سینیٹ انتخابات اور صدارتی ریفرنس : عدالت عظمیٰ کا فیصلہ

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یا رائے سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے صرف 48 گھنٹے قبل آئی ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے سینیٹ کے انتخابات کے طریقہ کار پر صدرِ پاکستان کے جاری کردہ آرڈیننس پر اپنی رائے دے دی ہے۔ چار ایک کا یہ فیصلہ جس میں چار ارکان نے ایک ہی رائے دی، جبکہ بینچ کے فاضل رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا جس میں قرار دیا گیا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت ہی ہوں گے، یعنی آئین میں ان انتخابات کا جو طریقہ کار درج ہے اسی طریقہ کار کے تحت انتخابات ہوں گے۔ تاہم ان انتخابات میں الیکشن کمیشن آئین کی دفعہ 218 کے تحت کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کو روکے، اور انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرے، کیونکہ آئین کی دفعہ 190 کے تحت تمام انتظامی اتھارٹیز اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کی پابند ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے یہ بھی رائے دی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں سیکریسی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یا رائے سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے صرف 48 گھنٹے قبل آئی ہے۔ اگرچہ سینیٹ انتخابات گزشتہ سال کے وسط ہی سے زیر بحث تھے، کیونکہ سینیٹ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو اکثریت حاصل نہیں ہے، اور خیال تھا کہ وہ ضروری قانون سازی اور کسی خاص موقع پر آئینی ترمیم لانے کے لیے سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ ماضی میں بھی کئی بار ایسا ہوا کہ حکمران جماعت کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں تھی۔ اِس بار اپوزیشن کا خیال تھا کہ وہ حکومت کو دبائو میں لاکر سینیٹ میں اُسے اکثریت حاصل کرنے سے روک سکتی ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل اور اس کے ابتدائی جلسوں کی کامیابی کے بعد یہ لگتا تھا کہ اپوزیشن سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ پہلے پی ڈی ایم نے یہ شوشا چھوڑا کہ وہ سینیٹ کے انتخابات ہی میں حصہ نہیں لے گی، جس کی وجہ سے یہ انتخابات نہیں ہوسکیں گے، یا اپوزیشن کی شرائط پر ہوں گے، ایسے میں سینیٹ میں اکثریت اپوزیشن ہی کو حاصل رہے گی۔ پھر یہ شوشا چھوڑا گیا کہ پیپلزپارٹی یعنی سندھ حکومت سندھ اسمبلی تحلیل کردے گی، اس طرح الیکٹورل کالج نامکمل ہونے کے باعث سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوسکیں گے، اور سندھ اسمبلی کے انتخابات ہونے کے بعد ہی یہ انتخابات ہوسکیں گے، اس طرح حکومت کم از کم تین چار ماہ تک سینیٹ میں بے بس رہے گی۔ حکمتِ عملی کے تحت سندھ اسمبلی ایسے وقت میں تحلیل کی جانی تھی کہ سینیٹ کے انتخابات کی مقررہ تاریخ سے قبل سندھ اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ناممکن تھا۔ لیکن خود پی ڈی ایم کی جماعتیں اس پر متفق نہیں تھیں، بڑی جماعتوں نے سینیٹ کے انتخابات کے بائیکاٹ سے اسی طرح آہستہ آہستہ انکار کردیا جس طرح انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے کے آپشن کو رفتہ رفتہ رد کیا تھا۔ بعد میں پیپلزپارٹی نے سندھ اسمبلی توڑنے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ اس طرح مجبوراً اپوزیشن سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے پر راضی ہوگئی۔ اس سلسلے میں پی ڈی ایم نے اسلام آباد کی نشست پر سید یوسف رضا گیلانی کو متفقہ امیدوار بناکر ایک اچھی چال چلی۔ لیکن شاید حکومت نے اس کا توڑ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پنجاب میں سینیٹ کی سیٹوں پر ڈیل کرکے نکال لیا۔ یہ ڈیل یقینی طور پر اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے ذریعے کامیاب ہوئی جس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے کسی مقابلے کے بغیر اپنے امیدوار کامیاب کروا لیے۔
سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے موقع پر اپنی عددی کمزوری کے باعث حکمران جماعت نے اعصابی دبائو کے حربے بھرپور انداز میں استعمال کیے۔ پہلے فروری میں سینیٹ کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا، پھر کرپشن کے قصے میڈیا پر پھیلا کر انتخابات کو شفاف بنانے کے نام پر اوپن بیلٹ کی وکالت شروع کردی، اور سینیٹ میں ووٹوں کی خریداری ثابت کرنے کے لیے اپنے ہی ارکان کی ویڈیوز بھی جاری کردیں، اور کے پی کے میں اپنے ہی وزیر قانون کو وزارت سے بھی سبکدوش کردیا۔ یہ حربہ زیادہ کامیاب ہوتا نظر نہ آیا تو سینیٹ انتخابات کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے صدر سے آرڈیننس جاری کردیا، لیکن چونکہ آئین میں ان انتخابات کا واضح طریقہ کار درج ہے اس لیے اس آرڈیننس پر رائے حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ بھی چلے گئے۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین میں کھلی وضاحت کے باوجود سپریم کورٹ نے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ اس کیس کی سماعت کی۔ حالانکہ آئینی ماہرین کے مطابق یہ کیس رجسٹرار آفس ہی میں مسترد ہوجانا چاہیے تھا، یا سپریم کورٹ ایک آدھ گھنٹے کی سماعت کے بعد ہی فیصلہ دے دیتی جو اس نے اب دیا ہے کہ آئین کے تحت ہی سینیٹ کے الیکشن ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہماری سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر سے ایک ملاقات ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں آئین بالکل واضح ہے، یہ ریفرنس کسی طرح بھی قابلِ سماعت نہیں، اسے پہلے ہی مرحلے میں مسترد ہوجانا چاہیے تھا۔ یہی بات اب بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہی ہے کہ جب رائے شماری کے بارے میں آئین میں واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخابات کے سوا تمام انتخابات میں رائے شماری خفیہ ہوگی تو پھر صدر کی طرف سے اس طرح کا سوال اٹھانا بنتا ہی نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس فیصلے کی تعریف کررہی ہیں۔ حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کے لیے اقدامات کا کہا گیا ہے جس میں ٹریس ایبل بیلٹ بھی شامل ہے۔ جبکہ اپوزیشن رہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے جو سوال بھیجا تھا، سپریم کورٹ کی طرف سے اس کا جواب نفی میں آیا ہے۔
اس سارے معاملے میں سینیٹ میں خرید و فروخت کا معاملہ ایک بار پھر ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت تو ووٹوں کی خریداری کا ڈھنڈورا پیٹ کر شفاف انتخابات چاہتی تھی، اُس نے خود اِس معاملے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟ ظاہر ہے کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن پہلے انتخابات میں جس طرح خاموش رہا اِس بار بھی یہی کرے گا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے جہاں الیکشن شو آف ہینڈز یا خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرانے کے معاملے پر اتنی طویل سماعت کی، اُس نے بھی کرپشن روکنے کے لیے خود کوئی تجویز نہیں دی، اور کرپشن کی صورت میں کوئی خاص اقدامات کرنے کی ہدایت نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان اور فواد چودھری سمیت کئی وزرا نے الیکشن کمیشن کے حکام سے ملاقات کی جس کے بعد ان کا یہ کہنا تھا کہ اب سینیٹ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے لیے بیلٹ خفیہ ہوگا لیکن الیکشن کمیشن کے لیے یہ بیلٹ خفیہ نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ صورت حال پہلے بھی یہی تھی۔ اتنے شور شرابے کے بعد بھی وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اب اللہ ہی اس نظام میں بہتری کی صورت نکال دے، ورنہ توپرانی لکیر ہی پیٹتے رہیں گے۔