تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ

اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو دیکھ کر اور سمجھ کر ہر محب وطن پاکستانی شدید اضطراب کی حالت میں ہے۔ ہر ادارے کو منظم طور پر تباہ کیا جارہا ہے، سیکولر اور لبرل ازم کے علَم بردار پاکستان کے مسلم عوام کی آرزوؤں اور امیدوں کے علی الرغم ایسے فیصلے مسلط کررہے ہیں جو ہمارے دین اور ثقافت سے لگّا نہیں کھاتے۔ بعض اوقات پس پردہ محرکات بعض تحریروں میں آجاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تحریر جو روزنامہ جنگ کراچی میں 26جولائی2018ء کو شائع ہوئی تھی ہم قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں، تاکہ صورت حال کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ اب فائلوں سے نکل کر معاملہ ویڈیو کیسٹس تک پہنچ گیا ہے جو اور بھی خطرناک ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا ہر قسم کی گندگی کا بہتا دریا ہے۔ اللہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین (ادارہ)

”12 اکتوبر 1999ء کو جب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت رکھنے والی جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف جب سپریم کورٹ میں دائر مقدمے میں اُن کے خلاف فیصلہ آنے کے اشارے ملے تو جنرل پرویز مشرف کے مشیر خاص ’’جادوگر‘‘ شریف الدین پیرزادہ نے جنرل پرویز مشرف کو مشورہ دیا کہ چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی اور دیگر ججوں سے پی سی او کے تحت حلف لیا جائے تاکہ غیر آئینی اقدام کو آئینی تحفظ دیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے جسٹس سعید الزماں صدیقی پر دبائو ڈال کر انہیں جی ایچ کیو طلب کیا گیا۔ اس ملاقات میں وزیر قانون عزیز منشی اور شریف الدین پیرزادہ بھی موجود تھے۔ پرویز مشرف نے سعیدالزماں صدیقی پر دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ آپ فوری طور پر پی سی او کے تحت حلف اٹھاکر مجھے آئین میں ترمیم کی اجازت دیں۔ لیکن جسٹس سعیدالزماں صدیقی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا، جس پر جنرل پرویزمشرف طیش میں آگئے اور کہا کہ ’’میں پاکستان کا چیف ایگزیکٹو اور پاک فوج کا سربراہ ہوں، اور انکار سننے کا عادی نہیں‘‘۔ پرویزمشرف کے یہ الفاظ سن کر بظاہر نحیف نظر آنے والے سعیدالزماں صدیقی یہ کہتے ہوئے اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے کہ ’’میں بھی پاکستان کا چیف جسٹس ہوں اور آئین کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھائوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر جسٹس سعیدالزماں صدیقی جب کمرے سے رخصت ہونے لگے تو وہاں موجود شریف الدین پیرزادہ نے سعید الزماں صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اوئے سعید! اگر تم نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تو تمہاری چھٹی ہوجائے گی، لیکن اگر تم ہمارا ساتھ دو گے تو طویل عرصے تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہ سکتے ہو۔‘‘
اُسی شام 4 سینئر جنرل، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ، وفاقی وزیر داخلہ اور جنرل محمود چیف جسٹس ہائوس اسلام آباد پہنچے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان کے ہاتھ میں سپریم کورٹ کے ججوں کی فائلیں تھیں جن پر ریڈ، یلو اور گرین فلیگ چسپاں تھے۔ ریڈ فلیگ فائلیں اُن ججوں کی تھیں جو کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث تھے، یلو فلیگ فائلوں کے حامل ججوں کے خلاف مختلف الزامات کی تحقیقات جاری تھیں، جبکہ گرین فلیگ کی چند فائلیں اُن ججوں کی تھیں جن کا کردار بے داغ تھا۔ اس موقع پر فوجی جنرلوں نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کو بتایا کہ ریڈ اور یلو ٹیگ فائلوں کے حامل تمام جج پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کو تیار ہیں، لہٰذا آپ بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ مگر جسٹس سعیدالزماں صدیقی کسی دبائو میں نہ آئے اور جنرلوں سے کہا کہ وہ یہاں سے تشریف لے جاسکتے ہیں۔ بعد ازاں سعید الزماں صدیقی کو فیملی سمیت نظربند کردیا گیا اور اُسی رات اُس وقت کے سیکرٹری قانون ثاقب نثار نے ججز انکلیو جاکر اُن تمام ججوں سے فرداً فرداً کنفرمیشن حاصل کی جنہوں نے اگلے روز پی سی او کے تحت حلف اٹھانا تھا۔ اگلی صبح جسٹس ارشاد حسن خان نے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان نے نہ صرف پی سی او کے تحت اپنے عہدے کا حلف اٹھایا بلکہ جنرل پرویزمشرف کے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دے کر اُنہیں 3 سال کے لیے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کرنے اور آئین میں ترمیم کے اختیارات بھی دے دیئے، جبکہ دوسری طرف گرین فلیگ فائلوں کے حامل جج صاحبان جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس کمال منصور عالم، جسٹس وجیہ الدین، جسٹس ممنون قاضی اور جسٹس خلیل الرحمٰن خان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی سے میرے بڑے دیرینہ تعلقات تھے جنہیں میں ’’سعید بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ مذکورہ بالا واقعہ سعید الزماں صدیقی نے مجھے اپنی زندگی میں بڑے دکھی لہجے میں سنایا تھا جس کے گواہ اُن کے صاحبزادے افنان الزماں صدیقی ایڈووکیٹ بھی ہیں۔ اسی طرح جسٹس افتخار محمد چودھری جب چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو اپنے مکمل تعاون و حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ ’’جیسا آپ کہیں گے، ویسا ہی ہوگا۔‘‘ اس بات کا اعتراف جنرل پرویز مشرف نے خود اپنے کئی ٹی وی انٹرویوز میں کیا تھا، لیکن جب اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ سامنے آیا تو جنرل پرویز مشرف، جسٹس افتخار محمد چودھری سے ناراض ہوگئے اور 9 مارچ 2007ء کو اُنہیں جی ایچ کیو طلب کیا۔ اس ملاقات میں بھی آئی ایس آئی کے سربراہ اور دیگر سینئر جنرل موجود تھے۔ دوران ملاقات افتخار چودھری کو بتایا گیا کہ خفیہ اداروں کے پاس اُن کے خلاف بہت سا مواد موجود ہے، اس لیے بہتر ہے کہ آپ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ مگر جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے صاف انکار کردیا، جس پر جنرل پرویزمشرف طیش میں آگئے اور افتخار چودھری کے خلاف کچھ نازیبا الفاظ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ بعد میں انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ہدایت کی کہ آپ افتخار چودھری سے نمٹیں۔ اس طرح جسٹس افتخار محمد چودھری کئی گھنٹے تک جی ایچ کیو میں محصور رہے اور اس دوران جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے چیف جسٹس کا حلف اٹھوا لیا گیا۔ افتخار چودھری جب جی ایچ کیو سے باہر آئے تو اُن کی گاڑی سے چیف جسٹس کا جھنڈا اتارا جاچکا تھا جس سے انہوں نے اندازہ لگالیا کہ وہ اب چیف جسٹس نہیں رہے۔
مذکورہ بالا واقعات بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ عدلیہ ہر دور میں اداروں کے دبائو کا شکار رہی ہے، مگر کچھ جج ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آج اس صف میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے قابل احترام جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں فوج کے ایک ادارے پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’یہ ادارہ عدالتی معاملات میں پوری طرح جوڑ توڑ کرنے میں مصروفِ عمل ہے، حتیٰ کہ عدالتی بینچ بھی اِسی ادارے کی مرضی سے لگتے ہیں اور اس ادارے نے چیف جسٹس تک اپروچ حاصل کرکے کہا تھا کہ ’’الیکشن تک نوازشریف اور اُن کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دیا جائے اور نہ ہی جسٹس شوکت صدیقی کو بینچ میں شامل کیا جائے۔‘‘ جسٹس شوکت صدیقی نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ نیب عدالت کی روزانہ کی پروسیڈنگ کہاں جاتی ہیں اور سپریم کورٹ تک کون کس کا پیغام لے کر جاتا ہے۔‘‘
جسٹس شوکت صدیقی کے ادارے پر لگائے گئے مذکورہ الزامات نے کسی ذی شعور شخص کو حیرانی سے دوچار نہیں کیا، کیونکہ پاناما لیکس پر جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد سے اِس طرح کے اشارے مل رہے تھے کہ کچھ ادارے عدالتی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں، تاہم الیکشن سے کچھ روز قبل جسٹس شوکت صدیقی کے انکشافات نے پاکستان کی انتخابی و سیاسی صورت حال میں ہیجان انگیزی پیدا کردی ہے۔ گوکہ اس سے قبل بھی اداروں پر الزامات لگتے رہے ہیں مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہائی کورٹ کے کسی حاضر سروس سینئر جج نے اداروں پر کھل کر الزامات لگائے ہیں۔ ان الزامات میں فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں اس طرح کی مداخلت ڈکٹیٹر کے دور میں کی جاتی تھی، مگر اب یہ جمہوری دور میں بھی ہورہا ہے، جس نے ہر ذی شعور شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ہمارے ادارے عدلیہ میں بھی سرایت کرگئے ہیں جو اُن پر اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کے بقول عدلیہ کی آزادی سلب ہوچکی ہے اور عدلیہ اب بندوق والوں کے کنٹرول میں ہے جو اپنی مرضی کے فیصلے کروا رہے ہیں۔ تاہم آئی ایس پی آر نے جسٹس صدیقی کے اِن الزامات کی تردید کرتے ہوئے چیف جسٹس سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کا پبلک میں آکر الزامات لگانا غلط تھا اور انہیں یہ شکایت چیف جسٹس سے کرنی چاہیے تھی، لیکن میرے خیال میں یہ منطق دینے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جسٹس صدیقی کے الزامات میں چیف جسٹس پر بھی انگلی اٹھائی گئی ہے، مگر چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’’کسی مائی کے لال کی یہ جرات نہیں کہ وہ عدلیہ پر دبائو ڈال سکے۔‘‘ اداروں پر الزامات ایک حساس معاملہ ہے اور بات اب سپریم جوڈیشل کونسل سے بھی آگے نکل چکی ہے، لیکن اگر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اچھی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن کا اعلان کیا جائے، جو مختصر مدت میں رپورٹ منظرعام پر لائے تاکہ دودھ کا ددھ اور پانی کا پانی سامنے آسکے۔
جسٹس شوکت صدیقی کا شمار پاکستان کے معتبر ججوں میں ہوتا ہے، جن کی ایمان داری و حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی اتنے اہم منصب پر فائز کوئی حاضر سروس سینئر جج بغیر ثبوت اتنے بڑے الزامات لگاسکتا ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے یہ الزامات پاکستان کی مسلح افواج اور پوری عدلیہ پر نہیں بلکہ فوج کے ایک مخصوص شعبے اور مخصوص ججوں پر لگائے ہیں، اس لیے پاک فوج اور معزز عدلیہ کو مورد الزام ٹھیرانا مناسب نہیں۔ آرمی چیف سے درخواست ہے کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کروائیں اور الیکشن میں فوج کو مکمل طور پر غیر جانب دار رہنے کی واضح ہدایت کی جائے، کیونکہ فوج کی سب سے بڑی طاقت عوام کی حمایت ہے اور فوج کو اِس سرمائے کی ہر قیمت پر حفاظت کرنی چاہیے۔“