حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن مدّظلہٗ العالی تفقّہ فی الدین ہی نہیں رکھتے، تفقّہ فی اللسان بھی رکھتے ہیں۔ اصلاحِ زبان پر ان کے مضامین ہم بہت اشتیاق و احترام سے پڑھتے ہیں۔ آپ نہ صرف عالمِ دین اور فقیہ ہیں، بلکہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں کے شناور بھی۔
مفتی صاحب بھی اکثر لوگوں کی طرح اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ مشہور محاورے ’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘ کا مفہوم یہ ہے کہ بزرگوں کی غلطی پکڑنا بھی غلطی ہے۔ اس خیال کا استدلال محترم مفتی منیب صاحب نے اپنی ایک تحریر میں شیخ سعدیؒ کے مشہور شعر سے کیا ہے، جس میں شیخ سعدیؒ نے ’خطائے بزرگاں‘ نہیں ’خطا بر بزرگاں‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ شعر یوں ہے:۔
نہ در ہر سخن بحث کردن رواست
خطا بر بزرگاں گرفتن خطاست
یعنی ہر بات میں بحث کرنا ٹھیک نہیں ہے (کاش کوئی یہ بات سماجی ذرائع ابلاغ پر بحثیائے ہوئے لوگوں کو بھی سمجھا دیتا)۔ بزرگوں کی خطا پر گرفت کرنا خود ایک خطا ہے۔ (گرفت میں ’گ‘ اور ’ر‘ دونوں پر کسرہ یعنی زیر ہے۔ ’ف‘ ساکن ہے۔ گرفتار کا تلفظ بھی اسی طرح کیا جائے گا۔) شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے درست مصرعے کی جگہ جو غلط مصرع، زباں زدِ خاص و عام ہوکر زبانوں پر رواں ہوگیا ہے، اُسے غلط کرڈالنے کی غلطی بھی یقیناً کسی بزرگ ہی نے کی ہوگی، ہماری نسل نے تو نہیں کی۔ نہیں معلوم کہ یہ تبدیلی ’عوامی اصلاح‘ کا نتیجہ ہے یا ’عوامی اغلاط‘کا؟ تاہم ایسے اور بھی بہت سے مصرعے ہیں جو ’غلط العام‘ ہوجانے کے بعد زیادہ بھلے ہوگئے ہیں۔ مثلاً (نوراللغات کے مطابق) اصل مصرع یوں ہے: ’’ہم تو ڈوبے ہیں مگر یار کو لے ڈوبیں گے‘‘۔ لیکن بزرگوں کی غلطی سے غلط العام ہوکر مصرع زیادہ دل کش ہوگیا ہے: ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔صنم کو ڈُبکیاں دینے کا عزم ہی نہیں، اس کا تصور بھی بڑا دل کش ہے۔
یہ بات ہمارے دل میں ہمیشہ کھٹکتی رہی کہ بزرگوں کی کسی غلطی پر گرفت، غلطی کیسے ہوگئی؟ یہ توغلطی کی اصلاح کی کوشش ہے۔ اللہ بھلا کرے ہمارے ایک استاد کا… انھوں نے ہمیں اس گرفت پر دل گرفتہ دیکھا تو دلجوئی کی اور سمجھایا کہ بیٹا اس محاورے میں ’’گرفتن‘‘ (یعنی پکڑنے)کا مطلب یوں سمجھو کہ بزرگوں کی خطاؤں کو مضبوطی سے تھام کر اس پر قائم رہنا خود ایک خطا ہے۔ اب بات سمجھ میں آگئی۔ کیوں کہ ہمارے دین کی تعلیم یہی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 170 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو، تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟‘‘
تو صاحب! یہ ہوا ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘‘ کا برحق مفہوم۔ عربی میں بھی ’’گرفتن‘‘ کے مفہوم کا ایک لفظ ’’خُذ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ جس کے معانی کسی کو پکڑنے اور گرفتار کرنے کے بھی ہیں (مواخذہ اسی سے نکلا ہے)، اور مضبوطی سے تھام لینے کے بھی۔ ایک عربی محاورہ ہے: ’خُذ ما صفا و دَع ما کَدِر‘۔ یعنی صاف ستھری چیزیں تھام لو اور گندی چیزیں چھوڑ دو۔ عزیزؔ لکھنوی نے بھی یہ محاورہ اپنی ایک غزل کے مطلع میں استعمال کیا ہے:۔
صاف باطن دیر سے ہیں منتظر
ساقیا! خُذ ما صَفا دَع ما کَدِر
سورۃ الحشر کی آیت نمبر 7 میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم جو کچھ عطا فرمائیں اسے تھام لو (فَخُذُوْہٗ) اور جس چیز سے منع فرمادیں اُس سے باز رہو۔
اس ساری تمہید و تاویل کا سبب یہ ہے کہ آج ہم غلطی سے بزرگوار کی غلطی پکڑ بیٹھے ہیں۔ پچھلے جمعے کی بات ہے، اپنے روزمرہ معمول کے مطابق ہم برادر انیق احمد کا پروگرام ’پیامِ صبح‘ دیکھنے بیٹھے تو یہ دیکھ کر خوش ہوئے کہ آج مفتی منیب الرحمٰن صاحب ناظرین کے بھیجے ہوئے سوالات کے جوابات دیں گے۔ مگر یہ دیکھ کر دھک سے رہ گئے کہ مفتی صاحب مُنشّیات کو’مَن شِیات‘ کہہ رہے ہیں اور انیق احمد بیٹھے آنکھیں گھما گھما کر سن رہے ہیں۔ صاحب! عربی کا ایک لفظ ’نَشْوَۃ‘ ہے، جس کے معنی مستی کے ہیں۔’نَشِیَ یَنْشیٰ‘ کا مطلب ہے مست ہونا، نشے میں آنا۔ ’نَشِیَ مِنَ الشَّراب‘ کا مطلب ہے: شراب سے مست ہوا۔ فارسی میں آکر یہی نَشوہ ’نشہ‘بن گیا۔ ہر وہ چیز جو نشہ لانے والی ہو ’مُنَشّی‘(مُونَش شی) کہی جاتی ہے۔ جیسے قوت دینے والی چیزکو ’مُقوّی‘کہا جاتا ہے۔ مُنَشِّی کی جمع مُنَشِّیات (مُو نَش شیات) ہے۔ ’مَن شیات‘ نہیں۔ مگر کیا کیجیے، اپنا تو یہ حال ہے کہ جن الفاظ کے غلط تلفظ بچپن سے زبان پر چڑھے ہوئے ہیں، انھیں درست کرنے کی کوششِ بسیار کے باوجود عادتاً غلط تلفظ ہی زبان سے نکل جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم جیسے عامی اگر غلط تلفظ سے بولیں تو یہ محض ایک جاہل آدمی کی غلطی ہوگی، لیکن فقیہِ قوم کا تلفظ خراب ہوگیا تو پھر قوم کا کیا بنے گا؟ اس موقع پر ہمیں چھنّو لال دلگیرؔ کا یہ شعر تسلی دیتا ہے کہ تم اپنی فکر نہ کرو:۔
وعدہ آسان ہے، وعدے کی وفا مشکل ہے
جن کے رُتبے ہیں سِوا، اُن کو سِوا مشکل ہے
اللہ بخشے، ملیر توسیعی کالونی (المعروف بہ کھوکھراپار) کراچی میں ایک امامِ مسجد ہوتے تھے مولانا امیر اللہ خان۔ (ہم نے ان کی شخصیت کا خاکہ بھی لکھا ہے) ایک بار برسرِ عام کوئی غلط رائے دے بیٹھے۔ غلطی کا احساس ہوا تو برسر منبر معافی مانگی، اپنی غلط رائے سے رجوع کرنے (یا رجوع لانے) کا اعلان فرمایا اور کہا کہ عام آدمی اگر غلطی کربیٹھے تو وہ اکیلے میں توبہ تِلّا کرکے فارغ ہوسکتا ہے۔ مگر امام، خطیب یا مفتی و مجتہد کی تنہائی کی توبہ قبول نہیں۔ اُسے برسرعام اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ہوگا تاکہ لوگ اُس کی غلطی کو اپنانے کی غلطی نہ کرتے رہیں۔ یہ وہی ’’خطائے بزرگاں گرفتن‘‘ والی بات ہے کہ قوم کی قوم اسی خطا پر عمل پیرا ہوجائے گی۔
قوم پر یاد آیاکہ آج کل ہماری قوم کی قوم ’’السّلامُ علیکم‘‘ کو ’’اسلام وعلیکم‘‘ لکھ رہی ہے۔ صرف جوّالی پیغامات اور سماجی ذرائع ابلاغ کے برقی اوراق پر نہیں، اخبارات و جرائد کے صفحات پر بھی۔ ’’و‘‘یہاں غالباً پیش کی جگہ استعمال کیا جا رہا ہے، جس طرح زیر کی جگہ ’ے‘ استعمال ہونے لگا ہے۔ ملتان و فیصل آباد سے بیک وقت نکلنے والے روزنامہ ’’لوہے قلم‘‘ کا اشتہار ایک رکشے پر دوڑتا ہوا آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔ املا کی غلطی اور ’و‘ غائب کرکے بڑی ’ے‘ کی اضافت لگا دینے سے اس جریدے کا نام معنی خیز ہوگیا ہے۔ کیوں کہ آج کل قلم سے لوہے کے لٹھ ہی کا کام لیا جارہا ہے۔ اہلِ صحافت کسی کے پیچھے قلم لے کر پڑ جائیں تو اُن کا حال بقول راجا مہدیؔ علی خان یہ ہوتا ہے:۔
میں لوہے کا لٹھ لے کے تھا پیچھے پیچھے
وہ اُکھڑے قدم لے کے تھے آگے آگے
’’اسلام وعلیکم‘‘ کے املا کی تصحیح کرنے کی طرف ایک صحافتی دانشور کی توجہ مبذول کرائی تو وہ بھی’’خطائے بزرگاں‘‘ کی گرفت پرخفا ہوگئے۔ بحث پر اُتر آئے۔ ’اسلام‘ کے بعد کا ’واؤ‘ ہٹاکر ’م‘ پر پیش لگانے کوتو بادل ناخواستہ تیارہوگئے، مگر ’’السّلام‘‘ کے لیے بڑے تیقن سے فرمایا کہ: ’’یہ تو عربی کا املا ہے۔ اردومیں اسی طرح لکھا جائے گا، جیسے میں نے لکھا ہے‘‘۔
عربی املا اور اردو املا کے اختلاف کی بحث تو بہت طویل ہے، مگر اردو کے علمائے لسانیات نے بھی اللہ کے دین کا نام ’’اسلام‘‘ لکھنے اور سلام کرنے کی غرض سے ’’السّلام‘‘ لکھنے کے املا میں فرق ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے۔ اردو میں بھی ’اسلام‘ کا تلفظ کسی طرح ’السّلام‘ نہیں کیا جا سکتا۔ قرآنِ مجید کے وہ الفاظ جو اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں، ان کا املا قرآن ہی کے مطابق لکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ’’اللّاہ تعالا‘‘ لکھنا غلط ہوگا۔ ضرورتِ شعری کے تحت اقبالؔ سمیت بعض شعرا نے بعض مقامات پر بعض دینی اصطلاحات کا املا تبدیل کیا ہے، مثلاً زکوٰۃ کو زکات لکھا ہے، مگر یہ عام روش نہیں ہے۔ بالخصوص جن الفاظ کا تعلق ہمارے دین و عقاید سے ہے، ان کا عربی املا اہلِ زبان نے جوں کا توں برقرار رکھا ہے، تاکہ ہمارے بچے قرآن و حدیث سے اجنبیت محسوس نہ کریں۔ مثلاً ’لااِلٰہ‘ کا املا اردو میں بھی یہی رہے گا۔ اردو کا املا بنانے کے لیے اسے ’لااِلاہ‘ نہیں لکھا جاسکتا۔