قائداعظمؒ اور 11 اگست کی تقریر

اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے میں اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتا ہوں جو قائداعظم کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی جو انہوں نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی مجلس دستور ساز میں کی تھی، اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:۔
اول یہ کہ قائداعظم نے اس تقریر میں ایک ایسی ’’پاکستانی قومیت‘‘ کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا ہے جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیر مذہبی نوعیت کا یعنی سیکولر طرز کا ہوگا۔
سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے یا اس کے دستور ساز اب ان کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطور نتیجہ نکالے جاتے ہیں صحیح نہیں ہیں، اور اپنی اس رائے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:۔
۔(الف) قائداعظم کی اس تقریر کے الفاظ خواہ بظاہر پہلے اور دوسرے مفہوم کے حامل ہوں مگر ہمارے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ان کا منشا بھی حقیقت میں وہی تھا، جو ان کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے، اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوں کو بنیاد بناکر لڑتے رہے تھے، ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوں گے، اور ان ہی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوں گے جن کے خلاف انہوں نے اپنی ساری قوم کو ساتھ لے کر جنگ کی تھی۔ نیز ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ قیام پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے اُن تمام وعدوں سے پھر گئے ہوں گے جو انہوں نے بار بار صاف اور صریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے اور جن کے اعتماد ہی پر قوم ان کو اپنا لیڈر مان کر اپنی جان و مال ان کے اشاروں پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔ پھر ہمارے لیے یہ ماننا بھی ممکن نہیں ہے کہ قائداعظم ایسی متضاد باتیں کرسکتے تھے کہ 11 اگست کو ایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بار بار اس کے خلاف باتوں کا مسلسل پبلک کو یقین دلاتے رہیں، اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورہ بالا تقریر کو، ان کے اگلے اور پچھلے ارشادات کو سمجھنا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کا کوئی بھی مفہوم لیں جو ان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتا ہے جو انہوں نے اس سے پہلے فرمائیں اور اس کے بعد بھی فرماتے رہے۔
۔(ب) سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی کانگریس سے لڑائی تھی ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر۔ 10 اگست 1947ء تک ان کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیر مسلموں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ وطنی قومیت نہیں کرسکتے۔ اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں سے صرف ایک تحریر کا ’’اقتباس‘‘ میں یہاں نقل کروں گا جو 1944ء میں گاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میں لکھی تھی۔
قائداعظم اور خان لیاقت علی خان کی تحریروں، تقریروں سے اقتباسات اور عدالت میں پیش کردہ بیان انگریزی میں تھے، یہاں اشاعت کی سہولت کے لیے ان کا ترجمہ کیا گیا ہے:۔
’’ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں جو ’’قوم‘‘ کی ہر تعریف اور معیار پر پوری اترتی ہیں۔ ہم دس کروڑ کی ایک قوم ہیں، مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فنِ تعمیر، احساسِ اقتدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط ، رسم و رواج و تقویم (کیلنڈر)، تاریخ و روایات، رجحانات و عزائم کی مالک ہے، خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویہ نگاہ ہے، اور قانونِ بین الاقوامی کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں‘‘۔
(حوالہ کتاب ’’مسٹر جناح کی تقریریں اور تحریریں‘‘ بزبان انگریزی، مرتبہ جمیل الدین احمد)
اب کیا ہم یہ باور کرلیں کہ 11 اگست کو یک لخت وہ تمام خصوصیتیں مٹ گئیں جو مسلمانوں کو غیر مسلموں سے جدا کرکے ایک الگ قوم بناتی تھیں؟ اور یکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے جس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کومان لیں تو قائداعظم کو اس الزام سے کیسے بچایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے، بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے؟ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے میں تو کسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔
۔(ج)بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی قائداعظم مسلمانوں سے ایک اسلامی ریاست کا وعدہ کرتے رہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ اس وعدے کو دہراتے رہے۔ پہلے کے وعدے میں سے صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ 21 نومبر 1945ء کو فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:۔
’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں‘‘ (حوالہ مذکورہ ص437)۔
پھر اسی کانفرنس میں انہوں نے 24 نومبر کو تقریر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار فرمایا:۔
’’ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں“۔ (حوالہ مذکورہ صفحہ 422) پھر اسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
’’لیگ ہندوستان کے اُن حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی علَم بردار ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ وہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں۔“ (حوالہ نمبر مذکورہ صفحہ 642)۔
۔11 اگست والی تقریر سے صرف ایک مہینہ بارہ دن پہلے 29، 30 جون 1947ء کو قائداعظم نے سرحد کے حالات پر ایک بیان دیتے ہوئے لکھا:۔
’’مگر خان برادران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہر آلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں پر قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے‘‘ (ڈان 30 جون 1947ء)۔
دوسری طرف 11 اگست 1947ء کے بعد جو ارشادات قائداعظم کی زبان سے سنے گئے اور ان کے معمر ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی بار بار خود ان کی زندگی میں کی اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی ان کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
پشاور 14 جنوری 1948ء.. پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خان نے اتحاد و یکجہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظم کے ان ارشادات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا، انہوں نے فرمایا کہپاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ 13 سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں۔‘‘ (پاکستان ٹائمز 15 جنوری 1948ء)۔
کراچی26 جنوری.. قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں جو انہیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے گزشتہ شام دی گئی، تقریر کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خوامخواہ شرارت پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا‘‘۔ (پاکستان ٹائمز 27 جنوری 1948ء)۔
(”اسلام کا سفیر“)

بیاد مجلسِ اقبال

جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر

علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں اور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔