کراچی کا تباہ حال انفرا اسٹرکچر اور سڑکیں

قائد آباد سے گورنر ہاؤس جماعت اسلامی کی حقوق کراچی ریلی

کراچی قیام پاکستان کے وقت کے مقابلے میں70 گنا بڑھ چکا ہے اور آبادی تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ڈیڑھ سو ممالک سے زیادہ آبادی رکھنے والا، پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر کراچی کئی مسائل کی آماجگاہ ہے، جس میں ٹریفک کے مسلسل بڑھتے ہوئے مسائل اہم ہیں، اور اس کی اہم وجہ سڑکوں کی خستہ حالی ہے۔ شہر میں تو پہلے ہی لینڈ مافیا، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، بلدیات و سندھ حکومت کی ملی بھگت سے سڑکوں کی کشادگی ختم ہوگئی ہے، اور جو ہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جو ٹریفک جام کے ساتھ حادثات کا بھی سبب بن رہی ہیں۔ پرانی سبزی منڈی سے سڑک کی حالت بدتر، جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی، جس کے بیچ گڑھا پڑ چکا ہے، گاڑیاں بھی ڈگمگاتی ہوئی گزرتی ہیں۔ تاہم آپ کو انتظامیہ کہیں نظر نہیں آئے گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی ادارہ ہے ہی نہیں۔ اس وقت شہر کی اندرونی گلیوں کی حالت بدترین ہے۔ اس کے ساتھ ناظم آباد ہو، لیاقت آباد ہو، سرجانی ٹائون ہو یا اسکیم 33کی طرف کو جاتا راستہ… ہر طرف برا حال ہے۔ سندھی ہوٹل اور اجمیر نگری جانے والا راستہ بجائے خود سڑک کو ڈھونڈ رہا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر سفر کرنا ذہنی اذیت میں مبتلا کرتا ہے اور حادثات ہونا تو معمول کی بات ہے۔
جماعت اسلامی کراچی اس وقت کراچی کا مقدمہ بھرپور انداز میں اور ہر حوالے سے لڑ رہی ہے۔ بجلی، پانی، سیوریج، سڑکوں اور بلدیاتی مسائل سمیت درجنوں ایشوز پر جماعت اسلامی کی آواز مؤثر ہوتی جارہی ہے۔ حقوق کراچی تحریک کے مطالبات کی منظوری کے لیے اتوار 14 مارچ کو قائد آباد سے گورنر ہاؤس تک ریلی نکالنے کا اعلان جماعت اسلامی کراچی نے کیا ہے، اور اسی تسلسل میں جماعت اسلامی نے سڑکوں کی خستہ حالی پر بھی آواز اٹھائی ہے، کیونکہ کراچی کے شہری اس کی اذیت اور تکلیف سے روزانہ صبح و شام گزرتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اس حوالے سے کہا ہے کہ شہر بھر میں 100سے زائد اہم سڑکوں کی تباہ حالی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا اور اس وجہ سے لاکھوں شہریوں کا روزانہ متاثر ہونا صوبائی حکومت، ایڈمنسٹریٹر اور متعلقہ اداروں کی نااہلی و ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سڑکوں کی خستہ حالی کے باعث صرف ٹریفک جام کے مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ عوام شدید جسمانی اذیت اور کرب کا بھی شکار ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ”ہر سال سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے مختص شدہ اربوں روپے کا بجٹ کہاں جاتا ہے؟ حکومت اور متعلقہ ادارے شہریوں کی حالت پر رحم کریں اور فی الفور تباہ حال سڑکوں کی مرمت و تعمیر کو یقینی بنائیں“۔ انہوں نے ٹریفک پولیس کی جانب سے کراچی کے تمام اضلاع میں تباہ شدہ سڑکوں کی فہرست کا بھی حوالہ دیا جس میں سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے روزانہ ٹریفک جام ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ پر جس میں 101سڑکوں کا ذکر کیا گیا ہے، تبصرہ کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن نے صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی و ناقص کارکردگی کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ 101اہم سڑکیں تو وہ ہیں جن کی ٹریفک پولیس نے نشاندہی کی ہے، ورنہ اصل صورت حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے، اور سڑکوں پر سفر کرنے والے شہری زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ شہر بھر میں سڑکوں کی تباہی اور خستہ حالی کے باعث صورتِ حال سنگین ہوگئی ہے، جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں، جس سے نہ صرف ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے بلکہ دورانِ سفر بہت بُرا حال ہوجاتا ہے، دھول مٹی کے باعث جو بیماریاں اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ ٹریفک پولیس کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ سڑکیں زون وسطی میں خراب اور ٹوٹی ہوئی ہیں جن کی تعداد 31ہے، جبکہ غربی میں 17،جنوبی میں 14، شرقی میں 10، کورنگی میں 6اور زون سٹی میں 11سڑکیں بہت زیادہ تباہ ہوچکی ہیں اور ان کی تعمیر کی ذمہ داری زیادہ تر کے ایم سی پر عائد ہو تی ہے۔ گزشتہ سال شدید بارش کے بعد سے یہ صورت حال ہے اور کے ایم سی کو تحلیل ہوئے بھی 6ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی کی ترقی و بحالی کے لیے جاری کردہ 1100ارب روپے کے اعلان کردہ پیکیج کو بھی 6ماہ ہوگئے ہیں لیکن نہ صوبائی حکومت ایڈمنسٹریٹر، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے سڑکوں کی مرمت اور گڑھوں کی بھرائی کرا سکی، اور نہ ہی وفاقی حکومت کے پیکیج اور منصوبوں پر کوئی کام ہوسکا، اور کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام بدستور شدید مشکلات، پریشانیوں اور مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے انفرااسڑکچر اور سڑکوں کا یہ حال ہے اور سرکاری اداروں کی اپنی رپورٹیں حکومت کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کا پول کھول رہی ہیں، مگر ان کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔کراچی کے تما م ادارے اس وقت ایسا لگ رہا ہے موجود ہی نہیں ہیں اور کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کررہا ہے۔ کراچی کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ اس کو ایک مؤثر، جدید ترین انفرااسٹرکچر، جدید ماسٹر پلان، ٹائون پلاننگ اور مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، لیکن گزشتہ نصف صدی سے حکومت کرنے والی جماعتوں نے عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی ساری توجہ اس کے وسائل کو لوٹنے میں لگائی، اور یہاں کے اپنے ہونے کے دعویدار بھی سیاسی مفادات سمیٹتے اور مال پانی بناتے رہے، جس کے نتیجے میں یہ ’’لاوارث شہر‘‘ دنیا بھر میں ’’مسائلستان‘‘ بن کر اُبھرا ہے، اور اس کا ٹھیک ہونا ایک قومی تقاضا اور ضرورت ہے، کیونکہ اس ملک کے مستقبل کا دارومدار اس شہر پر ہی ہے، اور اس کے مسائل کو حل کرنے میں اگر کوئی سنجیدہ ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی شہر کی خدمت کرکے اپنے آپ کو منوایا ہے، اب اقتدار کے بغیر بھی خدمت کررہی ہے، اور لگتا ہے آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی طرف کراچی کے شہریوں کا رجحان زیادہ ہوگا۔