پچھلے ہفتے بہن فائزہ صدیقی کی زبانی یہ خبر سن کر سکتے میں آگیا کہ سعدیہ روشن اور ان کے شوہر روشن صاحب کورونا کا شکار ہوکر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ سعدیہ صدیقی سے میری قرابت داری بھی تھی۔ وہ بعد میں روشن صاحب سے شادی کے بعد سعدیہ روشن صدیقی ہوگئی تھیں جو چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھے، اور ان کی ملازمت ابوظہبی میں ہوگئی تھی۔ چنانچہ سعدیہ کو بھی ان کے ساتھ وہاں رہائش اختیار کرنی پڑی۔ اپنے پہلے شعری مجموعے ’’روشنی ہماری ہے‘‘ میں اس کا اظہار یوں کرتی ہیں:۔
یہ سکون و آسائش اجنبی دیاروں میں
اپنے ملک میں پاتے کاش، ہم وہیں رہتے
ظاہر ہے اپنے ماحول، سگے رشتوں، عزیزوں، دوستوں، زبان اور ثقافت سے دوری کی ایک قیمت ہوتی ہے جو انسان وطن سے دور رہ کر چکاتا ہے۔ سعدیہ صاحبہ کا طالب علمی کا دور انتہائی تابناک تھا، اسکول سے کالج اور یونیورسٹی تک وہ ہمیشہ اوّل درجوں میں اوّل آنے والے طلبہ و طالبات میں شامل رہیں۔ یونیورسٹی میں ایم اے سیاسیات میں بھی وہ اول بدرجہ اول رہیں اور پوری جامعہ کراچی میں سب سے زیادہ نمبر لے کر ہمیشہ اول رہنے کی اپنی روایت قائم رکھی۔ سعدیہ اپنے تعلیمی نصابی دور میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی انتہائی ممتاز مقام رکھتی تھیں۔ وہ بہترین شاعرہ، مقرر اور لکھاری تھیں۔ ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد وہ جامعہ کراچی میں ہی تدریسی شعبے سے منسلک ہوگئی تھیں اور 1968ء تا 1978 ء وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتی رہیں۔
خاکسار نے جب آئی بی اے (IBA) کراچی سے ایم بی اے (MBA) کیا تو سب سے پہلے سعدیہ صدیقی اپنی والدہ خالہ رضیہ کے ہمراہ مٹھائی لے کر مبارکباد دینے ہمارے گھر آئی تھیں۔ انہوں نے شعر و ادب اور تقریری مقابلوں (Debate) میں بہت کارنامے انجام دیے۔ ظہورالحسن بھوپالی کے ساتھ ان کی ٹیم نے کتنے ہی بین الکلیاتی مباحثوں میں پہلی پوزیشن اور گولڈ میڈل جیتے۔ کُل پاکستان بین الکلیاتی طرحی مشاعرے میں انہوں نے جس کا مصرع طرح ’’نسیم صبح گر کانٹوں میں در آئی تو کیا ہوگا‘‘ کی زمین میں بہترین اشعار کہہ کر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ مصرع طرح پر انہوں نے اس طرح شعر مکمل کیا تھا اور غزل کہی تھی:۔
نسیم صبح گر کانٹوں میں در آئی تو کیا ہو گا؟۔
گلوں کی آنکھ گر ایسے میں بھر آئی تو کیا ہو گا؟۔
کسی سے کچھ نہیں کہتے کسی سے کچھ نہیں سنتے
کوئی ایسی کوئی ویسی خبر آئی تو کیا ہو گا؟۔
چند سال قبل وہ ابوظہبی میں شدید بیمار ہوگئیں اور کراچی منتقل ہوگئیں، کیونکہ وہاں اس بیماری کا علاج ان کے شوہر کی استطاعت سے کہیں زیادہ مہنگا تھا۔ مجھے علم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ کئی سال سے کراچی میں زیرعلاج تھیں۔ ان کے تین شعری مجموعے چھپ چکے تھے۔ پہلا شعری مجموعہ ’’روشنی ہماری ہے‘‘ 1993ء میں لاہور سے الحمد پبلی کیشنز نے شائع کیا تھا، جس کا انتساب سعدیہ نے اپنے بچوں عمر، صدیق اور بیٹی آمنہ کے نام کیا تھا۔ ان کے بڑے لڑکے عمر ابوظہبی میں، صدیق کینیڈا میں اور بیٹی آسٹریلیا میں مقیم ہے۔
سعدیہ کی شاعری کے بارے میں جناب احمد ندیم قاسمی شعری مجموعے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’سعدیہ اگر جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوکر اور کئی سال جامعہ میں سیاسیات کی معلمی کے بعد متحدہ عرب امارات کا رخ نہ کرلیتیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کا اسلوب اظہار ان کے موجودہ رنگِ سخن سے بہت مختلف ہوتا اور مثبت طور پر مختلف ہوتا۔‘‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’’سعدیہ کا کلام اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر مشرقی خاتون ہیں اور اپنے گھر آنگن کے ساتھ شدت سے وابستہ ہیں اور انہیں رشتوں کا گہرا شعور ہے۔ ماں، باپ، بھائی، بیٹا، بہن ان کے کئی اشعار کا دل پذیر موضوع ہیں‘‘۔
سعدیہ نے غزلوں اور نظموں میں عام طور پر گہرے اور گمبھیر مسائل کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ اپنی منفرد سوچ کے سبب وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک مختلف اسلوب میں عمدہ اور پختہ اشعار کہہ جاتی ہیں۔ مثلاً
کیوں بھٹکتی صحرا میں گھر میں ایک خرابہ تھا
سورج جو بجھا ہو گئی بینائی بھی رخصت
بے یقینی کے اس دور میں سعدیہؔ
زندہ رہنا بھی ہے معجزوں کی طرح
ان کی نظمیں بھی بہت خوبصورت ہیں۔ ایک نظم ’’دانش وری‘‘ ’’تو کیا دانش وری سورج مکھی کا پھول ہوئی ہے‘‘ خوب ہے۔ دوسری نظموں میں سمندر، الحمدللہ، تحدیثِ نعمت، پریشانی، آسان طریقہ، جنریشن گیپ، مختلف چیزیں اور ہم تین متاثر کن ہیں۔
جمیل الدین عالی سعدیہ کے دوسرے شعری مجموعے کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’برسوں باہر رہنے اور ابتدائی درس و نصاب میں کلاسیکی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور ہونے والوں میں ایک بات کسی نہ کسی درجے میں مشترک دیکھی۔ سعدیہ روشن بھی اس سے متصف ہیں۔ وہ ہے بعض اوقات شاعری میں پُرمعانی الفاظ کا غیرمحتاط استعمال، خواہ گاہ گاہ ہوتا ہو، جب نظر آتا ہے اظہاریات میں سادگی پسند ذہن کو جھٹکا سا لگتا ہے۔ اس مجموعے کی ایک غزل میں قافیے آئے ہیں اختلاف، اغراف، ٹھیک ٹھاک۔ خاصے اچھے شعر بھی نکالے ہیں ’’اتنی دیر ہونے پر انکشاف کیا کرتے‘‘ مثلاً ایک دم قافیہ التحاف بھی سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ نہیں سعدیہ! یہ ناگزیر تو نہ تھا! لیکن جیسا کہ عرض کیا یہ جرمِ علمیت ان سے کم کم سرزد ہوتا ہے۔
سعدیہ اکثر بیک وقت انسانی رشتوں کے احترام، محبت، ہمدردی، جمالیاتی زبان اور فکری تقاضوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ سمولیتی ہیں۔ ان کا سہلِ ممتنع واقعی سہل ممتنع ہے۔ ساتھ ہی خاص طور سے اس مرتبہ، میں نے محسوس کیا کہ وہ تحت الشعوری طور پر سائنسی علم و فکر (آہ یہ کلیثے اصطلاح) کا اظہار بھی کرنے لگی ہیں، ذرا وہ غزل دیکھیے گا ’’آپ کی حیرانی خامشی سکھاتی ہے‘‘۔
مجموعے میں قومی شاعری بھی شامل ہے۔ یوں ہر اچھی شاعری کو ایک لحاظ سے قومی شاعری کہہ سکتے ہیں کہ اعلیٰ فکر و جمال کا آمیزہ کسی بھی قوم کے لیے باعثِ فخر و انبساط ہوتا ہے اور اس کے زمینی ارتقا میں معاون۔ لیکن راست قومی شاعری بھی جس کی بنیاد حالی و اقبال نے رکھی، ایک مستحسن کارِ ادب ہے، اور اس میں سعدیہ نے پورے خلوص اور خاصی مہارت کے ساتھ حصہ لیا ہے۔ وہ تو ماشاء اللہ یہاں تک کہتی ہیں کہ
یہ وطن کی زمیں یہ مرا آسمان
میری چادر ہے میرا مکاں ہے یہی
زندگی کا مری اک نشاں ہے یہی
میری ناموس میرا جہاں ہے یہی‘‘
مشہور ادبی محقق ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے ان کے دوسرے شعری مجموعے ’’افق‘‘ کے اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’سعدیہ صدیقی اپنے نئے مجموعہ کلام میں نقش اول کی شعری حسیت کے مقابلے میں زیادہ پُرمایہ ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے زندگی کی نرم و شاداب، سخت اور روح فرسا حقیقتوں کا یکساں خلوصِ نیت سے مطالعہ کیا ہے، وہ درایت کے مقابلے میں روایت کی زیادہ قائل نظر آتی ہیںُ شاید ہر اچھا تخلیق کار روایت کے سرچشمے سے فیض اٹھا کر ہی درایت کی طرف سفر کرسکتا ہے۔ ماضی حال میں اور حال مستقبل میں موجود ہے اور جن فنکاروں میں زمانۂ ماضی سے گہری وابستگی کا احساس مفقود ہوجاتا ہے وہ زمانہ حال کے تقاضوں پر پورا نہیں اترسکتے۔
سعدیہ صدیقی ایک عرصے سے شعر کہہ رہی ہیں اور اب ان کے یہاں گداز و تخلیلی رچائو پیدا ہوچلا ہے جس کے بغیر اچھی شاعری تو ایک طرف رہی، شاعرانہ انداز میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
میرے خیال میں سعدیہ صدیقی اپنے دوسرے مجموعہ کلام میں بہ حیثیت ایک تخلیقی فنکار زیادہ بھرپور انداز میں سامنے آتی ہیں، یعنی وہ امتدادِ زمانہ کے ساتھ خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں ہیں، شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خوب کی طرف سفر بذاتِ خود وہ انعام ہے جو شاعری کی دیوی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ سعدیہ صدیقی اسی انعام کی مستحق ہیں‘‘۔
شکیل عادل زادہ نے سعدیہ روشن صدیقی کے کلام کے بارے میں کہا تھا: ’’میں سعدیہ روشن صدیقی کی خاندانی فصیلوں سے بخوبی واقف ہوں۔ ان فصیلوں کے اندر سے باہر کی جانب، اور باہر سے اندر کی جانب کسی طرح کی کوئی بھی نقب لگانا آسان بات نہیں۔ سعدیہ نے جس پختہ لہجے اور بلند آہنگی سے شعر کہنا شروع کیے اس کے آگے یہ پختہ فصیل اپنی توانائی برقرار نہ رکھ سکی اور بہت جلد سعدیہ کے دل نشیں، سحر انگیز اور پُراثر کلام نے نہ صرف ابوظہبی اور کراچی بلکہ پورے خلیج اور پورے پاکستان میں اپنی اہمیت منوالی۔ سعدیہ جیسی سگھڑ اور ایثار زدہ خاتون نظر آتی ہیں یہ سب ان کے اندر کی شاعرہ کا کمال ہے جو ان کے ہر رویّے اور ہر عمل میں نمایاں ہوکر اپنا آپ منوا رہا ہے‘‘۔
ناصر زیدی نے مختصر الفاظ میں یہ کہا تھا: ’’اس امر سے تو میں بے خبر ہوں کہ سعدیہ روشن صدیقی نے کس بلند قامت استاد کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا، مگر میں ان کے شعر کی پختگی، مشاہدے کی گہرائی اور موضوعات کے انتخاب اور ان کے اظہار میں سلیقگی کا دل سے قائل ہوں‘‘۔
انیق احمد رقم طراز تھے: ’’میرے نزدیک سعدیہ روشن صدیقی کی سب سے بڑی خوبی سادگی میں پرکاری ہے۔ انہوں نے تھوڑا لکھا مگر خوب لکھا۔ ابوظہبی میں بیٹھ کر کراچی اور پورے پاکستان کے درد و غم پر کڑھنے والی سعدیہ روشن اپنے اسلوب کی خود موجد اور خود نمائندہ ہیں۔ انہوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر کبھی کسی شاعر کے لہجے کو اپنانے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کی شاعرات میں ایک مدت تک خاموشی اور خلاء کے بعد سعدیہ روشن صدیقی کا نمایاں ہونا اور اپنی انفرادیت منوانا ان کے مستقبل کی تابناکی کی دلیل ہے‘‘۔
سعدیہ روشن کے تیسرے اور آخری شعری مجموعے میں ایک حمد باری تعالیٰ، دو نعتیں، تریسٹھ غزلیں اور سترہ نظمیں ہیں۔ ان کے اس شعری مجموعے کے اشعار کا اسلوب اور نکھر گیا ہے اور انہوں نے چھوٹی چھوٹی بحروں اور سہلِ ممتنع میں خوبصورت اشعار سے شعری ادب کے دامن کو مزید مالا مال کیا ہے۔ سعدیہ نے انتہائی رواں بحروں میں خوبصورت رنگ بھرے ہیں۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کو بڑی خوبصورتی سے شعروں کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کی نظموں میں موئن جو دڑو، العطش، ٹوکن ویلیا، My Lord، فلائنگ وزٹ، شکریہ، آخرکار تاثراتی نظمیں ہیں، دوسرے شعری مجموعے ’’افق‘‘ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، صلاح الدین شہید بھی اچھی اور حساس نظمیں ہیں۔
منتخب کلام
نہ جانے اس کے دل میں محفلیں آباد ہوں کتنی
اکیلا جو بھی بیٹھا ہو اسے تنہا نہیں کہتے
………
اپنی فطرت نہیں ضرورت ہے
جبر کے اختیار میں رہنا!
………
اس کے لہجے کی سنگ باری سے
مثل آئینہ چور چور ہوئی
………
یوں نبھائے ہم نے رشتے ختم خود کو کر لیا
بادلِ ناخواستہ ہر بوجھ کو ڈھوتے رہے
………
فصل جب کٹنے لگی تو ماجرا ہم پر کھلا
ہم نے کیا امید رکھی اور کیا بوتے رہے
………
قضا کے ہاتھ نے اس مملکت میں
کیا ہے کیا قلم زد سن رہے ہو
………
سب پڑوسی مرے اجنبی ہو گئے
غم گساری کا بھی قاعدہ اٹھ گیا
………
نئی صدی ہے مرے لاڈلوں کا مستقبل
یہی تو بات مرا حوصلہ بڑھاتی ہے
………
یہ گلی کوچے محلے راستے
اجنبی چہروں سے ہیں پَٹنے لگے
………
جب مرے ساتھ ساتھ چلتے ہو
وقت وہ سازگار ہوتا ہے
………
سب اپنے مسائل میں گرفتار و پریشان
ہر فرد کے اب اپنے مفادات الگ ہیں
………
سنی سنائی بات نہیں ہے اپنی بیتی کہتے ہیں
جینا مرنا دونوں مشکل یہ بھی ہم نے جان لیا
اِس دنیا سے اُس دنیا تک ایک سفر جو کرنا ہے
تیاری ہے کتنی اس کی، ساتھ میں کیا سامان لیا
درد پرانے سوجاتے ہیں ہم نے وقت گزاری کو
نئے دکھوں کی فصل اگائی ایک نیا خلجان لیا
………
پروردہ میری مٹی کے
غیروں کے نگر میں رہتے ہیں
………
غم کی تہذیب پھولتے پھلتے
کیسی شائستگی سکھاوے ہے
………
وہی بنے گا امن کا ضامن
جس کا سب کچھ کیا دھرا ہے
………
اثر ہوتا ہے مظلوں کی آہوں اور کراہوں میں
دعائوں التجائوں کا رسا ہونا یقینی تھا