پاک بھارت جنگ بندی معاہدے کی تجدید

گزشتہ ہفتے اس خطے میں بہت بڑی پیش رفت ہوئی کہ پاک بھارت جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، بلکہ پرانے معاہدے کی تجدید کی گئی۔ سب سے پہلے امریکہ نے پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایل او سی پر 2003ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرنے پر ازسرِنو اتفاق کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا۔ امریکہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان براہِ راست بات چیت کی حمایت بھی کی ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ دونوں ملک کشمیر کے معاملے پر براہِ راست مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ دراصل 2003ء میں طے پایا تھا، اور یہ آج تک نافذالعمل ہے، البتہ اس کے باوجود بھارت فائرنگ اور گولہ باری کرتا رہتا ہے جس سے کنٹرول لائن کے قریبی دیہات میں رہائش پذیر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ بھارت نے دو ہزار سے زائد مرتبہ خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اب دونوں ملکوں نے اس پرانے معاہدے کی تجدید کی ہے اور یہ طے کیا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کا احترام کیا جائے گا، تاہم یہاں ایک نہیں بے شمار سوالات کا انبار ہے۔ یہ فیصلہ حکمتِ عملی تو ہوسکتی ہے مگر نظریاتی ہدف نہیں، کیونکہ پاکستان کے لیے اہمیت مسئلہ کشمیر کے حل کی ہے، اس کے بغیر بھارت پر اعتبار نہیں، کیونکہ اُس کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔
ایک ہفتہ قبل صدرِ مملکت عارف علوی نے میری ٹائم کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’جب تک کشمیر جیسے تنازعات حل نہیں ہوں گے سمندر میں بھی امن قائم نہیں ہوگا۔ خلیج فارس، بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ ہند پُرامن نہ ہوسکیں گے، اور خطے میں اعتماد کی فضا کے بغیر تعاون محدود رہے گا‘‘۔ یہ کوئی سادہ سی بات نہیں ہے جسے یونہی نظرانداز کردیا جائے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ کشمیر کا تنازع صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا کے امن کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور اس خطے میں امن کے لیے چین بھی ایک بڑا فریق ہے۔ لداخ پر جو کچھ ہوا یہ اس کا ثبوت ہے۔ ہمیں تجزیہ کرتے ہوئے 27 فروری 2019ء کے واقعے کے بعد کے حالات کا جائزہ لینا ہوگا جب بھارتی فضائیہ کو پاک فضائیہ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس شرمندگی کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے اپنی بحریہ کو متحرک کیا اور پاکستان کی جانب ایک آبدوز بھیجی جو پکڑی گئی۔ یوں بھارت کا سمندر کے ذریعے پاکستان پر حملے کا خواب چکنا چُور ہوگیا۔ میری ٹائم کانفرنس میں غیر معمولی پیغام دیا گیا، اسی لیے کانفرنس میں اپوزیشن رہنما بھی مدعو کیے گئے تھے۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے اپنے خطاب میں کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک اہم ہے، یورپ چین کو حریف نہیں حلیف کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ مگر امریکہ کو چین کا ابھرنا پسند نہیں، امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے باوجود صدر جوبائیڈن بھی چین سے متعلق صدر ٹرمپ کے ہی راستے پر گامزن رہیں گے۔ امریکہ کو چین کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنے کے لیے بھارت کی ضرورت ہے۔ امریکہ چین کے مقابلے کے لیے بھارت کے ساتھ دفاعی اور اسٹرے ٹیجک معاہدے کررہا ہے۔
یہاں اب جنگ بندی کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بھارت نے 27 فروری کے معرکے میں ہزیمت اٹھائی اور سمندر سے حملے کی کوشش کی تھی۔ سی پیک کے باعث سمندر اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کوشش نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے کی گئی ہو، کہ بھارت بحیرہ جنوبی میں امن اور تجارت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جنگ بندی کا یہ معاہدہ پرویزمشرف کی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے بعد ہوا تھا، اُس وقت بھارت نے کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو پسِ پشت ڈالیں اور تجارت کریں۔ مگر پاکستان اس سے متفق نہیں تھا۔ آج بھی جنگ بندی معاہدے کی تجدید کے باوجود اس کی دوبارہ خلاف ورزی کے امکانات موجود ہیں، اور یہ تنازع کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر سمندروں تک پھیل سکتا ہے، کہ سترہ برس کے دوران اگر بھارت نے خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا تو اِس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اب خلاف ورزیوں کا پرانا وتیرہ نہیں دہرایا جائے گا؟ دونوں ملکوں کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان رابطے کے نتیجے میں معاہدے کی پابندی کرنے کا عزم دہرایا گیا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اُن امور کا جائزہ لیا گیا جن کی وجہ سے2003ء کا معاہدہ طے پانے کے بعد ہی بھارت کی جانب سے خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جو اب تک جاری تھا؟ بدقسمتی یہ ہوئی کہ معاہدے کے باوجود حقیقی جنگ بندی نہ ہوسکی، اور وقفے وقفے سے بھارت نے اس کی خلاف ورزیاں جاری رکھیں۔ اُس نے کنٹرول لائن کے علاقے سے پاکستان کے خلاف ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا دعویٰ بھی کیا۔ اس پس منظر میں جنگ بندی معاہدہ مثبت پیش رفت ہے بشرطیکہ پہلے کی طرح خلاف ورزیاں شروع نہ ہوجائیں، اور یہ جنگ بندی لائن آف کنٹرول کو مستقل حد بندی تصور کی جانب نہ لے جائے، بلکہ اس کی حیثیت رائے شماری تک سیزفائر لائن کی ہی رہے۔ کشمیر میں رائے شماری، کشمیریوں کا حقِ خودارادیت ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ایجنڈا ہے، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اِس مؤقف پر مکمل متفق ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیریوں کو عالمی اداروں میں اُن کا تسلیم شدہ حق دلانے کے لیے قومی سیاسی جماعتیں متحد ہوکر عملی جدوجہد کریں اور ملکی میڈیا اس قومی مقصد کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ہندوتوا کے جنون میں مبتلا بھارت کی اپنے ہی آئین کو تہِ تیغ کرکے مقبوضہ کشمیر میں کھلے عام ریاستی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ عالمی ٹریبونل میں اسے جنگی جرائم کا مرتکب ثابت کرنے کی تیاری کی جائے۔ معتبر عالمی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹوں سے اس کی تصدیق بھی ہورہی ہے اور عالمی سیاست کے سرگرم ممالک کی حکومتوں، پارلیمان اور عالمی اداروں کا مثبت ردعمل بھی مل رہا ہے، لہٰذا پاکستان ثبوتوں کی روشنی میں دنیا پر مطلوب فری کوئنسی سے واضح کرے کہ بھارتی رویّے کا معاملہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے آگے نکل کر منظم ریاستی دہشت گردی تک پھیل گیا ہے، جس کی شدت کشمیریوں کی نسل کُشی، ڈیمو گرافک تبدیلیوں اور ان کے مال و جائداد پر قبضوں تک بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے سفارتی اور ابلاغی محاذ سازگار حالات کے مطابق نہیں ہے۔ مودی حکومت نے اکثریت کے زور پر اپنے غیر آئینی اقدام سے پارلیمان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرکے، مقبوضہ متنازع علاقے کو دنیا اور مین لینڈ سے کاٹ کر، کشمیری رہنمائوں کو اسیر بنا کر، عسکری طاقت سے نہتے کشمیریوں کو محصور کرکے جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں، اس پر ہمارے دستک دینے سے عالمی اداروں اور حکومتوں نے اپنے دروازے اچنبھے کی حد تک کھولے ہیں، بولے بھی ہیں، لیکن ہمیں سنگین صورت حال کے مطابق اپنی پوری بات سنانی نہیں آئی۔ کھلے دروازوں اور ملنے والے وسیع عالمی ردعمل کو ہمیں مسئلہ کشمیر حل کرانے کے عملی تعاون میں بدلنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت و اپوزیشن قومی سلامتی کے حامل اس مؤقف پر متحد ہوں، کیونکہ بھارت کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے دسیوں ثبوتوں نے ہمارے ابلاغ کو مؤثر بنانے کا تمام سامان فراہم کردیا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دی گئی خصوصی آئینی حیثیت کو بلڈوز کرکے جس دیدہ دلیری سے نہتے کشمیریوں کے خلاف ظالمانہ اور دہشت گردی کے زمرے میں آنے والے ریاستی جرائم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اس پر پاکستان کو قانونی کیس تیار کرکے جنگی جرائم کے انٹرنیشنل ٹریبونل سے رجوع کرنا ہوگا، عالمی برادری کو باور کرانا پڑے گا کہ مودی حکومت نے جو ریاستی دہشت گردی مچائی ہے اسے نام نہاد قومی مفاد کی آڑ حاصل ہے۔ کشمیر اپنے تمام رہنمائوں، سیاسی جماعتوں اور نئی نسل سمیت شروع سے ہی ذہناً بھارت سے کٹا ہوا ہے، اور اب اس کی عدم قبولیت انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ جواب میں ہماری سیاسی قوتوں کی کشمیر کی متنازع حیثیت کو قائم و دائم رکھنے میں کامیابی بلند درجے کی ہے، لیکن داخلی سیاسی انتشار صورتِ حال کے مطابق مطلوب اقدامات میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جنگ نہیں امن کے لیے مذاکرات، اور جنگی اتحادی بننے کے بجائے امن اقدام کا اتحادی بننے کی حکومتی پوزیشن عالمی برادری کے لیے پُرکشش ہے۔ قوم کا صورت حال سے فائدہ اٹھا کر کم از کم کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے متحد ہونا کشمیریوں اور پاکستان کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے۔

پاک بھارت جنگ بندی معاہدہ

سید علی گیلانی کے تحفظات

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے پاکستان اور بھار ت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ایل اوسی اور دیگر سیکٹروں میں سیز فائر کے حالیہ معاہدے پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ کشمیری عوام کے مفادت کی عکاسی نہیں کرتا۔ سید علی گیلانی نے پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنز(ڈی جی ایم اوز) کے درمیان طے پانے والے حالیہ معاہدے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ڈی جی ایم اوز کا نیا معاہدہ اب نافذ العمل ہے ،کیا یہ سیز فائر لائن پر امن کو یقینی بنائے گا یہ ابھی قبل از وقت ہے جس کا مشاہدہ ہونا باقی ہے تاہم یہ نئی پیش رفت بذات خود تکلیف دہ ہے کیو نکہ یہ حیران کن ہے۔انہوں نے کہاکہ بھار ت کی مقبوضہ کشمیر میں5 اگست 2019ء کی کھلی جارحیت کے بعدہم بارہا یہ یقین دہانیاں سن چکے ہیں کہ بھارت کے ساتھ اس وقت تک کوئی رابطے نہیں ہوںگے جب تک وہ کشمیر میں 5 اگست کے یکطرفہ اقدامات کو واپس نہیں لیتا اب ہمیں معلوم ہواہے کہ دونوں اطراف سے کئی ماہ سے بیک چینل مذاکرات ہوتے رہے ہیں جن کے نتیجے میں ڈی جی ایم اوز کا حالیہ معاہدہ عمل میں آیا جس کی وجہ سے کشمیریوں کے ذہنوں میںکئی خدشات پیدا ہو گئے ہیں اور کوئی بھی اس پالیسی یا اقدام پر سوال کررہا ہے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں کشمیر کہاں موجود ہیں ؟دونوں ممالک کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ وہ کنٹرول لائن اور دیگر سیکٹروں میں تمام معاہدوں اور مفاہمت کے علاوہ سیزفائر پر24 اور 25 فروری 2021ء کی درمیانی رات سے سختی سے عمل کریں گے ۔5 اگست 2019ء کی جارحیت کا حوالہ دیے بغیر اس معاہدے کا کیا مطلب ہے؟کیا یہ دوبارہ شملہ معاہدے کی طرف واپس جانے کا عمل ہے اور کشمیر کو دوبارہ پس منظر میں رکھا جائے۔سید علی گیلانی نے معاہدے پر سوالات اٹھاتے ہوئے مزید کہا کہ ا س عملی اقدام کا کیامطلب ہے کیا اس معاہدے سے مسئلہ کشمیرکو پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع کی حد تک تسلیم کرنا ہے؟ جو کہ کشمیری عوام کی خواہش کے عین برعکس ہے۔ سید علی گیلانی نے کہاکہ ہمارے لیے کشمیردونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع نہیںبلکہ یہ 22 ملین عوام کی قسمت اور مستقبل کا مسئلہ ہے اور ہم ہی اس مسئلہ کے حتمی حل میں اصولی فریق ہوںگے۔اس مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ مناسب وقت ہے کہ ہر سمت میں امن کے لیے ہاتھ ملایا جائے، اگرچہ یہ ایک اچھی سوچ ہے تاہم ہم یہ محسوس کررہے ہیں کہ امن کے لیے جموں کشمیر کے عوام ہی بنیادی نکتہ ہیں۔ڈی جی ایم اوز کا یہ معاہدہ جنگ بندی لائن پر بندوقوں کو خاموش کرا سکتا ہے لیکن کیا یہ کشمیر میں خون خرابے کو روک پائے گا؟کیا یہ کشمیری عوام کے خلاف بھارت کی پھیلائی ہوئی دہشت کو بند کرے گا؟ جس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ معاہدہ کشمیری عوام کے مفادات کی عکاسی نہیں کرتا۔