عوامی صحت اور وبائی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امیر ملکوں نے کورونا ویکسین پر اپنی اجارہ داری ختم نہ کی تو کووِڈ 19 کی وبا آئندہ 7 سال تک ساری دنیا پر مسلط رہ سکتی ہے۔
تاہم اس صورتِ حال کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 75 فیصد خوراکیں صرف 10 امیر ممالک میں دی گئی ہیں، جبکہ کئی غریب ممالک ابھی تک کورونا ویکسین سے مکمل محروم ہیں، جن کی مجموعی آبادی 2.5 ارب (ڈھائی ارب) کے لگ بھگ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بیشتر امیر ممالک نہ صرف اپنی ضرورت سے زائد کورونا ویکسین خرید چکے ہیں بلکہ اپنے یہاں ویکسین بنانے والے اداروں کو پابند کرچکے ہیں کہ وہ حکومتی اجازت کے بغیر کووِڈ 19 ویکسین کسی بھی دوسرے ملک کو فروخت نہیں کریں گے۔ مثلاً امریکی محکمہ صحت و انسانی خدمات (این ایچ ایس) اور فائزر/ بایو این ٹیک میں طے پانے والا معاہدہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس سے صرف امریکہ اور فائزر کو فائدہ پہنچے، کسی اور کو نہیں۔ علاوہ ازیں یورپ میں کورونا ویکسین کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیشِ نظر اٹلی نے بھی آسٹریلیا کے لیے کورونا ویکسین کی برآمد روک دی ہے۔ ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ یہ رجحان جسے ’’ویکسین کساد بازاری‘‘ (ویکسین ہورڈنگ) اور ’’ویکسین قوم پرستی‘‘ (ویکسین نیشنلزم) بھی کہا جارہا ہے، کورونا وائرس کی عالمی وبا کو مزید خطرناک اور طویل بنا سکتا ہے۔
ہفت روزہ تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ میں شائع شدہ ایک حالیہ مضمون میں عوامی صحت کے امریکی ماہر گیون یامی نے خبردار کیا ہے کہ اگر کووِڈ 19 ویکسین کی عالمی تقسیم میں ناانصافی اور تعصب کا یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ وبا اگلے 7 سال تک دنیا پر مسلط رہے گی۔ دیگر ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ امیر ممالک کے تمام لوگوں میں کورونا ویکسین لگنے کے باوجود بھی یہ وبا دنیا کی اکثریتی آبادی کو متاثر کررہی ہوگی جس کا خمیازہ ان امیر ممالک کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس میں خود کو تیزی سے تبدیل کرنے کی زبردست صلاحیت ہے۔ اگر اس نئے وائرس کے پھیلاؤ کی صلاحیت اور ہلاکت خیزی بھی زیادہ ہوئی تو ہمارا سامنا کسی نئی عالمی وبا سے ہوسکتا ہے جو شاید موجودہ (کووِڈ 19) عالمی وبا سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو۔ آسان الفاظ میں ماہرین کی اس رائے کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر ملکوں نے خودغرضی کا مظاہرہ جاری رکھا تو نہ صرف کورونا وائرس کی موجودہ عالمی وبا مزید 7 سال تک جاری رہے گی بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ وبا ختم ہونے سے پہلے ہی کوئی اور عالمی وبا شروع ہوجائے۔
ڈیسک ٹاپ سے واٹس ایپ آڈیو اور ویڈیو کال
واٹس ایپ نے ڈیسک ٹاپ کے لیے آڈیو اور ویڈیو کال کی سہولت پیش کردی ہے۔ چار ماہ قبل دسمبر میں واٹس ایپ کے بی ٹا ورژن میں اس کی آزمائش کی گئی تھی۔ اب یہ سہولت بتدریج پوری دنیا کے لیے پیش کردی گئی ہے۔ اس طرح لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ سے ویڈیو اور آڈیو کال کی جاسکتی ہے، جس کے لیے فون کی ایپ کو جاری رکھنا ہوگا اور ویب ورژن سے ڈیسک ٹاپ استعمال کیا جاسکے گا۔ یہ سہولت میک اور ونڈوز دونوں کے لیے موجود ہے۔ تاہم ایک وقت میں ایک فرد کو ہی آڈیو یا ویڈیو کال کی جاسکتی ہے۔ واٹس ایپ کے مطابق گروپ ویڈیو یا آڈیو کال کا آپشن فی الحال پیش نہیں کیا گیا ہے لیکن جلد ہی یہ سہولت بھی پیش کردی جائے گی۔
اسمارٹ فون دنیا بھر کی نیند برباد کررہے ہیں
فرنٹیئرز ان سائیکاٹری میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کنگز کالج لندن کے 1043 طلبہ و طالبات کا سروے شائع ہوا ہے۔ اس میں آن لائن اور شخصی طور پراسمارٹ فون استعمال کرنے کی عادات اور نیند کے معیار پر بات کی گئی تھی۔ دس سوالات سے ایک معیار اخذ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ طالب علم اسمارٹ فون کے کتنے عادی ہیں۔ اس پیمانے پر 40 فیصد افراد اسمارٹ فون کی شدید لت میں مبتلا پائے گئے۔ یہ اعداد و شمار پہلے کے مشاہدات کے عین مطابق بھی تھے۔ ان میں سے کئی افراد نے کہا کہ وہ رات ایک بجے کے بعد تک اسمارٹ فون استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے بے خوابی کا خطرہ تین گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ جن جن طلبہ و طالبات نے اسمارٹ فون رات دیر تک استعمال کرنے کا اعتراف کیا اُن میں نیند کا مسئلہ سب سے شدید دیکھا گیا۔ ان کی نیند کا دورانیہ بہت خراب تھا۔ وہ نیند کم لیتے تھے اور دن بھر تھکاوٹ کی شکایت بھی کرتے رہے۔ اس تحقیق پر جان ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر وسیوولوڈ پولوسکی کہتے ہیں کہ بستر پر جانے سے ایک گھنٹہ قبل لیپ ٹاپ، فون اور ٹیبلٹ وغیرہ بند کردیجیے۔ انہیں کسی بھی حالت میں بستر پر نہ لے جائیں۔ ڈاکٹر پولوسکی کے مطابق فون کی ایل ای ڈی روشنی جسم میں میلاٹونن کی مقدار کم کرتی ہے۔ یہ ہارمون ہمیں سلانے کا اہم کام کرتا ہے۔ اگر”نیند کا یہ ہارمون“ اچھی مقدار میں بنے گا تو پُرسکون نیند کا حامل ہوگا۔
دوسری جانب ماہرین نے اسمارٹ فون کی لت کو سگریٹ نوشی سے بھی خوفناک قرار دیا ہے۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ اسمارٹ فون کے استعمال کو ایک وبا کا درجہ دیا جائے جو دنیا بھر میں نوجوانوں کی نیند اور صحت برباد کررہا ہے۔ ڈاکٹروں نے اسمارٹ فون کے استعمال کو ایک طبی عارضہ کہا ہے جو بہت خطرناک ہوسکتا ہے اور اسے نوموفوبیا کا نام دیا گیا ہے۔