۔’’کتوں ‘‘کے نشانے پر آیا ہوا سندھ اور اچھے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے؟۔

ترجمہ:اسامہ تنولی

بروز ہفتہ 27 فروری2021ء کو معروف کالم نگار نثار کھوکھر نے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر زیر نظر عنوان سے تحریر کردہ اپنے کالم میں اہلِ سندھ کو درپیش ایک حد درجہ سنگین مسئلے کی جانب جو توجہ دلائی ہے اُس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……

’’یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ ڈیجیٹل عہد کے سندھ میں ایک دن کے اندر سگ گزیدہ 3 افراد فوت اور 28 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کتوں کے کاٹے کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سندھ یونیورسٹی جامشورو کالونی میں دو برس کی بچی ایمان لیاقت اسپتال میں دم توڑ گئی، لیکن کوئی انتظامی حوالے سے متحرک ہوا اور نہ ہی کہیں اس بارے میں کسی کو کوئی احساس اجاگر ہوسکا۔ سگ گزیدگی کے واقعات تو اب سندھ بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں اور خدشہ ہے کہ اگلے چند روز میں اس نوع کے واقعات میں مزید شدت آئے گی، کیوں کہ آنے والا موسم پاگل کتوں کا موسم کہلاتا ہے۔ سندھ یونیورسٹی کالونی میں معصوم ایمان کے رشتے داروں کی جذباتی کیفیت کو میں بہ خوبی سمجھ سکتا ہوں، کیوں کہ اس طرح کے متعدد واقعات لاڑکانہ میں، مَیں بے حد قریب سے رپورٹ کرتے ہوئے دیکھ چکا ہوں۔ یہ واقعات سندھ میں بہت زیادہ ہوتے ہیں اور انہی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو اُس کے سیاسی مخالفین شدومد کے ساتھ ہدفِ تنقید بھی بناتے رہے ہیں۔ سگ گزیدگی کے واقعات کے سیاسی پہلو پر ہم بعد میں آتے ہیں، لیکن ایک مبنی برحقیقت بات یہ ہے کہ مجھے جب کسی معصوم بچے کو کتے کے کاٹنے کی خبر ملتی ہے تو میرے ذہن میں ایک ماں کی تصویر در آتی ہے۔ شکارپور کی اس ستم رسیدہ اور غریب عورت کو کیا خبر تھی کہ سگ گزیدگی کی بیماری اتنی زیادہ خطرناک ہوا کرتی ہے کہ ایک مرحلے پر بالآخر ڈاکٹروں کے بس میں بھی نہیں رہتا کہ وہ اس بیماری کا کوئی علاج کرسکیں، اور وہ چاہتے ہوئے بھی اس بیماری کا علاج نہیں کرپاتے۔ شکارپور کی اس ماں کی تصویر شاید آپ کو بھی یاد ہوگی جو ویکسین لینے کے لیے کمشنر لاڑکانہ ڈویژن کے دفتر پہنچی تھی، اور کمشنر آفس کے پارکنگ لاٹ ہی میں اس کی آغوش میں اس کا معصوم بیٹا سسکیاں لیتے ہوئے تکلیف کی شدت سے لحظہ بہ لحظہ دم توڑ رہا تھا اور ٹی وی کے کیمرہ مین یہ دردناک منظر ریکارڈ کرنے میں مصروف تھے، اور اُس وقت تک اس سگ گزیدہ بچے کو ویکسین نہیں مل پائی تھی۔ اس المناک واقعے کے بعد ملکی سطح پر یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ 15 برس سے سندھ پر حکمرانی کرنے والی پیپلزپارٹی کے اپنے آبائی حلقے میں سگ گزیدگی کے متاثرین کو ویکسین تک میسر نہیں ہے۔ یہ سانحہ قلوب اور اذہان کو اس قدر زیادہ جھنجھوڑ دینے والا تھا کہ میں کئی راتیں اس کی بنا پر سو تک نہیں سکا تھا، اور یہ ویڈیو کلپ میں ایک حد کے بعد دیکھ تک نہیں پاتا تھا، لیکن کیا کیا جائے کہ اپنے کام کی نوعیت اور مجبوری کی وجہ سے اب اس طرح کے ویڈیو کلپس بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد لاڑکانہ کے اوٹھا چوک کے قریب بگھیو قبیلے کے گوٹھ کے باہر معصوم بچے حسنین کو کتوں نے کاٹ کر شدید زخمی کر ڈالا تھا، جسے تشویش ناک حالت میں کراچی لے جایا گیا، تاہم وہ جانبر نہیں ہوسکا تھا۔ اس معصوم سگ گزیدہ بچے کی المناک موت پر بھی بہت زیادہ سیاست ہوئی تھی، لیکن اس کے والدین مشیتِ الٰہی جان کر اس سانحے پر خاموش ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ حسنین کے واقعے نے اس قدر خوف طاری کردیا تھا کہ اس گوٹھ کے افراد خود بندوقیں لے کر کتوں کو مارنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ حسنین کے واقعے کے بعد صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو بھی تعزیت کرنے اس کے گوٹھ آئی تھیں، جس کے بعد موصوفہ کی یہ نام نہاد تھیوری مشہور ہوئی تھی کہ کتوں کو بجائے مارنے کے خصی کردیا جائے، کیونکہ بہ قول میڈم منسٹر صاحبہ کے: ’’تمام کتوں کو ہم پاگل قرار نہیں دے سکتے، اس لیے پہلے یہ کنفرم کرنا چاہیے کہ کون سا کتا پاگل ہے۔ جو کتا بائولا ہو صرف اسے ہی ہلاک کیا جائے‘‘۔ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی یہ منطق اس قدر عجیب و غریب تھی کہ سبھی دنگ رہ گئے تھے، اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا، اور بعدازاں اس نام نہاد تھیوری پر عمل بھی نہیں ہوسکا تھا۔
حسنین کے واقعے کا عدلیہ نے بھی نوٹس لیا تھا اور چند ڈاکٹر وغیرہ معطل بھی ہوئے تھے، لیکن پھر یہ قصہ پارینہ بن گیا اور اب ازسرِنو نئے قصے اور نت نئی تھیوریز سامنے آرہی ہیں۔
سندھ کی وزارتِ صحت اب بھی کتوں کو خصی کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عدلیہ خصوصاً سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کتوں والے کیس کی مسلسل سماعت بھی کرتی چلی آرہی ہے۔ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے جج صاحب کا سندھ بھر کے میونسپل افسران پر اس قدر زیادہ دبائو تھا کہ کڑیوگھنور کے علاقے میں ایک میونسپل اہلکار معصوم کتوں کو رات کی تاریکی میں زہر کھلانے کے لیے منت سماجت تک کرتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کی یہ مجبوری تھی کہ کتوں کو زہر کھلاتے ہوئے منظر کی ویڈیو ریکارڈ کرکے اُسے عدالت کے سامنے پیش کرنی تھی، اس لیے وہ بار بار کتے کے منہ میں زہر ڈالنے کی کوشش کررہا تھا جسے کتے نے کھانے سے صاف انکار کردیا۔ میونسپل کے ذمہ داران نے برس ہا برس سے کتا مار مہم چلانا بند کررکھی ہے، جس کی وجہ سے اب انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا ہے کہ بائولے کتوں کو مارنے کے لیے انہیں کیا کھلانا پڑتا ہے۔ ایک میونسپل اہلکار تو آوارہ کتوں کو مارنے کے لیے بجائے گوشت کے عدالتی دبائو کے پیش نظر زہر آمیز گلاب جامن لے کر آگیا۔ اب خدا کے اس بندے کو بھلا کون سمجھاتا کہ گلاب جامن کھانا کتوں کو پسند نہیں ہے۔ (اس نوع کی صورتِ حال جابہ جا مختلف شہروں میں پیش آتی رہتی ہے جو بے حد مضحکہ خیز لگتی ہے۔ مترجم) میونسپل اہلکاروں کا یہ حال دیکھ کر سکھر کی عدالت نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ ’’جہاں پر بھی سگ گزیدگی کا کوئی واقعہ پیش آئے، وہاں کے میونسپل ذمہ داران پر اس کا کیس داخل کردیا جائے‘‘۔ جس کے بعد کہیں جاکر کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز میں کھلبلی سی مچ گئی کہ مبادا یہ کیس ان پر داخل نہ ہوجائیں۔ جب پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں سستی دکھائی گئی تو عدالت نے پولیس پر سخت ناراضی کا اظہار کیا، اور جن اضلاع کے ایس ایس پی حاضری اور سماعت پر نہیں آئے انہیں عدلیہ کی جانب سے سندھ بدر کرنے کی دھمکی دی گئی، جس پر غیر حاضر ہونے والے ایس ایس پی حضرات نے سگ گزیدگی کے کیسوں کی سماعت کے موقع پر بہ نفسِ نفیس عدالت پہنچ کر معافی طلب کرکے اپنی گلوخلاصی کروائی۔ اب عدالت کا ایک نیا حکم نامہ سامنے آیا ہے کہ ’’جس علاقے میں بھی سگ گزیدگی کا کوئی واقعہ پیش آئے اُس حلقے کے ایم پی اے کو نااہل قرار دیا جائے، کیوں کہ وہ شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں‘‘۔ عدلیہ کے اس حکم نامے کے بعد مختلف حلقوں میں مختلف طرح کی باتیں زیر گردش ہیں، اور ایم پی ایز کے سیاسی مخالفین دعائیں مانگ رہے ہیں کہ عدالت اپنے احکامات پر عمل درآمد بھی شروع کرے تاکہ اس کا انہیں فائدہ مل سکے۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ اگر سگ گزیدگی کے واقعات کی بنیاد پر سندھ اسمبلی کے ارکان کی نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو چند ماہ کے اندر ہی سندھ اسمبلی خالی ہوجائے گی، کیوں کہ ہر روز ہی سندھ اسمبلی کے ایم پی ایز کے حلقہ ہائے انتخابات میں سگ گزیدگی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ عدلیہ اپنے اس حکم نامے کی تشریح کس قانون کے تحت کرتی ہے؟ یہ خبر تو عدلیہ ہی کو ہوگی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ کے اندر کتوں کی افزائش میں اس خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے کہ اب ہر جگہ اور ہر مقام پر ہی آوارہ کتے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں؟ کیا سندھ میں سگ گزیدگی کے واقعات صرف آج کل ہی رونما ہورہے ہیں؟ یا پھر یہ کتے اور سگ گزیدگی کے واقعات چند عشرے پیشتر بھی اسی طرح سے ہوا کرتے تھے؟ کسی دانا کے بقول: ’’کتا مار مہم ایک میونسپل سطح کا معاملہ ہے جو متعلقہ ذمہ داران کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے اب سندھ کی سطح کا اہم مسئلہ بن چکا ہے‘‘۔ سگ گزیدگی کا معاملہ اب صرف انتظامی نہیں بلکہ عدلیہ کا معاملہ بھی بن چکا ہے، جس کی وجہ سے عدلیہ مستقل بنیادوں پر سگ گزیدگی کے واقعات کم کرنے کے لیے کوشش اور اقدامات کررہی ہے، اور اس حوالے سے مختلف النوع احکامات بھی صادر کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ دوسری جانب محکمہ صحت سندھ کے ہاں کتوں کو خصی کرنے کے لیے کروڑوں روپے پر مبنی پراجیکٹ بھی جاری ہے، لیکن اس تمام تر سعیِ بسیار کے باوجود کیا کتے بھی عوام کو کاٹنے کا سلسلہ بند کردیں گے؟ کسی سینئر بیوروکریٹ نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ میونسپل ذمہ داران کو ملنے والا کتا مار مہم کا بجٹ اگر صرف اور صرف کتوں پر ہی خرچ کیا جائے اور بھوتاروں (وڈیروں) کے بنگلوں پر خرچ نہ کیا جائے تو سگ گزیدگی کے واقعات کم ہوسکتے ہیں۔ لیکن اب لگتا یہ ہے کہ معاملہ میونسپل سطح کے مباحث سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ اس لیے دیکھنا ہے کہ کتا مار مہم کا عدلیہ کون سا حتمی فیصلہ صادر کرتی ہے!۔