قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کررہا تھا۔
نبیﷺ نے اس سے فرمایا: اس کو چھوڑ دے، اس لیے کہ حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (بخاری و مسلم)۔
ترجمہ: ”درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ تھا (ہے) ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کا امیدوار ہو، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ اور سچے مومنوں (کا حال اس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے، جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی‘‘۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے… ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا ہے اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔
انہوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے، اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے۔ بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔“
(الاحزاب:21تا24)(تفہیم القران، جلد چہارم 80)
تشریحات: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ترین نمونہ ہے، جس کے مقابلے میں کسی کا کوئی بھی نمونہ عمل و اخلاق قابلِ اتباع و پیروی نہیں ہے، کیونکہ زندگی کا کوئی شعبہ اور نہ کوئی منزل و مقام ایسا ہے جہاں اور جس کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اسوہ نہ ملتا ہو۔ انسان کی زندگی جن جن چیزوں سے تعبیر ہے، سب کی تعمیر کے لیے نمونہ عمل موجود ہے۔ آپ ؐکی زندگی کا ہر شب و روز، ہر صبح و شام آئینہ جہاں میں موجود ہے۔ آپؐ کا ہر مشکل وقت اور آسان زمانہ سامنے ہے۔ بے بسی اور بے کسی میں آپؐ کے صبر و تحمل اور توکل کا حال بھی موجود ہے اور سلطانی کے ایام کا عجز، حلم اور عدل کے نمونے بھی موجود ہیں۔ جنگ کے میدان کے تمام تر واقعات اور صلح کی زبان کے تمام تر الفاظ آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے کل تھے۔ غرض یہ کہ آپؐ کے ہر قدم کی چھاپ جس طرح پچھلوں کے سامنے تھی، اگلوں کے سامنے بھی ہے۔ آپؐ کے نمونہ عمل و اخلاق کو دور رہنے والے بھی ٹھیک اسی طرح پا رہے ہیں اور پاتے رہیں گے جس طرح نزدیک والوں نے پایا تھا۔ آپؐ کی ذات کا ہر وصف، آپؐ کا قول، عمل، فعل، آپؐ کی حرکات وسکنات ساری تصویریں آج بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح آپؐ کے وقت کے لوگوں کے سامنے تھیں۔ آپؐ کے فیصلے، آپؐ کا حکم، آپؐ کی ہدایات، آپؐ کا اٹھنا بیٹھنا، آپؐ کا ہنسنا، آپؐ کا سونا، آپ ؐکا جاگنا اور آپؐ کا سراپا آج بھی اسی طرح پہچانا جاتا ہے اور ہمیشہ پہچانا جاتا رہے گا، جس طرح آپؐ کی بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد پہچانا گیا تھا… آپؐ تو وہ دن تھے جس کی کوئی رات نہیں۔ آپؐ وہ نورِ ہدایت ہیں جس کی روشنی پہلے بھی بے داغ تھی اور آج بھی بے داغ ہے۔ اس لیے آپؐ پہلے والوں کی طرح آج بھی سب کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ اس نمونے کو لے کر، اس پر چل کر اور اس کی اتباع اور پیروی کرکے ہر فرد، ہر قوم، ہر ملت، ہر برادری کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتی ہے۔
آیت لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌمیں جنگ ِاحزاب کے حوالے سے بعض مسلمانوں کے رویّے پر تبصرہ کرتے ہوئے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ مبارکہ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ جس رسول کو ماننے والوں میں تم شامل ہوئے ہو، کیا تم نے کبھی بھی اس رسول کو کسی معاملے میں یا ابھی اس جنگ کے موقع پر عافیت کوش مفاد پرست پایا؟ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو، خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کررہا ہو پھر تو اس کے پیروئوں کی طرف سے ان کمزوریوں کا اظہار معقول ہوسکتا ہے۔ مگر وہ جو نمونہ عمل پیش کرتے رہے ہیں وہ تو یہ ہے کہ ہر مشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک رہے تھے۔ کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جو راہِ حق میں دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپؐ نے اس سے بڑھ کر نہ اٹھائی ہو۔ بلکہ فاقے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے تھے تو اُس وقت بھی فاقے کی وجہ سے آپؐ کے شکم پر تین پتھر بندھے ہوئے تھے۔ لہٰذا اس موقع پر ہی نہیں، یا کسی ایک یا دو معاملے میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ کامل ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر معاملے میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق سیرت و کردار کو ڈھالیں۔
آگے کی آیات میں جنگ ِ احزاب جو تاریخ ِ اسلام کی شدید ترین جنگی صورت حال تھی، اس میں منافقوں کا جو رول رہا، ان کی طرف سے جس بزدلی، مفاد پرستی، عافیت کوشی اور بے مروتی کا اظہار کیا گیا تھا،ا س کو کھول کر بیان کردیا گیا تاکہ مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان کردار، عمل، ایمان، جذبہ خیر اور اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مطابقت و پیروی کا جو فرق ہے وہ واضح ہوجائے اور لوگ منافقوں کو اچھی طرح پہچان لیں۔ اور ساتھ ہی منافقوں پر بھی یہ واضح کردیا گیا کہ ان کا یہ رویہ ان کو جہنم میں دھکیلنے والا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے نفاق سے توبہ کرلیں اور سچے مومن بن کر رہیں۔ مومنوں کا تو یہ حال ہے کہ جنگ ِاحزاب سے بھی زیادہ سخت زمانہ یا سخت دن پیش آجائے جب بھی وہ استقلال کی چٹان ثابت ہوں گے اور کسی بھی سیلابِ بلاکو دیکھ کر ان کا ایمان اور تازہ ہوجاتا ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر یقین اور بڑھ جاتا ہے اور تسلیم و رضا میں اور والہیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی چیز روز بروز مومن کے ایمان میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔
چنانچہ اسی جنگ احزاب میں دیکھ لو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا کیا رویہ رہا، اور اس آزمائش کی گھڑی میں صبر و وفا اور تسلیم و رضا کے کیسے نمونے بنے رہے۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو ایمان کا اقرار کرتے تھے اور ساتھ نمازیں بھی پڑھتے تھے، اس نازک گھڑی میں کیسے خودغرض، بے وفا اور غیر مخلص ثابت ہوئے… حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے لمحات ایک مومن کے ایمان میں اضافہ کرنے والے اور منافق کے ایمان میں مزید کمی کردینے والے ہوتے ہیں۔
حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے، اس کی صورت یہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے یا کسی چیز سے منع کرتا ہے، یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشاتِ نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہوگی، اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکادے گا اُس کے ایمان و تسلیم و رضا میں اضافہ ہوگا اور اس عملِ پیہم کی وجہ سے وہ صدیقیت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے… اس کو یوں بھی سمجھیے: سردی کا موسم ہے، فجر کی اذان سے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اب اگر وہ لحاف پھینک کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور مسجد چلا جاتا ہے تو اس کا یہ فعل اس کے ایمان و تسلیم میں اضافے کا باعث ہوگا، اور اس کے برعکس عمل کرنے والے کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہوگی۔
(”52 دروس قرآن“)