پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا منجمد گلیشیر بظاہر تو اچانک پگھلنا شروع ہوگیا ہے، مگر اس کے آثار بہت پہلے سے دکھائی دے رہے تھے۔ اوّل تو دو ایٹمی طاقتیں اور دو ہمسائے مکمل قطع تعلق کے ساتھ تادیر نہیں رہ سکتے، اور موجودہ دور میں جب ہر ملک اور معیشت کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں دو قریبی ہمسائے غیر معینہ مدت تک حالتِ جنگ میں نہیں رہ سکتے۔ دوئم یہ کہ کئی دوسری طاقتیں بھی اس کیفیت سے زیادہ دیر تک لاتعلق نہیں رہ سکتی تھیں۔ اس لیے کم یا زیادہ تعلقات کی منجمد برف کو کسی نہ کسی مرحلے پر کچھ مدت تک ہی سہی، پگھلنا ضرور تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اِس بار تعلقات کی برف کے پگھلائو میں امریکہ سے زیادہ چین کا حصہ نظر آتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی طرف سے دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے کی پسِ پردہ یا کھلی کوئی بھی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دی۔ ٹرمپ نے ثالثی کی نرم سی خواہش کا کئی مواقع پر اظہار کیا، لیکن بظاہر یوں لگتا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کو ہوا دینے کی حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بھی امریکہ کو دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے میں زیادہ جلدی اور دلچسپی نہیں۔ پانچ اگست کے اقدام میں امریکی انتظامیہ کے کسی حصے کی تائید کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خود ٹرمپ نے بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کیا تھا کہ نریندر مودی نے یہ قدم اُٹھانے سے پہلے ان سے بات کی تھی۔
ٹرمپ کی رخصتی کے بعد ابھی جوبائیڈن انتظامیہ پوری طرح سنبھل نہیں پائی۔ پاکستان اور بائیڈن انتظامیہ میں ابھی بہت سرسری رابطے ہوئے ہیں اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور اعتماد کی نوعیت کیا ہوگی؟ ابھی امریکی صدر نے صرف بھارتی وزیراعظم سے براہِ راست بات کی ہے، اور پاکستان کی قیادت سے اعلیٰ سطح پر رابطہ ابھی نہیں ہوا۔ اس ابتدائی مرحلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخ کی شدید ترین کشیدگی میں کمی کے آثار میں امریکہ کی ماضی اور موجودہ قیادت سے زیادہ کسی اور فیکٹر کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے، اور لامحالہ یہ چینی فیکٹر ہے۔
بھارتی اخبارات نے یہ خبر دی ہے کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کچھ عرصے سے پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے ساتھ رابطے میں تھے۔ معید یوسف نے ایسے کسی بھی بیک چینل رابطے کی تردید کی ہے۔ اجیت دووال اور معید یوسف میں نہ سہی مگر بیک چینل رابطہ کہیں نہ کہیں موجود رہا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک صبح کسی ایک طرف کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے دل میں کنٹرول لائن کے دوسری سمت اپنے ہم منصب سے ہاٹ لائن پر بات کرنے کا خیال سوجھا ہو، اور باتوں باتوں میں بات سیزفائر کی تجدید تک پہنچ گئی ہو۔ چین بھارت مذاکرات میںکنٹرول لائن اور پاک بھارت کشیدگی بھی لازمی موضوع رہی ہوگی، اور وقت آنے پر یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی۔ دو ملکوں کے کشیدہ اور حساس معاملات میں سب کچھ یوں اچانک نہیں ہوتا۔ بھارتی فوج کے سربراہ ایم ایم نروانے نے کچھ دن قبل کہا تھاکہ پاکستان کے محاذ پر کچھ غیر معمولی ہوسکتا ہے۔ سیزفائر معاہدے کی تجدید ’’غیر معمولی‘‘ بات ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطہ تھا یا نہیں، اہم بات یہ ہے کہ تعلقات میں معمولی اور علامتی ہی سہی، نارملائزیشن کے لیے دبائو موجود تھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے کنٹرول لائن پر ماضی کی جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا۔ 742کلومیٹر اور460 میل طویل جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ 2003ء سے موجود ہے۔گیارہ سال تک یہ معاہدہ کسی نہ کسی انداز میں قائم رہا، اور 2014ء سے اس معاہدے کی خلاف ورزیوں میں تیزی آتی چلی گئی۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق 2003ء سے اب تک اس معاہدے کی 13500 مرتبہ خلاف ورزی کی گئی۔ اس عرصے میں 310 افراد جان سے گزر گئے، جبکہ1600زخمی ہوئے۔ بانوے فیصد خلاف ورزیاں 2014ء سے2021ء تک ہوئیں۔
جنگ بندی کے اس معاہدے کی تجدیدکا مطلب تعلقات کی تجدید ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا۔ حالات کی نارملائزیشن تعلقات کی خوشگواریت میں ڈھل جائے گی یا نہیں، اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں، کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا بیرومیٹر کشمیر ہے، اور عمران خان نے سری لنکا میں دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ صرف ایک ہے جس کا نام مسئلہ کشمیر ہے۔ 5 اگست 2019ء کو دونوں ملکوں کے تعلقات یکسر منقطع ہوکر رہ گئے تھے، اس کے ساتھ ایک نئی فالٹ لائن متحرک ہوگئی تھی، اور چین اور بھارت کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر معاملات سنگین ہونا شروع ہوگئے تھے جو گزشتہ برس مئی کے واقعات پر منتج ہوئے تھے جب دونوں ملکوں کی افواج کے مابین شدید تصادم میں بھارت کے بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے 9 ادوار بے نتیجہ رہے تھے، مگر دسویں دور میں اچانک ایک معاہدے تک پہنچنے کی نوید سنائی گئی تھی۔ اس طرح چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو ایک پُرامن حل کا رخ دینے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چین نے بھارت کی گردن بری طرح دبوچ رکھی تھی، اور اس کا اصل محرک کشمیر پر بھارت کے یک طرفہ فیصلے سے پیدا ہونے والے خطرات اور چیلنجز تھے۔ چین اور بھارت کے درمیان معاہدے کے حصے کے طور پر پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی برف کا پگھلنا بھی شامل تھا۔ چین اور بھارت کے درمیان دس سرحدی مقامات پر تنازع چل رہا ہے۔ان میں کئی جگہوں پر چینی فوج نے پیش قدمی کی ہے، مگر معاہدہ صرف دومقامات پرہوا۔اس کا مطلب ہے کہ یہ معاہدہ ہونے سے چین اور بھارت کے درمیان اب بھی ہمیشہ کے لیے’’ سب اچھا ‘‘نہیں۔اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان تجدیدِ سیز فائر معاہدے کا مطلب تجدیدِ تعلقات نہیں، کیونکہ حقیقی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔کشمیر پر مذاکرات اور کچھ زمینی تبدیلیاں ہوئے بغیر تجدیدِ تعلقات کا امکان نہیں۔
سیز فائر معاہدے کی تجدید کا خیرمقدم کرنے میں امریکہ نے بھی دیر نہیں لگائی اور وائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری نے اسے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا۔ پاکستان، بھارت، حریت کانفرنس،فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا گیا ہے،جو اس بات کا اشار ہ ہے کہ چین کا دبائو اور امریکہ کا سمجھائو دونوں مل کر بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز تک گھسیٹ لائے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ میز پر پھیلے کاغذ پر رقم فہرست میںکشمیر کس مقام پر رہتا ہے؟ اسی پر اعتماد سازی کے آنے والے دور کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔