امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق جمعہ 26 فروری کو لودھراں پہنچے جہاں امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب راؤ محمد ظفر، امیر ضلع لودھراں ڈاکٹر طاہر فاروق اور دیگر قائدین اور کارکنان نے سپر چوک پر ان کا استقبال کیا، جس کے بعد ایک قافلے کی صورت میں مرکزِ جماعت اسلامی لودھراں مسجد تفہیم القرآن لے کر گئے جہاں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد انہوں نے نمازیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظالم کا ساتھ دینا ظلم میں شریک ہونا ہے، لہٰذا میں آج آپ کے پاس آیا ہوں کہ اس ظلم اور ظالم طبقے کے نظام کے خلاف جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، اسلام کے نظام میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ اس کے بعد لودھراں میں امیر جماعت اسلامی پاکستان نے معززینِ شہر اور میڈیا نمائندوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا، بعد ازاں ایک بڑے قافلے کے ساتھ مہنگائی مارچ کے لیے بہاولپور روانہ ہوگئے۔
بہاولپور پہنچتے ہی دریائے ستلج پل پر بہاولپور کے امیر سید ذیشان اختر نے امیر جماعت اسلامی پاکستان کا والہانہ استقبال کیا۔ کارکنان نے حکومت کی نااہلی، کرپشن، مہنگائی کے خلاف نعرے لگائے۔ عوام کی بڑی تعداد سراج الحق کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ کچھ لمحوں بعد ایک بڑے مارچ کی صورت میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق امیر جماعت اسلامی بہاولپور سید ذیشان اختر، ڈاکٹر طاہر فاروق، نصر اللہ خان ناصر کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچے تو یہاں موجود عوام نے آپ کا نعروں اور پھولوں کی پتیوں سے استقبال کیا۔
مہنگائی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کو پانچ سال کے بجائے سو سال بھی حکومت کا موقع مل جائے تو ڈلیور نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم نے ڈھائی برسوں میں صرف جھوٹ بولنے کی اسپیشلائزیشن کی ہے، انھیں اس پر بھی ورلڈ کپ ملنا چاہیے۔ پڑوس کے ممالک میں کوئی چاند پر جانے کی تیاریاں کررہا ہے، تو کوئی الیکٹرانک کاریں بنا رہا ہے، مگر ہمارے یہاں صرف قوم کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں پر ہر دور میں کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کی نوازشات جاری رہیں۔ دونوں طرف کا جھگڑا صرف دودھ کی بوتل کے حصول کے لیے ہے۔ پنجاب اسمبلی میں سینیٹرز کے چناؤ کے لیے دو بڑی پارٹیوں کا مک مکا پوری قوم نے دیکھ لیا، اور ثابت ہوگیا کہ ظالم اکٹھے ہیں۔ ملک کے مظلوم عوام کو نوید سناتا ہوں کہ وڈیروں اور خوانین کا دور ختم ہونے کو ہے۔ پاکستان کا مستقبل اسلامی نظام میں ہے۔ پی ٹی آئی، پی پی، نون لیگ نے بہاولپور صوبے کی بجالی کا وعدہ کیا، مگر اسے پورا نہیں کیا گیا۔ وسیب کے نوجوان بے روزگار ہیں، کسان پریشان ہے۔ ایک وقت تھا ریاست بہاولپور برصغیر میں سب سے امیر ریاست تھی، یہاں کے نواب اور عوام نے قیام پاکستان کے بعد لاغر مملکت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بھرپور مالی مدد کی۔ آج اس علاقے کے لوگ صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ چولستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ کوئی طاقت ان سے ان کی زمینیں نہیں چھین سکتی۔ جماعت اسلامی ملک کے پسماندہ طبقات کی آواز ہے۔ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے بہاولپور میں بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
قبل ازیں انھوں نے لودھراں سے بہاولپور تک مہنگائی مارچ کی قیادت کی، جس میں تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی نے خطاب کے دوران ضلعی انتظامیہ کو جلسے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ نوکرشاہی کے طور طریقے بھی برطانوی دور کی بیوروکریسی کی طرح ہیں۔ جلسے میں کسانوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی جنھوں نے حکومت کی زراعت دشمن پالیسیوں اور مہنگائی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ جنوبی پنجاب راؤ محمد ظفر نے بھی خطاب کیا۔ دیگر مقررین اور اسٹیج پر موجود شرکا میں سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی قیصر شریف، ضلعی امیر سید ذیشان اختر، رہنما کسان بورڈ جام حضور بخش، جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی جنوبی پنجاب صہیب عمار صدیقی، ضلعی جنرل سیکرٹری عرفان انجم، ناظم اسلامی جمعیت طلبہ جنوبی پنجاب سعد سعید شامل تھے۔ اس موقع پر علاقے کی ممتاز سیاسی شخصیت سردار محمد خان جتوئی نے اپنے ساتھیوں سمیت جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ بنگلہ دیش اسمارٹ فون بنا رہا ہے، سری لنکا میں انڈسٹریل زونز بن رہے ہیں، انڈیا چاند پر جا رہا ہے، ترکی الیکٹرانک کار بنا رہا ہے۔ جب کہ ہماری حکومت جھوٹ بول کر اور یوٹرنز لے کر عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہے۔ ان کا وژن اور کارکردگی بری طرح ایکسپوز ہوچکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 73سال سے پاکستان کے عوام ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے منتظر ہیں، مگر جاگیرداروں اور ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ عوام کے ارمانوں کا خون کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قیمتی معدنیات اور چار موسموں سے نوازا ہے، یہاں آب پاشی کا بہترین نظام ہے، پاکستان اُن دس بڑے ملکوں میں شامل ہے جہاں سیاحت کے وسیع مواقع ہیں، مگر اس ملک پر شوگر، پیٹرول، آٹا اور ٹمبر مافیاز کا راج ہے۔ یہ مافیاز اقتدار پر قابض جماعتوں کو انتخابات میں اسپانسر کرتے ہیں اور بعد میں ان سے فائدے لیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مدینہ کی اسلامی ریاست کا نعرہ لگایا، لیکن ایک قدم بھی اس جانب نہیں بڑھایا۔ آج پرانے اور نئے حکمران سب اکٹھے ہوگئے ہیں جس کا مظاہرہ پنجاب اسمبلی میں سینیٹ انتخاب میں مک مکا کی صورت میں سب کے سامنے آگیا۔ پی ٹی آئی اگر آج اسٹیبلشمنٹ سے این آر او لے کر حکومت کے مزے لے رہی ہے، تو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے ماضی میں بار بار ایسا کیا۔ لیکن اب عوام کو مزید بے وقوف بنانے کا وقت گزر چکا ہے۔ پاکستان جرنیلوں، نوابوں، خوانین، شہزادے اور شہزادیوں کی حکومت کرنے کے لیے نہیں بنا۔ پاکستان میں پاکستانیوں کی حکومت ہوگی اور یہاں قرآن و سنت کا نظام قائم ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ نظام ایک ایسا بوسیدہ نظام ہے جس میں غریب کا بچہ گندگی کے ڈھیر پر روٹی کے ٹکڑے تلاش کرتا پھرتا ہے۔ ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ غریب کو علاج کے لیے ہسپتال سے ڈسپرین کی گولی تک میسر نہیں۔ سینیٹ انتخاب میں کروڑوں کی بولیاں لگتی ہیں جب کہ ملک کے کروڑوں عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ پاکستان میں پانچ دریا ہیں، مگر سستی بجلی ندارد۔ وزیراعظم نے بدعنوان اور نااہل لوگوں کو عوام کی گردنوں پر مسلط کردیا۔ درآمد شدہ مشیر اور وزیر قوم کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے نااہلی اور بدانتظامی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو غریب کو سستا اور بروقت انصاف میسر ہوگا۔ بچوں کو مفت تعلیم ملے گی اور عوام کو مفت ادویہ۔
لیاقت بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آج تک اپنے قیام کے حقیقی مقاصد حاصل نہیں کرسکا۔ عوام کو تبدیلی سرکار سے جڑی تمام تر امیدیں دم توڑ گئیں۔ انتخابی اصلاحات ہونی چاہئیں۔ انتخابات میں ووٹوں کی چوری اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر ڈاکا ڈالنے کا کلچر ختم ہوگا تو ملک آگے بڑھے گا۔
امیرالعظیم نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری کا دور دورہ ہے اور حکمران غیر سنجیدہ اور نااہل ہیں۔ انتخابات سے پہلے کہا گیا تھا کہ سو دن میں لاکھوں لوگوں کو نوکریاں دیں گے، لیکن حکمرانوں نے ڈھائی برس میں لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔