امام ابوحنیفہؒ کا ایک خواب

چار رکعت کی نماز میں جب دوسری رکعت پر بیٹھتے ہیں تو صرف التحیات پڑھی جاتی ہے درود نہیں پڑھا جاتا، امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی سے دوسری رکعت کے قعدہ میں التحیات کے بعد اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ تک تک پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے۔ اس کے متعلق امام صاحبؒ کا ایک لطیفہ منقول ہے، اور وہ یہ کہ ایک مرتبہ امام صاحب نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، حضورؐ نے پوچھا کہ:
’’جو شخص مجھ پر درود پڑھے تم اس پر سجدہ سہو کو کیسے واجب کہتے ہو؟‘‘
امام صاحبؒ نے جواب دیا: ’’اس لیے کہ اس نے آپؐ پر درود بھول میں پڑھا ہے‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام صاحبؒ کے اس جواب کو پسند فرمایا۔
(البحرالرائق، ص105، ج2)
(”تراشے“…مفتی محمد تقی عثمانی)

اژدھا

ایک سپیرا دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل بیاباں، کوہ و صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ سخت سردی کے موسم میں پہاڑوں میں سانپ تلاش کررہا تھا۔ اس نے ایک مُردہ اژدھا دیکھا جو بھاری بھرکم اور قوی الجثہ تھا۔ اسے خیال آیا اگر اس مُردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جائوں تو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا۔ لوگوں کے جمع ہوجانے سے میں خوب مال کمائوں گا۔ اژدھا کیا تھا ستون کا ستون تھا۔ سپیرا اسے بڑی مشکل سے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گھسیٹ کر شہر لے آیا۔ غرض سپیرے کے اس کارنامے سے شہر بغداد میں اودھم مچ گیا۔ تُو چل میں چل، جس کے کانوں میں یہ خبر پہنچی کہ سپیرا ایک نادر قسم کا اژدھا پکڑ کر لایا ہے وہی سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوگئے۔
بے پناہ سردی اور برف باری کی وجہ سے اژدھے کا جسم سُن ہوچکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ مُردہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہجوم کی گرمی اور سورج کی روشنی سے اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف سے جس کا جدھر منہ اٹھا اسی طرف کو بھاگا۔ جوں جوں آفتاب کی گرم دھوپ اژدھے پر پڑتی تھی، توں توں اس کے جوڑ جوڑ اور بند بند میں زندگی نمودار ہوتی تھی۔ مارے دہشت کے سپیرے کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اس نے جی میں کہا: غضب ہوگیا، یہ پہاڑ سے کس آفت کو اٹھا لایا۔ اپنے ہاتھوں اپنی موت بلالی۔ ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا غار سا منہ کھول کر اس کو نگل لیا۔ پھر وہ رینگتا ہوا آگے بڑھا اور ایک بلند عمارت کے ستون سے اپنے آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔
درسِ حیات: اے عزیزو! ہمارا نفس بھی اژدھے کی مانند ہے، اسے مُردہ مت سمجھیں۔ ذرائع اور وسائل نہ ہونے کے باعث ٹھٹھرا ہوا نظر آتا ہے… اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غفلت اور دنیاداری کی حرارت سے وہ حرکت میں آجاتا ہے۔
(”حکایاتِ رومیؒ“…مولانا جلال الدین رومیؒ)

کس سے ناراض ہو؟۔

ابوبکر محمد بن محمد ابن انباری (939ء) ایک مشہور محدث ہو گزرے ہیں۔ ایک دفعہ وہ ایک خربوزہ لے کر گھر گئے۔ اتفاق سے وہ پھیکا نکل آیا۔ ان کی بیوی بگڑنے لگی تو پوچھا: ۔
’’تم کس سے ناراض ہو؟ مجھ سے، دکان دار سے، کسان سے یا خدا سے؟ میرے بس میں ہوتا تو بہترین چیز لیتا، دکان دار کو پتا ہوتا تو کبھی پھیکا خربوزہ نہ خریدتا، کسان کا اختیار ہوتا تو شیریں ترین چیز اگاتا، اب صرف خداہی رہ جاتا ہے، کیا تم خدا سے بگڑ رہی ہو؟‘‘
(ماہنامہ چشم بیدار۔ نومبر 2018ء)

ماں

٭جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔(حضورﷺ)۔
٭دنیا کی تمام خوشیاں ماں کہتے ہی مل جاتی ہیں۔ (امام رازی)۔
٭دنیا کی سب سے بڑی ہستی ماں اور صرف ماں ہے۔(مولانا محمد علی جوہر)۔
٭مجھے پھول اور ماں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ (نادر شاہ)۔

زبان زد اشعار

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(داغؔ)
……٭٭٭……
اگر وہ بت کسی حیلے سے میرا رام ہو جائے
تو پوجوں اس عقیدت سے کہ کفر اسلام ہو جائے
(کرم اللہ خان دردؔ)
……٭٭٭……
انکار یوں نہ کر، مرے ہاتھوں سے پان لے
کافر! خدا کے واسطے یہ بات مان لے
(محمد امان نثارؔ)
……٭٭٭……
اس کو ناقدریِ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
(چکبست)
……٭٭٭……
اسلام کے دامن میں بس دو ہی تو چیزیں ہیں
اک سجدۂ شبیری اک ضربِ ید اللٰبی
(وقار انبالوی)