نیشنل کالج میں قدم رکھنے سے پہلے استاذی شاہ خلیل اللہ ندیمؔ غازی پوری (مدنی) نے نصیحت فرمائی کہ جایئے اور قمر ساحری (اردو کے استاد) اور ابو سلمان شاہ جہاں پوری سے فیض حاصل کیجیے۔ اُن دنوں کالجوں میں ہفتۂ طلبہ منانے کی روایت عام تھی، جس میں بزمِ ادب کے زیر اہتمام مذاکرے، مباحثے، بیت بازی کے مقابلے و دیگر دلچسپ پروگرام ہوتے تھے۔ سالِ اوّل کے پہلے ہفتۂ طلبہ میں راقم کو دوسرا انعام ملا جس کا ذکر مجلہ ’’علم و آگہی‘‘ میں موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک اچھا سخن فہم طالب علم قرار دیا۔
کالج کی عمارت میں سبزہ زار سے ملحق ایک بڑی پُروقار لائبریری تھی، جس کے مرکزی ہال میں معروف اہلِ قلم اصحاب کی تصاویر بھی آویزاں تھیں۔ میرا زیادہ تر وقت اسی لائبریری میں گزرتا، جہاں اکثر ڈاکٹر صاحب سے سلام دعا ہوتی۔ اسی دوران مولانا حکیم انجم فوقی بدایونی کی نظم ’’پیغام‘‘ پڑھی تو لگا کہ یہ تو ڈاکٹر صاحب کے دل کی آواز ہے۔ میں نے یہ نظم ایک کاغذ پر لکھی اور ڈاکٹر صاحب کو پیش کردی:۔
دوستو! کرب کا احساس بھلا دو کہ تمہیں
روز اَن گنت مراحل سے گزرنا ہو گا
وقت کا زہر اگر تم سے سہارا نہ گیا
مسکراتے ہوئے یہ گھونٹ اتارا نہ گیا
سُکھ توکیا سُکھ کی رمق کو بھی ترس جائوگے
جبرِ بے نام کی زنجیر میں کس جائو گے
دن وہ دوزخ ہے کہ ہر لمحہ جلائے گا تمہیں
رات آسیب ہے، آسیب ستائے گا تمہیں
لمحہ لمحہ عملی دیپ جلائے رکھنا
جس طرح ہو سکے ماحول بنائے رکھنا
ساری زندگی علم و آگہی کے عملی دیپ جلاتے جلاتے ڈاکٹر صاحب نے 2 فروری 2021ء کو آنکھیں موندلیں۔
تصدق حسین خاں ابو سلمان شاہ جہاں پوری 30 جنوری 1940ء کو شاہ جہاں پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن کے اعزاز کے ساتھ شاہ ولی اللہؒ کے خانوادے کی علمی خدمات کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا محمودالحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا مناظر احسن گیلانی آپ کی محبوب شخصیات میں شامل ہیں۔
ادبی کمیٹی (شعر وسخن) آرٹس کونسل کراچی نے آپ کی یاد میں پُروقار تقریب کا اہتمام کیا۔ کمیٹی کی چیئرپرسن عنبرین حسیب عنبرؔ نے کہاکہ جو معاشرہ اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھتا وہ جلد مٹ جاتا ہے، ہم آرٹس کونسل کے ذریعے اس شہر کو ادب دوست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری ہمارے وہ محسن ہیں جنہوں نے نوجوانوں کی ذہن سازی میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ طبعی زندگی سے زیادہ آپ کی تخلیقی زندگی ہے، اور اداروں سے بڑھ کر آپ کا کام ہے جو ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہاکہ وہ بڑے اہلِ قلم ہی نہیں بڑے انسان بھی تھے، علی گڑھ کالونی میں 1986ء کے فسادات کے دوران آپ کے کتب خانے کو بھی نذرِ آتش کیا گیا، مگر آپ نے اسے لسانی فساد کا نتیجہ نہیں قرار دیا۔ ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے جو کام انہوں نے کیا اُس کا ذکر کم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے نئی نسل کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد کس نے کی اور مشترکہ جدوجہد کے ثمرات کیا ہوتے ہیں۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریے کے بڑے مبلغ تھے۔ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس پر کسی تعصب کے بغیر بحث ہونی چاہیے۔
(نواسی) طیبہ قدسیہ نے کہاکہ وہ میرے نانا نہیں ابو تھے، وہ بہت سادہ مزاج، صابر انسان تھے جو ہر حال میں خوش رہتے۔ کتب خانہ نذرِ آتش ہونے کے بعد ان کی امنگ ختم ہوکر رہ گئی تھی، ان کی صحت بھی متاثر ہوئی۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ چھوٹوں کی بہت عزت کرتے تھے۔
حافظ تنویر (روحِ رواں، کتب خانہ ابو سلمان شاہ جہاں پوری) نے ’’آہ قلم شل ہوگیا اور مؤرخِ ملّت رخصت ہوگیا‘‘ کے عنوان سے اپنے تازہ مقالے کے کچھ حصے نذرِ سامعین کیے: ’’ڈاکٹر صاحب کا موضوع پاک و ہند کا وہ زمانہ تھا جس میں اکابر بزرگوں نے انگریزوں سے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے موضوع کو آزادیِ ہندو پاک تک محدود رکھتے تھے، آزادی کے بعد کی سیاست کو موضوع نہیں بنایا، البتہ آزادی کے بعد بزرگوں نے جو خدمات انجام دیں وہ اس تاریخ کے بھی طالب علم تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے جس مجاہدِ آزادی کی خدمات کو اجاگر کیا، اس کا حق ادا کردیا۔ میں نے مولانا سید ارشد مدنی مدظلہم صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند سے خود سنا ہے کہ ’’آپ کے ہاں تاریخ کو زندہ رکھنے والے ڈاکٹر ابو سلمان صاحب ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی تالیفات کی تعداد 36، تصنیفات 9، مرتبات 91، مدونات 26… کُل تعداد کم و بیش 160 ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمات و فکر کو بلاخوف اجاگر کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی آمدنی کا بڑا حصہ کتابوں میں لگتا تھا، آپ کتابوں کے پبلشر بھی تھے۔ آپ کی لائبریری پاکستان کی گراں قدر لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ آپ نے متعدد ادارے قائم کیے۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلا مقالہ مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی وفات پر لکھا جو 23 دسمبر 1957ء کو ہفت روزہ ’چٹان‘ لاہور میں شائع ہوا۔ آپ نے مولانا مناظر احسن گیلانی کی طالب علمانہ آپ بیتی بھی مجھ سے مرتب کرائی۔ وہ ہفتہ میں ایک دن ہمارے ہاں آتے اور کتب خانے کو دیکھتے، آپ نے ہر مقام پر میری حوصلہ افزائی اور اصلاح فرمائی۔‘‘
۔(بیٹی) توصیف ابو سلمان نے ادبی کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ابو نے تمام سختیاں جھیل کر ہمارے لیے خوشیوں کے پھول کھلائے۔
ڈاکٹر فاروق قریشی (ڈائریکٹر مفتی محمود اکادمی) نے اپنے مقالے کے ابتدایئے میں کہاکہ ’’سچ تو یہ ہے کہ انہیں کوئی کام نہیں آتا تھا۔ انہیں کھانے پینے، اوڑھنے، کہیں آنے جانے اور سیر و تفریح سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے دوستوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کی کوئی مجلسی زندگی نہیں تھی، اور نہ ہی کسی ادبی، سیاسی، مذہبی جماعت سے تعلق تھا۔ 1962ء کے بعد سے وہ کسی سیاسی، مذہبی جلسے جلوس میں شریک نہیں ہوئے۔ مطالعہ کتب اور تصنیف و تالیف کے سوا ان کا کوئی شوق نہیں تھا۔‘‘
پروفیسر شفقت نیشنل کالج میں ڈاکٹر صاحب کے انیس و جلیس رہے، لکھتے ہیں: ’’ہم دونوں نہ ہم مسلک ہیں اور نہ ہم مشرب۔ وہ سرتاپا مولانا و مقتدانا… میں یکسررندی و خراباتی… وہ محتاط و بردبار… میں لاابالی وغیر ذمہ دار۔ انہیں شرفِ امامت حاصل رہا اور میں پچاس برسوں میں نمازی نہ بن سکا۔ میرے اور ان کے ادبی اعتقادات جدا، سیاسی رجحان مختلف، سوچ الگ، اندازِ فکر متضاد… اس کے باوجود دس برس تک انہوں نے مجھے برداشت کیا۔ اختلاف کے باوجود اختلاط سے کام لیا۔ ناگوار کو گوارا بناکر سہتے رہے، اور اپنی قوتِ برداشت سے ثابت کردیا کہ وہ مرنجاں مرنج بھی ہیں اور عالی ظرف بھی۔‘‘
ڈاکٹر سید جعفر احمدنے صدرِ تقریب کی آمد سے قبل صدارت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہاکہ ’’وہ ایک فقیر منش انسان تھے، انہوں نے یکسوئی کے ساتھ علم و ادب کی آبیاری میں اپنا وقت گزارا۔ وہ متحدہ قومیت کے حامی رہے۔ وہ روشن خیال تھے، عصبیتوں سے کوسوں دور تھے۔ انہوں نے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہوئے بڑا علمی کام کیا جو ادارے بھی نہ کرسکے۔‘‘
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہاکہ ’’ان کی ساری زندگی کاغذ اور قلم کے ساتھ گزری، ان کی زندگی میں بے شمار ایسی تحریریں، خطوط ہوں گے جو شائع نہ ہوسکے ہوں، ہمیں ان کی اشاعت کا اہتمام کرنا ہوگا‘‘۔ صدرِ تقریب ڈاکٹر یونس حسنی نے کہاکہ ’’مولوی ذکا اللہ کے بعد آپ کا ہی نام آتا ہے جس نے اتنی بڑی تعداد میں معیاری کتابیں لکھیں۔ اب ان کی غیر مطبوعہ تحریروں کو مرتب کرکے شائع کرنا بہت ضروری ہے۔ افسوس کہ یونیورسٹیوں نے ہی نہیں معاشرے نے بھی ان کی قدر نہیں کی، آج ان سے منسوب بڑی تعداد میں اہلِ علم و ادب موجود ہیں جنہیں ان کے کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔‘‘