سینیٹ میں تحریک انصاف سنگل لارجسٹ پارٹی کے باوجود قانون سازی کے لیے اتحادیوں اور اپوزیشن کے رحم و کرم پر ہی رہے گی
ملکی تاریخ کے مہنگے ترین سینیٹ انتخابات مکمل ہوگئے، تحریک انصاف ارکان قومی اسمبلی کو 88 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دے کر بھی ناکام ہوگئی۔ ضمنی انتخاب کے بعد سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی یہ بدترین انتخابی شکست ہے، جس کے بعد قومی اسمبلی میں اسے اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں رہا، جب کہ اس نے ووٹ کے لیے ہر رکن قومی اسمبلی کو پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز بھی دیے تھے۔ حفیظ شیخ کو یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں پانچ ووٹوں سے شکست ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی کو 169اور حفیظ شیخ کو 164ووٹ ملے، قومی اسمبلی میں ارکان کے 7 ووٹ مسترد ہوئے، جبکہ جماعت اسلامی کے رکن غیر حاضر رہے۔ اسی کے ساتھ اسلام آباد میں خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد 174 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئیں۔اگلا مرحلہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا ہے، یہ معرکہ بھی بہت سخت ہوگا۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے بعد تحریک انصاف کے لیے اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست کھو دینا اس کے چل چلائو کی نشانی ہے۔
تحریک انصاف سینیٹ انتخاب کے طریق کار میں تبدیلی کے لیے گزشتہ چھے سال سے ایک مؤقف اپنائے ہوئے تھی کہ سینیٹ انتخاب میں کرپشن ختم کرنے کے لیے اوپن بیلٹ کا نظام لایا جائے۔ اسے اقتدار ملے ڈھائی سال گزر چکے ہیں مگر اُس نے اس جانب سرے سے توجہ ہی نہیں دی۔ سینیٹ انتخابات جب سر پر آگئے تو صدارتی آرڈیننس جاری کردیا اور سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس بھیج دیا، جس میں رائے مانگی کہ آئین کے آرٹیکل 226 کی روشنی میں سپریم کورٹ اپنی رائے دے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کیسے ہوسکتے ہیں؟ چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بینچ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دی کہ سینیٹ انتخابات آئین کے مطابق ہوں گے۔ رائے دینے سے قبل سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں، اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ، الیکشن کمیشن، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور اراکین کو بھی نوٹس جاری کیے اور بار کونسل سے بھی رائے سازی کے لیے معاونت طلب کی۔ سب کی آراء سننے کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے اپنی رائے دی کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226کے مطابق ہی کرائے جائیں۔ یہ رائے بھی دی کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں ہوتا۔ عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے 4 1/ سے رائے دی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے اپنی 8 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری رائے میں لکھا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے، الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتا ہے۔ عدالتی رائے میں کہا گیا کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔ عدلیہ نے یہ بھی رائے دی کہ پارلیمنٹ ہی ایکٹ یا آئین میں ترمیم کرسکتی ہے، جبکہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 1967ء میں دائر نیاز احمد کیس کا بھی حوالہ دیا جس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ رازداری مطلق نہیں ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا کہ ریفرنس میں صدرِ مملکت کی جانب سے مانگی گئی رائے آئین کے آرٹیکل 186 پر غور کرنے پر قانونی سوال نہیں بنتی، اور اسے بغیر جواب کے واپس کردیا جائے۔ صدارتی ریفرنس پر عدالتی رائے اب پبلک پراپرٹی ہے اور اس کی حیثیت رائے کی ہے، یہ حکم نہیں ہے۔ اگر عدلیہ کی رائے پر بات کی جائے تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے واضح رائے دی کہ ریفرنس مسترد کسی قسم کے غور کے بغیر واپس بھیجا جائے۔ سپریم کورٹ نے واضح رائے دی کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے۔ عدالت عظمیٰ نے ٹیکنالوجی کے استعمال کی جو رائے دی، یہ بھی قانون میں ترمیم کی متقاضی ہے۔ چونکہ قانون سازی کے لیے آئینی اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، قانون سازی نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نافذ قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات کروائے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے انتظامات اور سپریم کورٹ کی رائے پر غور کے لیے اجلاس طلب کیا جس میں جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی اور جسٹس (ر) ارشاد قیصر بھی شریک تھے، اس اجلاس میں ایف آئی اے، نادرا، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین سے مشاورت کی گئی۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن اس بات پر متفق ہوا کہ چونکہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کی تفصیلی رائے موصول نہیں ہوئی ہے، تاہم عدلیہ کی مختصر رائے واضح کرتی ہے کہ سینیٹ الیکشن آئین اور قانون کے تحت ہی ہونا ہیں، اس لیے سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے تحت خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرائے جائیں گے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے مستقبل میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کی غرض سے ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے جو چار ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی کرائے گئے ہیں۔
سینیٹ انتخابات میں سینیٹ کی کُل 37 نشستوں کے لیے مقابلہ ہوا۔ پنجاب میں تمام امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ بلوچستان، سندھ اور کے پی کے میں پولنگ ہوئی۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں 7 جنرل، 2 خواتین، 2 ٹیکنوکریٹ اور ایک غیر مسلم نشست پر، اورسندھ اسمبلی میں 7 جنرل، 2 خواتین اور 2 ٹیکنوکریٹ نشستوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ پنجاب میں سینیٹ انتخابات میں تمام 11 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ ٹاسک مسلم لیگ(ق) کے ذریعے مکمل کیا اور بدلے میں اُسے دس ارکان کے عوض سینیٹ کی ایک نشست دی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے کامل علی آغا سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کروانے کے لیے آصف زرداری اور نوازشریف کو اعتماد میں لیا گیا، یوں سب’’نیک و بد‘‘ اکٹھے ہہوگئے اور سینیٹ انتخاب کا معرکہ سر ہوا۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی ’’پنجاب ماڈل‘‘ لانے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہیں ملی۔ حکومت کی جانب سے خیبر پختون خوا اسمبلی میں بلامقابلہ سینیٹ انتخاب کے لیے اپوزیشن کو 2 جنرل نشستیں دینے کی پیشکش کی گئی تھی، جو اپوزیشن نے مسترد کردی تھی۔ بلوچستان سے عبدالقادر کا سینیٹر منتخب ہونا سب سے بڑا اَپ سیٹ ہے کہ انہیں تحریک انصاف نے ٹکٹ دے کر واپس لے لیا تھا، وہ آزاد امیدوار تھے، بعد میں تحریک انصاف نے انہیں اپنا لیا، ایوان میں پہنچ کر وہ فیصلہ کریں گے کہ کس جماعت میں شامل ہونا ہے۔ سندھ سے پیپلزپارٹی کی پلوشہ خان کامیاب ہوئی ہیں، اب پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں اُن کی جگہ کسی دوسری خاتون کو رکن بنائے گی۔
سینیٹ انتخابات کا اصل معرکہ اسلام آباد میں جنرل نشست پر ہوا جہاں یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ یہ معرکہ یوسف رضا گیلانی نے جیتا۔ خواتین کی نشست پر مسلم لیگ(ن) کی فرزانہ کوثر اور تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد امیدوار تھیں۔ قومی اسمبلی میں 342 کے ایوان میں 341 ارکان نے ووٹ ڈالا، جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی غیر جانب دار رہے، 7 ووٹ ضائع ہوئے، اس طرح کل 8 ووٹ استعمال نہیں ہوئے۔
سینیٹ میں تحریک انصاف سنگل لارجسٹ پارٹی کے باوجود قانون سازی کے لیے اتحادیوں اور اپوزیشن کے رحم و کرم پر ہی رہے گی۔ سینیٹ کی حالیہ تشکیل کے بعد پی ڈی ایم کے مجموعی ووٹ حکومتی اتحاد سے زیادہ ہیں، لہٰذا چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا مقابلہ بھی بہت سخت ہوگا، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ پی ڈی ایم کی جانب سے یوسف رضا گیلانی چیئرمین کے عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے، اور مسلم لیگ(ن) میں سے کوئی سینیٹر یا جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری ڈپٹی چیئرمین کے لیے امیدوار ہوسکتے ہیں۔
اسلام آباد کی نشست پر بہت سخت مقابلہ تھا، مگر یہ مقابلہ حکومت کی سیاسی اور نفسیاتی برتری کو بری طرح بے نقاب کرگیا ہے، اس مقابلے کے لیے ہر فریق بہت حساس تھا اور حامیوں کو ہدایت تھی کہ ووٹ ضائع نہیں کرنا۔ سینیٹ انتخاب سے ایک روز قبل اختر مینگل نے کہا تھا کہ چوبیس گھنٹوں میں ایک ایسا دھماکہ ہونے والا ہے کہ لوگ 28 مئی کے دھماکے کو بھول جائیں گے۔ اُن کا اشارہ اِسی دھماکے کی جانب تھا۔ کشمیر کمیٹی کے سربراہ سمیت سینیٹ کے انتخاب میں ضائع ہونے والے ووٹ یوسف رضا گیلانی کو فائدہ پہنچا گئے۔ حفیظ شیخ کے پولنگ ایجنٹ وزیر خارجہ کے صاحب زادے زین قریشی تھے، انہوں نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی، مگر دوبارہ گنتی میں بھی یوسف رضا گیلانی جیت گئے۔ کشمیرکمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی نے اپنے بیلٹ پر دستخط کردیے، اور بعد میں نئے بیلٹ پیپر کے لیے درخواست دی، تاہم ان کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کردی۔ قومی اسمبلی کے تمام حاضر ارکان نے ڈھائی بجے تک اپنا ووٹ ڈال لیا تھا، تاہم جماعت اسلامی کے رکن عبدالاکبر چترالی کے لیے شام بجے تک انتظار کیا گیا، وہ جماعت اسلامی کے فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے نہیں آئے اسلام آباد کے ہر رکن قومی اسمبلی کو دو دو بیلٹ پیپر، اور سندھ میں تین تین، خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں چار چار بیلٹ پیپر دیئے گئے۔
سینیٹ انتخابات کے لیے پنجاب کے سوا تینوں صوبوں اور وفاق کی نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی، جو بغیر کسی وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہی۔ سینیٹ انتخابات کے لیے 698 ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ اسلام آباد کی 2 نشستوں پر 341، سندھ میں 168، خیبر پختون خوا میں 124، بلوچستان میں 65 ارکان نے ووٹ ڈالا۔ وفاق اور صوبوں میں جنرل نشستوں پر 39 امیدوار میدان میں اترے تھے جن میں خواتین 18، ٹیکنو کریٹ 13 اور اقلیتی نشستوں پر 8 امیدوار مدمقابل تھے۔ قومی اسمبلی میں اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک خاتون نشست کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ جنرل نشست کے لیے بیلٹ پیپر سفید، خواتین کی نشست کے لیے گلابی، ٹیکنوکریٹ کے لیے سبز اور غیر مسلم نشست کے لیے زرد رنگ کا تھا۔ ووٹرز نے اپنی ترجیحات کے مطابق امیدوار کو ووٹ دیا، جس کے لیے بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے سامنے خانے میں عددی ترجیحات 1، 2، 3 لکھی تھیں۔ طریق کار یہ ہوتا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت پہلے جیتنے والے امیدواروں کے اضافی ووٹ دوسرے امیدواروں میں تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی شازیہ مری، یوسف رضا گیلانی کی پولنگ ایجنٹ تھیں۔ پولنگ سے قبل الیکشن کمیشن نے ارکانِ قومی اسمبلی کے لیے ہدایت نامہ آویزاں کیا اور دو بیلٹ باکس پارلیمنٹ ہائوس میں رکھے گئے۔ پولنگ اسٹیشن میں موبائل یا کیمرہ لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ارکان کو بیلٹ پیپر حاصل کرنے کے لیے اسمبلی سے جاری شدہ کارڈ دکھانا لازمی تھا۔ بیلٹ پیپر پر ووٹر کی شناخت کا نشان لگنے پر ووٹ مسترد تصور کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں پہلا ووٹ تحریک انصاف کے حلقہ این اے 161 کے میاں شفیق آرائیں، جبکہ دوسرا ووٹ این اے 249 سے وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ڈالا۔ ووٹ ڈالنے کے بعد وہ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ گئے، یوں گنتی کے وقت ایک سابق ایم این اے کا ووٹ بھی گنا گیا۔ شکست میں شکست کے بعد اب تحریک انصاف زخمی سانپ کی طرح آئے گی، اس لیے اب الیکشن کمیشن پر دبائو بڑھ گیا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کرے۔ سپریم کورٹ نے بھی صدارتی ریفرنس میں اپنی یہی رائے دی کہ شفاف انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ہارس ٹریڈنگ یا ووٹوں کی فروخت کے الزامات لگے تو الیکشن کمیشن تحقیقات کرسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنی رائے کے پہلے پیراگراف میں ’آئین اور قانون کے تحت‘ لکھ کر حکومت کو فائدہ پہنچایا ہے، اسی بنیاد پر حکومت کہہ رہی ہے کہ جو مانگا تھا وہ مل گیا ہے۔ قانون سے مراد ایکٹ آف پارلیمنٹ اور صدارتی آرڈیننس دونوں ہوتے ہیں، اور حکومت آرڈیننس کے ذریعے کوئی بھی قانون لا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ووٹ کی رازداری کو مطلق اور ہمیشہ کے لیے قرار نہ دے کر دراصل الیکشن کمیشن کے ہاتھ کچھ بھی کرنے کے لیے ایک آلہ تھما دیا ہے جس کے استعمال کی آزادی بھی دے دی گئی ہے۔ اب حکومت سپریم کورٹ کی اس رائے کے تحت جب چاہے صدارتی آرڈیننس کے تحت سینیٹ انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تحقیقات اپنی مرضی کے طریقے سے کروا سکتی ہے۔ لیکن ایک دوسری رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو ووٹ کی پرچی کے سوا کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا۔ تحقیقات میں سینیٹ انتخابات میں ڈالا جانے والا ووٹ ثبوت کے طور پر استعمال نہیں ہوسکے گا، کیونکہ سپریم کورٹ نے کوئی ایسا طریقہ نہیں بتایا کہ اسے کیسے قابلِ شناخت بنایا جا سکتا ہے۔ ووٹوں کے شفاف استعمال سے متعلق تحقیقات کی صورت میں الیکشن کمیشن کو ووٹ کی پرچی کے علاوہ دوسرے ثبوت تلاش کرنا ہوں گے۔ سپریم کورٹ کی حالیہ رائے کے تحت سینیٹ انتخابات کے بعد ووٹوں کے ایمان دارانہ اور شفاف استعمال کا سوال اٹھ سکتا ہے اور اس سے متعلق تحقیقات بھی ہوسکتی ہیں۔ان انتخابات کے بعد کوئی بھی الیکشن کمیشن کو ووٹوں کی تحقیقات سے متعلق درخواست کر سکتا ہے، اورگڑبڑ ثابت ہونے کی صورت میں فلور کراسنگ کے قانون کے تحت رکن اسمبلی کے خلاف ایکشن بھی لیا جا سکتا ہے۔ تاہم فلور کراسنگ کے ضمن میں ماضی کی مثال ہے کہ تحریک انصاف کی عائشہ گلالئی نے نوازشریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کے امیدوار کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیا تھا، اور ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے نیر بخاری کی رائے بھی یہی ہے کہ جب تک پارلیمنٹ قانون سازی نہ کرلے، تب تک ووٹ کاسٹ ہوجانے کے بعد بھی خفیہ ہی رہے گا۔ لیکن یہ رائے بھی دی جارہی ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی رائے کے تحت ووٹ کی شفافیت سے متعلق تحقیقات کے لیے حکومت کے کسی ادارے سے بھی معاونت حاصل کر سکتا ہے۔