شام پر امریکہ کا فضائی حملہ

شاہراہِ امن پر خفیہ بارودی سرنگیں

صدر جوبائیڈن نے اپنے اقتدار کے 36 ویں دن ایک آزاد وخودمختار ملک کی سرحدوں کو پامال کرکے دنیا کو پیغام دے دیا کہ امریکہ اپنا استعماری انداز بدلنے پر تیار نہیں۔ اس سے پہلے جناب بائیڈن مسلسل یہ تاثر دے رہے تھے کہ ان کا دورِ اقتدار مہذب، پُرامن اور جنگ و جدل کے بجائے رواداری و سفارت کاری پر یقین رکھنے والے امریکہ کا نقطہ آغاز ہوگا۔ ان کے بیانات اور تقاریر سے بھی اسی عزم کا اظہار ہورہا تھا۔
مشرق وسطیٰ امن کے سلسلے میں انھوں نے دو ریاستی حل یعنی اسرائیل و فلسطین کی خودمختار و بااختیار ریاستوں کی تجویز کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا تو اسی کے ساتھ امریکی صدر نے ایرانی جوہری تنازعے کے پُرامن حل کے لیے 2015ء میں طے پانے والے عالمی معاہدے ”برنامہِ جامع اقدامِ مشترک“ المعروف ”برجام“ یا JCPOA میں دوبارہ شمولیت کا عندیہ دیا۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان اور جرمنی کا ایران سے یہ معاہدہ جولائی 2015ء میں طے پایا تھا، جس کے تحت ایران نے معاشی پابندیوں کے خاتمے کے عوض اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کردینے کے ساتھ یورینیم کی افزودگی اس سطح تک گرا دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اس سے جوہری ہتھیار نہ بن سکیں۔
دو سال قبل صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہہ کر نکال لیا کہ JCPOA ناکافی اور کمزور معاہدہ ہے۔ جس کے بعد انھوں نے ایران پر پابندیوں کی تجدید کردی۔ عسکری و سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے اصرار بلکہ دبائو پر کیا تھا۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ امریکہ اور سلامتی کونسل کے ارکان کو ایران نے بے وقوف بناکر اس معاہدے پر راضی کیا ہے، اور وہ درپردہ جوہری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی IAEAنے 2015ء میں جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد چار مرتبہ ایران کی جوہری تنصیبات کا دورہ کیا اور ہر بار اُس کی رپورٹ میں ایران کی جانب سے معاہدے پر مخلصانہ عمل کی تصدیق کی گئی۔
اقتدار سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے جناب جوبائیڈن نے کہا کہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تنائو کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا، اور 2015ء کے مقابلے میں ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔ امریکی صدر نے عندیہ دیا کہ اگر ایران JCPOAکی شرائط پر مخلصانہ عمل درآمد کی یقین دہانی کروا دے تو امریکہ معاہدے میں واپس آجائے گا۔ جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے جوبائیڈن نے ممتاز سفارت کار جناب رابرٹ ملّے (Robert Malley)کو نمائندئہ خصوصی برائے ایران نامزدکردیا۔ ”برجام“ جناب رابرٹ ملے کی کامیاب سفارت کاری کا کمال قرار دیا جاتا ہے۔
ایران کی جانب شاخِ زیتون لہراتے لہراتے 25 فروری کو چچا سام نے اچانک خنجر تان لیا اور مشرقی شام میں عراق کی سرحد پر ایران نواز ملیشیا کو زبردست بمباری کا نشانہ بنایا۔ پنج گوشہ (امریکی وزارتِ دفاع المعروف Pentagon) کے ترجمان جان کربی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صدر جوبائیڈن کے حکم پر امریکی بمباروں نے شام میں ایران نواز عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ حملے کے دوران 500 پونڈ کے 7منضبط (Guided Precision) بم گرائے گئے۔ فوجی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی کارروائی دو ہفتے قبل عراق کے اربیل ائرپورٹ پر امریکی فوجی اڈے کو ایران نواز ملیشیا حشدالشعبی اور ان کے حاشیہ بردار اولیاالدّم کی جانب سے نشانہ بنانے کا ردعمل ہے۔ اس حملے میں امریکی فوج کا ایک سویلین ٹھیکیدار ہلاک اور ایک امریکی فوجی سمیت کئی افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ایرانی حکومت نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ امریکی حملے سے تین دن قبل بھی بغداد کے ایک فوجی اڈے پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا جہاں امریکی سپاہی بھی موجود تھے، تاہم حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ان واقعات کی تحقیقات کے بعد عراقی حکام کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں چھوٹے چھوٹے گروہ ملوث ہیں جن کا مقصد امریکیوں کو خوف زدہ کرنا ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق شام و عراق کی سرحد پر ایران نواز حشدالشعبی، کتائب حزب اللہ اور کتائب سیدالشہدا کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی۔ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام سے عراق میں سرگرم امریکہ مخالف شیعہ ملیشیا کو اسلحہ پہنچایا جاتا ہے۔ امریکی حکومت نے نقصان کی تفصیل بیان نہیں کی، لیکن بشارالاسد کی مخالف تنظیم شامی مبصرین برائے حقوق انسانی یا SOHRکا کہنا ہے کہ امریکی حملے میں کم ازکم 15 ایران نواز چھاپہ مار ہلاک ہوئے، جبکہ حشدالشعبی کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ذخائر کو بھاری نقصان پہنچا۔
حالیہ کارروائی گزشتہ سال بغداد ائرپورٹ پر ڈرون حملے کے بعد ایرانی تنصیبات پر امریکہ کا پہلا بڑا حملہ ہے۔ جنوری 2020ء کے حملے میں پاسداران انقلابِ اسلامی کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشدالشعبی کے کمانڈر ابومہدی المہندس مارے گئے تھے۔
حملے پر ایران اور شام کا ردعمل خلافِ توقع خاصا ملائم ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ نے حملے کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی کارروائیوں سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔ شامی صدر کی ترجمان محترمہ بوثینہ شعبان نے ”وحشیانہ جارحیت“ کے نتیجے میں ہلاکتوں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم کشیدگی نہیں چاہتے اور امریکی فوج نے اُسی شیعہ ملیشیا کو نشانہ بنایا ہے جو ہمارے اڈوں، سپاہیوں، تنصیبات اور مفادات پر حملوں میں ملوث ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ بمباری صدر بائیڈن کی ہدایت پر کی گئی ہے جس کا مقصد ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو سزا دینا تھا، تاہم امریکہ علاقے میں کشیدگی نہیں چاہتا۔ جناب کربی نے کہا کہ صدر بائیڈن امریکیوں اور اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے۔ یہ ایک جوابی کارروائی تھی۔ امریکہ مشرقی شام اور عراق میں کشیدگی کو کم کرنا چاہتا ہے۔
جمعہ 26 فروری کو بدترین برفانی طوفان سے متاثر ہونے والے شہر ہیوسٹن کے دورے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جوبائیڈن نے کہا کہ امریکی ردعمل جارحیت نہیں بلکہ دشمن کو یہ بتانا مطلوب تھا کہ ہم اپنی فوج پر حملے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے، لہٰذا احتیاط لازمی ہے۔ انھوں نے جوہری معاہدے میں واپسی کے سوال پر ایک بار پھر کہا کہ اگر ایران معاہدے کی پاسداری کا عملی ثبوت فراہم کرے تو وہ JCPOA میں امریکہ کی واپسی پر غور کرنے کو تیار ہیں۔
حملے کے بارے میں امریکیوں کے تبصرے بہت زیادہ جارحانہ نہیں لگتے، اور پنج گوشہ یہی تاثر دے رہا ہے کہ کارروائی کا مقصد حشدالشعبی کے اُن عناصر کو متنبہ کرنا تھا جو عراق میں امریکی مفادات کو نشانہ بنارہے ہیں، اور ایران یا بشارالاسد سے براہِ راست تصادم مطلوب نہیں۔ قصرِ مرمریں کی ترجمان جین ساکی نے اپنے بیان میں کہا کہ باوجودیکہ بشارالاسد ایک قاتل ڈکٹیٹر ہیں، امریکہ شام کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔
امریکی حکام کے بیانات سے لگتا ہے کہ واشنگٹن معاملے کو بڑھانا نہیں چاہتا، اسی لیے بمباری سے پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں واشنگٹن کی جانب سے کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی مستقبل میں مزید حملوں کی کوئی دھمکی جاری کی گئی ہے۔ لیکن اسرائیل نے اس کارروائی پر غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسرائیلی خبر رساں ایجنسی Wallaنے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے حملے سے پہلے اسرائیلی وزارتِ دفاع کو اعتماد میں لیا تھا۔ اس خبر کی پنج گوشہ نے تصدیق یا تردید نہیں کی۔ اسرائیلی حکام نے حملے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اوباما نہیں جوبائیڈن کا دورِ حکومت ہے، اور اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ صدراوباما ایران کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔
حملے کے بعد بھی جوہری معاہدے میں واپسی کی خواہش سے تاثر ملتا ہے کہ جوبائیڈن ایران سے کشیدگی ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یمن کے ایران نواز حوثیوں پر امریکی پابندیاں نرم کرنے سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ لیکن چند ہفتے پہلے امریکی حکومت وینزویلا جانے والے ایرانی جہازوں پر لدے تیل کو بحق سرکار ضبط کرکے تہران کو کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2018ء میں جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایرانی تیل پر پابندی لگادی تھی۔ گزشتہ سال اگست میں امریکی بحریہ نے گیارہ لاکھ سولہ ہزار بیرل ایرانی پیٹرول (Gasoline)سے لدے چار جہازوں پر قبضہ کرلیا تھا جن کی منزل مبینہ طور پر وینزویلا تھی۔
امریکی وزارتِ انصاف نے گزشتہ ماہ پیٹرول فروخت کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم ریاستی دہشت گردی سے امریکی متاثرین کے فنڈ یا U.S. Victims of State Sponsored Terrorism Fundمیں جمع کرادی۔ یہ فنڈ 2015ء میں قائم کیا گیا تھاجس سے اُن امریکیوں کو مدد فراہم کی جاتی ہے جو کسی دوسرے ملک کی سرپرستی میں کی جانے والی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ خیال ہے کہ پیٹرول کی فروخت سے امریکی حکومت کو د س کروڑ ڈالر کے قریب رقم ہاتھ لگی ہے۔امریکی بحریہ نے 10 فروری کو بحر غرب الہند (کریبین) Caribbean Seaسے ایک اور تیل بردار ٹینکر Achileasپکڑنے کا دعویٰ کیا ہے جس پر 20 لاکھ بیرل خام تیل لدا ہوا تھا۔ امریکی حکومت کے مطابق یہ ٹینکر بھی وینزویلا جارہا تھا۔ لدائی کی دستاویز (Bill of Lading) پر تیل کا ماخذ عراق درج ہے لیکن امریکی دعوے کے مطابق یہ ایرانی تیل ہے۔ امریکی کسٹمز کی کشتیوں کے پہرے میں اس ٹینکر کو خلیج میکسیکو کی طرف روانہ کردیا گیا ہے جہاں لوزیانہ کی کسی بندرگاہ پر تیل اتار لیا جائے گا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایرانی تیل کی ترسیل امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ خام تیل کی شکل میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کے لاکھوں ڈالر مالیت کے اثاثوں پر قبضہ کرکے دہشت گردوں کو قیمتی وسائل سے محروم کردیاگیا ہے، لیکن وینزویلا میں ایرانی سفیر ہوجات سلطانی نے امریکی دعوے کو سفید جھوٹ اور نفسیاتی حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بحری جہاز اور نہ ہی ان پر لدا تیل ایران کی ملکیت ہے۔
مہذب دنیا کوسوچنا چاہیے کہ کیا بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ملک کسی بھی دوسرے ملک کو دہشت گرد قراردے کر اس کی نقل و حمل پر پابندی لگا سکتا ہے؟ پہلے تو اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اجازت ضروری تھی، لیکن اب لگتا ہے کہ اس دنیا میں لاقانونیت قانون بن چکی ہے۔ امریکہ کے ان اقدامات کو نظیر بناکر ایرانی بحریہ نے بھی آبنائے ہرمز میں مغربی ممالک کے جہازوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا ہے۔کچھ عرصے سے آبنائے ہرمز سے گزرتے ہوئے کئی تیل ٹینکروں اور جہازوں میں دھماکے ہوچکے ہیں۔
جمعہ 26 فروری کو آبنائے ہرمز کے قریب خلیج عمان میں اسرائیل کے ایک تجارتی جہاز پر بارودی مواد سے حملہ کیا گیا جس سے جہاز کو معمولی نقصان پہنچا، تاہم عملے کے کسی فرد کے زخمی یا ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔ ذرائع کے مطابق گاڑی بردار جہاز MV Heliosدمام، سعودی عرب سے سنگاپور جارہاتھا کہ آبنائے ہرمز کے قریب خلیج عُمان میں اسے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حکام اسے ایران کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
صدر جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس ضمن میں ان کے بعض اقدامات انتہائی حوصلہ افزا ہیں، جیسے رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ برائے ایران تقرری، جوہری امن معاہدے میں امریکہ کی واپسی پر مشروط رضامندی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحہ کی فراہمی پر وقتی پابندی، حوثیوں پر پابندیوں میں نرمی وغیرہ۔ ان اقدامات سے یہ امید بندھ رہی تھی کہ شاید واشنگٹن اور تہران کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد اپنے تعلقات کو بہتر بنالیں گے، لیکن ایران کی بحری نقل و حمل پر پابندی، اس کے اثاثوں کی لوٹ مار، اور اب براہِ راست بمباری سے لگتا ہے کہ شاہراہِ امن پر خفیہ بارودی سرنگیں بڑی مہارت سے نصب کی گئی ہیں۔

…٭…٭…٭…
اب آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔