سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں

مصنف : شاہنواز فاروقی
صفحات : 223 قیمت400 روپے
ناشر : ادارہ مطبوعات طلبہ لاہور
-1 اے، ذیلدار پارک، اچھرہ لاہور
فون : 042-37428307
شاپ آن لائن : www.imtbooks.com
واٹس ایپ : 0335-4014015

غلامی بدبختی ہے، غلامی کا احساس نہ ہونا بڑی بدبختی ہے، اور اسے رب کی رحمت باورکرنا سب سے بڑی بدبختی ہے۔ یہ بدبختیاں جہاں جمع ہوجائیں، فکرِ سرسید وجود میںآتی ہے۔ اس فکر کے برصغیر کی مسلمان نسلوں پرتباہ کُن اثرات پڑے ہیں۔ سرسید احمد خان کی ہمہ جہت جہالت کا احاطہ چھوٹے موٹے تبصرے میں محال ہے۔ محترم دانشور مربی شاہنواز فاروقی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، اور بہ حُسن و خوبی اسے نبھایا ہے۔ ’’سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس میں سرسید کا بُت پاش پاش کردیا گیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سرسید کا پورا بُت خانہ پاش پاش کردیا گیا ہے، اور ہتھوڑا سرسید کے سب سے بڑے بُت کے ہاتھوں میں ہی تھمادیا گیا ہے۔ یہ کتاب نسل درنسل غلامی پر گزرنے والا وہ وضاحتی لمحہ ہے کہ جس کا منتظر اک زمانہ تھا، کہ جس کی تکرار وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ یہ ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اگر فکرِ سرسید کی فتنہ انگیزی کا جائزہ لیا جائے تو کئی بڑے تنقیدی کام وجود میں آجائیں۔ سرسیدکی ذُریت آج بھی برصغیرکے مسلمانوں کا ایک مقتدر حصہ ہے۔ یہ ذُریت آج بھی کمپنی کی حکومت چلارہی ہے۔ پاکستان، ہندوستان کی بیوروکریسی، تعلیمی شعبے، عسکری شعبے، ادب اور سیاست میں آج بھی سرسید کی ایسٹ انڈیا کمپنی موجود ہے، جس نے غلامی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
یہ کتاب، سرسید پر شاہنواز فاروقی صاحب کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ یہ کالم سرسید کی ہمہ جہت جہالت پر ہر رخ سے ضرب لگاتے ہیں۔ عام حالات کے برخلاف یہاں سرسید کے اقتباسات کی تکرار اور اُن پر تنقید کی شدت برمحل اور ضروری محسوس ہوتی ہے۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ اقتباسات تعلیمی اداروں میں اور طلبہ وطالبات کے درمیان مسلسل گردش میں رہیں۔
چند اہم اقتباسات اس کتاب سے یہاں شامل کیے جاتے ہیں۔
سرسید کہتے ہیں:۔
’’وہ زمانہ جس میں انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی، ایک ایسا زمانہ تھا کہ بے چاری انڈیا بیوہ ہوچکی تھی۔ اس کو ایک شوہر کی ضرورت تھی۔ اس نے خود انگلش نیشن کو اپنا شوہر بنانا پسند کیا۔ انگلش نیشن ہمارے مفتوحہ ملک میں آئی مگر مثل ایک دوست کے، نہ کہ بطور ایک دشمن کے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ238)۔
’’خدا کی مرضی ہوئی کہ ہندوستان ایک دانش مند قوم کی حکومت میں دیا جائے، جس کا طرزِ حکومت زیادہ تر قانونِ عقلی کا پابند ہو۔ بے شک اس میں بڑی حکمت خدا تعالیٰ کی تھی‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ239)۔
’’ہم کو جو کچھ اپنی بھلائی کی توقع ہے وہ انگریزوں سے ہے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ241)۔
’’خدا کا شکر ہے کہ ہم ملکہ معظمہ کوئن وکٹوریہ قیصرِ ہند کے زیرسایہ ہیں‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ241)۔
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کی اطاعت اور فرماں برداری اور پوری وفاداری اور نمک حلالی، جس کے سایۂ عاطفت میں ہم امن وامان سے زندگی بسر کرتے ہیں، خدا کی طرف سے ہمارا فرض ہے۔ میری یہ رائے آج کی نہیں بلکہ پچاس ساٹھ برس سے اسی رائے پر قائم ہوں‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ242)۔
اب ظاہر ہے ان افکار ِسرسید پراس کے سواکیا کہاجاسکتا ہے کہ جوشاہنواز فاروقی نے ’’سرسید اور مشرق و مغرب کے درمیان مکالمہ‘‘ کے عنوان تلے کہا: ۔
’’سوال یہ ہے کہ ان تحریروں میں سرسید کیسے انسان نظر آ رہے ہیں؟ ایک آزاد اور صاحبِ عزت انسان، یا ایک ایسے انسان جو انگریزوں کی غلامی کو صرف سیاسی اور عسکری سطح پر ہی نہیں… ذہنی، نفسیاتی، تہذیبی بلکہ مذہبی سطح پر بھی قبول کر چکا ہے۔ اسی لیے سرسید کو انگریزوں کی غلامی ’’خدا کی مرضی‘‘ اور ’’خدا کی رحمت‘‘ نظر آرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا شخص مشرق و مغرب کے درمیان کیسے اور کیوں مکالمہ کرائے گا؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جس شخص کو مغرب پہلے ہی اپنے قدموں میں پڑا ہوا پاتا ہو اُس شخص یا اُس کی تہذیب سے مغرب کس لیے مکالمے کی زحمت کرے گا؟ مغرب اگر سرسید کے زمانے میں مشرق سے مکالمہ کرتا بھی تو اُن لوگوں سے کرتا جو اس کی مزاحمت کررہے تھے۔ جو شخص مغرب کی غلامی کھا رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی پی رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی بچھا رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی اوڑھ رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی کو خدا کی مرضی اور اس کی رحمت کہہ رہا ہو اُس سے عقلی طور پر بھی مغرب کو مکالمے کی ضرورت نہیں ہوسکتی تھی۔‘‘
’’سرسید اور تضاد‘‘ میں شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں: ۔
’’سرسید اگر ہمارے زمانے میں ہوتے اور انتخابات میں حصہ لیتے تو ان کا انتخابی نشان تضاد ہوتا۔ کسی ایک انتخاب میں نہیں، ہر انتخاب میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید تضاد کے بغیر لقمہ بھی نہیں توڑتے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سرسید تضاد کھاتے ہیں، تضاد پیتے ہیں، تضاد اوڑھتے ہیں، تضاد بچھاتے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر ہم سرسید کو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا Mr Contra diction کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ انسانی تاریخ کے ہر اہم مفکر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری زندگی کی تشریح و تعبیر ’’اصولِ واحد‘‘ سے کرکے دکھا دے، تا کہ اس کی فکر میں تضاد نہ پیدا ہو۔ تضاد انسانی فکر کا نقص ہے، عیب ہے۔ مثلاً تمام مذہبی مفکرین پوری زندگی کو اصولِ توحید کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ کارل مارکس نے معاشیات کے ذریعے پوری زندگی کی تشریح و تعبیر مہیا کی۔ فرائیڈ نے جنس کو زندگی کا محوری اصول بنایا اور اس کے ذریعے زندگی کا مفہوم متعین کیا۔ سرسید کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصولِ واحد کے ذریعے زندگی کی تشریح و تعبیر نہیں کرپاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی مرکزی حوالہ ہی نہیں ہے۔ انہیں مذہب کی ’’عادت‘‘ کو ترک کرنے سے خوف آتا ہے۔ دوسری جانب وہ مغربی فکر کے مجنوں ہیں، اور مغربی فکر اس مجنوں کی لیلیٰ ہے۔ بعض لوگوں کی ذہنی صلاحیت اور علم غیر معمولی ہوتا ہے اور وہ ان دونوں کی قوت سے دو متضاد اصولوں کے امتزاج کا ’’تاثر‘‘ پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ مگر سرسید کی ذہانت اور علم اتنے بڑے نہیں ہیں کہ وہ یہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دے سکیں۔ وِٹ مین کا ایک مشہورِ زمانہ فقرہ ہے:
I Contradict Myself Because I am large, I contain multitudes.
ترجمہ:۔ میں اپنی تردید کرتا ہوں کیوں کہ میں وسیع اور ہمہ جہت ہوں۔
وٹ مین نے اس فقرے کے ذریعے اپنے تضادات میں عظمت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر بیچارے سرسید یہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ نہ وہ وسیع ہیں، نہ ہمہ جہت ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اگر سرسید دس بائی بارہ کے کمرے میں بھی کھڑے ہوں تو تضاد ان کے ساتھ ہوگا۔‘‘
اب اس تنقید پرکیا اضافہ کیا جاسکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ یہ کتاب ’’ سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں‘‘ ہراُس طالب علم، استاد، استانی، معلم، مولانا، شاگرد اور محقق کی نظر سے گزرنی چاہیے جس پر فکر سرسید کے تباہ کُن سائے کسی نہ کسی طور پڑے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سب پر ہی یہ اثرات پڑے ہیں۔ یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ جس جس نظر سے یہ کتاب گزرے گی اور جس جس ذہن پر دستک دے گی، فکرِ سرسید کے زہرناک اثرات زائل کردے گی، اور غلامی کی ہولناک ترین صورت بالکل واضح ہوجائے گی۔
اس کتاب میں 27 اہم موضوعات منتخب کرکے شامل کیے گئے ہیں، یہ فکرِ سرسید کا خوبی سے احاطہ کرتے ہیں، برصغیر میں ’’مسلمان المیہ‘‘ کی وجوہات واضح کرتے ہیں، اور ان وجوہات میں سرسید اور اُن کی ذریت کا کردار سامنے لے آتے ہیں۔ شاہنواز فاروقی نے لکھا ہے کہ اگر سرسید محض ایک آدمی ہوتے توکتاب لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن سرسید کی فکر کا مسلم معاشرے پر اثر ہے، اور اس حقیقت کی روشنی میں اُن کی فکر کی اصل کو سامنے لانا بہت ضروری تھا۔ بلاشبہ سرسید کا مسلم معاشرے پر اثر ایسی ’’زہرناکی‘‘ ہے کہ جسے کتاب ’’سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں‘‘ جیسے ’’تریاق‘‘ کی ضرورت تھی۔