جھوٹی تاریخ نویسی تاریخ کا سب سے بڑا فریب

یورپ جسے بیداری کہتا ہے، وہ مشرقی آزاد خیالی، مشرقی ادب کی بالغ نظری، اور اسلامی دنیا کے علوم وفنون کی دین تھی

یہ تاریخ کا سب سے بڑا فریب ہے۔ پوری دنیا کو پڑھایا جاتا ہے کہ دریافتِ امریکہ اور یورپی بیداری سے مہذب انسانی دنیا وجود میں آئی۔ درحقیقت یہ دہشت گرد، جاہل، قزاق، اجڈ، چور، اور بڑے دھوکے باز لٹیرے تھے۔ یہ مہذب مشرق کا مال و زر لوٹنے نکلے تھے، معصوم اواکس کی زمینوں پر قبضے اور سونا چرانے نکلے تھے، یہ علوم کا سب سے بڑا سرقہ کرنے نکلے تھے، یہ سب جرائم پیشہ تھے اور ہیں۔ تاریخ ازسرنو لکھی جائے گی، جو واضح کرے گی کہ یورپ کی تاریخ سب سے بڑے چوروں کی تاریخ ہے۔
یہ تاریخی چوریاں مسلم اندلس سے شروع ہوتی ہیں، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی چوری سے عراقی نوادرات کی چوری تک چلی آتی ہیں۔ سب سے بڑی چوری تاریخ نویسی میں کی گئی ہے، انسانی تہذیب کی تشکیل وتعمیر اور تکمیل کی صدیاںغائب ہی کردی گئیں، خاص طور پرقرون وسطیٰ کی تحقیر کی گئی۔ کیوں؟ اس کے جواب پر تحریر سمیٹیں گے۔
پہلے بات پہلی چوری پر… یہ یورپ کے پہلے علمی مرکز اندلس سے ہوئی۔ تاریک زمانوں کے یورپ سے حیران پریشان تارکین وطن کا تانتا بندھا ہوا تھا، یورپ کے طالب علم اندلس کی جامعات اور کتب خانوں کا رخ کررہے تھے۔ تحصیلِ علم کررہے تھے، عربی کتابیں اور مسودے ساتھ لے جارہے تھے، انہیں لاطینی میں بپتسما دے رہے تھے، اور اپنے اپنے ناموں سے شائع کررہے تھے، اور ہر اکتشاف اور دریافت خود سے منسوب کررہے تھے۔ یہ عربی سائنسی علوم کا پہلا سرقہ تھا، جس پر آج بھی تحقیق نہ ہونے جیسی ہے۔ لیکن یہ حقیقت محقق ہوچکی ہے کہ یورپ اُس وقت نرا جاہل تھا جب مسلمان حکماء یونانی علوم پر تحقیق کررہے تھے، ترجمے کررہے تھے، اُس میں عظیم اضافے کررہے تھے۔ یہ تفصیل قدرے نمایاں ہوچکی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کافی ہوگا کہ ابن سینا، رازی، اور دیگر کے نام لاطینی میں ڈھال دیے گئے تھے۔ اندلس سے علوم کے ذرائع یورپ میں چھُپائے گئے تھے، اور بڑے پیمانے پرمسودے چُرائے گئے تھے۔
اس چوری کا دوسرا سلسلہ سقوط قسطنطنیہ 1453ء کے بعد چلا۔ بازنطین، شام، اور عراق سے عربی حکماء کی کتابیں اور مخطوطات بڑی تعداد میں روم پہنچے، جہاں سے کوپرینکس اور دیگرکے ہاتھ لگ گئے۔ موید العرضی، ابن شاطر دمشقی، اور دیگر بہت سے علماء کے کام سرقہ کیے گئے۔ یورپ جسے بیداری کہتا ہے، وہ مشرقی آزاد خیالی، مشرقی ادب کی بالغ نظری، اور اسلامی دنیا کے علوم وفنون کی دین تھی۔ مگر یہ سارے احسان… احسان فراموشی کی نذر ہوئے، چوری ہوئے۔
بات صرف مشرق یا اسلامی دنیا میں نقب زنی کی نہیں، یورپی لٹیروں کے قافلے امریکہ اور دیگر زمینوں کی کھوج میں نکلے ہی اُن شاہی فرمانوں پر تھے کہ جن میں سونا اور غلاموں کی وافر کھیپ چُرا کر لانے کے وعدے کیے گئے تھے۔ یورپی بادشاہ اور جہازراں سب چور، ڈاکو ذہنیت سے لتھڑے ہوئے تھے۔ کولمبس بھی سونا چُرانے نکلا تھا، کروڑوں دیسی امریکیوں کا قتل عام کیا گیا، غلاموں اور سونے سے لدے جہاز یورپ روانہ کیے گئے، پھر اس امریکہ کی لوٹ مار کے لیے ہسپانوی، فرانسیسی، برطانوی اور دیگر باہم جنگیں لڑتے رہے۔
سقوطِ قسطنطنیہ کے بعد جب بحر روم پر یورپی گزر دشوار ہوا تو پرتگیزی لٹیرے افریقہ کی ساحلی پٹی سے گھوم کر ہندوستان کی سمندری ریت پر جا اترے۔ کالی کٹ پہلا پڑاؤ تھا۔ جب ہندوستان کا سامان، کپڑا، ریشم، اور مسالہ یورپ کی منڈیوں میں پہنچا تو دیگر چوروں کی رالیں ٹپکنے لگیں، امریکہ کی طرح یہاں بھی قسمت آزمائی شروع ہوئی۔ سلطنتِ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کلکتہ میں پنجے گاڑے۔ پہلے وہاں کے حکمران سراج الدولہ کے خلاف سازشیں بُنیں، غدار تیار کیے، میرجعفر پیدا کیا، اور پھر بنگال کی صنعت و حرفت پر کاری ضربیں لگائیں، تاریخ کا بدترین قحط برپا کیا۔ گلیوں میں جا بہ جا ڈھانچے پڑے تھے، اور کمپنی کے گوداموں میں گندم کی بوریاں بھری پڑی تھیں۔ محدود تجارت کی اجازت پر ان یورپی احسان فراموشوں نے وہ لوٹ مار مچائی، وہ بدعہدی کی، وہ وعدہ خلافی کی، وہ غدر مچایا کہ لغت میں الفاظ ختم ہوگئے۔ سسکیاں، بددعائیں اور آہیں رہ گئیں۔ ہندوستان دنیا کی امیر ترین ریاست تھی، اور ان چوروں کے جانے کے بعد ایک قلاش ریاست بن چکی تھی۔ سرسید جیسی غلام روحیں گوروں کی واحد میراث تھیں۔
ان سارے کالے کرتوتوں کے ساتھ ساتھ یورپی لٹیروں کی مکار ذہنیت نے جھوٹی تاریخ نویسی جاری رکھی۔ دنیا کی یورپ مرکز تواریخ سے کتب خانے، دکانیں، جامعات، اور مسلط زدہ تدریسی نصاب بھر دیے۔ نوآبادیاتی دنیا میں انیسویں اور بیسویں صدی کی نسلیں درست تاریخی شعور سے دور ہی رہیں۔ یونان کے فلسفوں سے تاریخ شروع کی جاتی ہے، اور یورپی بیداری اور صنعتی و سائنسی انقلابات پر ختم کردی جاتی ہے۔ گویا یورپ کے سوا دنیا میں کہیں کچھ تھا ہی نہیں۔ چھٹی صدی سے پندرہویں صدی تک ایک بڑی چور چھلانگ لگادی جاتی ہے۔ امریکہ کی دریافت بھی یوں بیان کی جاتی ہے جیسے وہاں کے دیسی انسان تھے ہی نہیں، حقیقت بھی یہی ہے کہ کولمبس اور واسکو ڈے گاما جیسے قزاق اور لٹیرے امریکہ اور ہندوستان کے باسیوں کو انسان سمجھتے ہی نہیں تھے، وہ یہاں کے مقامی لوگوں کی شرافت کو حماقت سمجھتے تھے، اور اپنے تئیں بڑے چالاک، مکار اور ہوشیار تھے۔ اُس پر مستزاد یہ کہ نصابی کتب میں مشرقی اور اسلامی تاریخ سیاسی، فرقہ وارانہ، اور داخلی جنگ و جدل کی خونچکاں داستان بناکر سرایت کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان فاتحین نے جو کچھ بھی حاصل کیا، مردوں کی طرح میدانِ جنگ میں حاصل کیا۔ کسی نہتی قوم پر شب خون نہیں مارا، کسی مہذب قوم سے بد عہدی نہیں کی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح تاجرکا بہروپ بھرکرچوری نہیں کی، وارن ہیسٹنگ کی طرح بد عہدی کرکے لوٹ مار نہیں کی، مفتوحین کی عزتیں پامال نہیں کیں، ان کے بچے قتل نہیں کیے، اُن کی زمینیں دھوکے سے نہیں ہتھیائیں۔ مسلمان فاتحین بد عہدی، لوٹ مار اور عصمت دری جیسے گھناؤنے جرائم سے پاک رہے۔
یورپی تاریخ نویسی کی سب سے خاص بات عہد قرون وسطیٰ کی تحقیر ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہی وہ دور ہے جس پر تحقیق ’’بڑی بڑی چوریاں‘‘ سامنے لے آتی ہے۔ یہ پانچویں سے پندرہویں صدی عیسوی تک کا دور کہلاتا ہے۔ پانچویں سے ساتویں صدی کی ابتدا تک، کہ جب اسلام کی آمد ہوئی، یورپ کی جہالتیں اور سفاکیاں بدترین حالت میں تھیں۔ اس دور کی یاد یورپ کے لیے سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں، اور بعد کی صدیاں اسلامی تہذیب کی بالادستی، سرپرستی، برتری، اور رہنمائی کی صدیاں ہیں۔ یہ ہزار سال یورپی جہالت سے اسلامی علوم کی ترویج تک، فتوحات تک، اور یورپی تعلیم وتربیت تک… ترقی کا ایسا تسلسل ہے جس پر جتنی تحقیق کی جائے گی، جدید مغرب اور یورپ کی رہنما حیثیت کی حقیقت نمایاں ہوجائے گی، علمی سرقہ کے حقائق سامنے آجائیں گے، اور یہ دعوے ہوا ہوجائیں گے کہ یورپی بیداری سے مہذب دنیا وجود میں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انسانی تہذیب کی ترقی میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر اسلام نہ ہوتا تو یورپی بیداری نہ ہوتی، علم اور تحقیق کی روایت قائم نہ ہوتی۔ نہ عظیم جامعات تعمیر ہوئی ہوتیں، نہ عظیم کتابیں لکھی جاتیں، نہ عظیم فلسفے اور نظریات ہی کہیں پائے جاتے، اور فکری بلوغت کئی صدیوں تک عنقا ہوتی۔ رابرٹ بریفالٹ نے کیا خوب کہا ہے کہ یورپ میں وہ امکانات موجود ہی نہ تھے، جو نشاۃ ثانیہ کی تشکیل کے لیے ناگزیر تھے۔
تاریخ ازسرنو لکھی جارہی ہے، لکھی جائے گی۔ اسلام اور مشرقی تہذیبوں کے علمی، تحقیقی، تعمیری، کلیدی، اور بنیادی کردار کی ازسرنو تعریف و تشریح کی جائے گی، اور تاریخ کی بڑی بڑی چوریاں پکڑی جائیں گی، اور انسان جان لیں گے کہ سچ کہاں ہے۔