فیصل آباد کا گھنٹہ گھر اور صحت عامہ کے مسائل

فیصل آباد بہت پرانا شہر ہے، سو سال سے زائد اس کی تاریخ ہے، یہ جھنگ کا حصہ ہوا کرتا تھا، بعد میں جھنگ الگ کردیا گیا۔ شہر کے وسط میں ایک گھنٹہ گھر ہے جس کے اردگرد آٹھ بازار ہیں، اور ان بازاروں کے نام مقامی آبادیوں اور عمارتوں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ جو بازار جھنگ کی جانب نکلتا ہے اُسے جھنگ بازار، جس کا رخ چنیوٹ کی جانب ہے اسے چنیوٹ بازار، جس کا رخ ڈسٹرکٹ کچہری کی جانب ہے اسے کچہری بازار، جو بازار ریلوے اسٹیشن کی جانب ہے اسے ریل بازار کہتے ہیں، اسی طرح جو بازار جھنگ کی تحصیل بھوانہ کی جانب ہے اسے اسی نسبت سے بھوانہ بازار کہا جاتا ہے۔ ڈہر میں جو صنعتی ایریا ہے اس جانب نکلنے والے بازار کو کارخانہ بازار کہا جاتا ہے، جس بازار کا رخ منٹگمری (ساہیوال) کی جانب ہے اسے منٹگمری بازار کہا جاتا ہے، اور جو بازار امین پور بنگلہ کی جانب جاتا ہے اسے امین پور بازار کہا جاتا ہے۔ پہلے فیصل آباد کا نام لائل پور تھا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کے نام پر اس شہر کا نام فیصل آباد رکھا گیا۔
شہر میں صحتِ عامہ کے حوالے سے تقریب ہوئی جس میں انسدادِ ڈینگی اقدامات کے نتائج کا جائزہ لیا گیا تاکہ ڈینگی لاروا کی افزائش روکنے کے احتیاطی وانسدادی انتظامات کو سو فیصد کامیاب بناکر اس مسئلے کو مکمل طور پر کنٹرول میں رکھاجاسکے۔ ہال چوک کے قریب واسا کے پانی کے تالاب میں ڈینگی لاروا کھانے والی تلاپیہ، گراس کارپ ودیگر اقسام کی مچھلیاں چھوڑ ی گئی ہیں۔ڈپٹی کمشنر محمد علی، سی ای او ڈی ایچ اے ڈاکٹر مشتاق سپرا،ڈی ایچ او ڈاکٹر بلال احمد، ضلعی کوآرڈینیٹر ڈاکٹرذوالقرنین،ڈپٹی ڈائریکٹر فشریز شاہد مقبول، ڈپٹی ڈائریکٹر واسا فرحان علی اور مختلف محکموں کے دیگر افسران اس موقع پر موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر محمد علی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان مچھلیوں کی حیات وافادیت برقرار رکھنے کے لیے باقاعدگی سے مانیٹرنگ کی جائے، ڈینگی لاروا کی افزائش کے سدباب کے لیے شہریوں میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس مسئلے سے بچائو کے لیے کمیونٹی کا تعاون بے حد ضروری ہے۔انہوں نے شہریوں سے کہا کہ گھروں، مارکیٹوں اور اپنے اردگردکے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور کسی جگہ پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔انہوں نے کہا کہ ڈینگی وائرس سے بچنے کا احساس زندہ رہنا چاہیے، اس سلسلے میں محکمہ صحت سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے احتیاطی وانسدادی تدابیر پر ذمہ دارانہ عمل درآمد ہونا چاہیے، گزشتہ سال ایک لاکھ 10 ہزار مچھلیاں تالابوں میں چھوڑی گئی تھیں اور اِس سال سوا لاکھ کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر مشتاق سپرانے بتایا کہ ڈینگی لاروا کو ختم کرنے کے لیے صاف پانی میں کیمیکل نہیں ڈالا جاسکتا، لہٰذا بائیولوجیکل طریقے کے تحت تلاپیہ مچھلیاں لاروا کو کھا جاتی ہیں۔ تالابوں میں ڈینگی لاروا کوکھانے والی مچھلیاں چھوڑنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔