پشاور اور جسارت کے کالم نگار عالمگیر آفریدی کے گھر میں گزشتہ دنوں گیس لیکیج دھماکے کے باعث ان کی میٹرک کی طالبہ بیٹی کی شہادت ہوگئی،اس حادثے میں عالمگیر سمیت اہلیہ، والدہ اور بچےشدید زخمی ہوگئے۔ ادارہ دکھ کی اس گھڑی میں اُن کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل، اور جو زخمی ہیں ان کو جلد صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔ قارئین سے بھی دعاوں کی درخواست ہے(ادارہ)۔