باطنی انقلاب کی ضرورت

معاشرتی اصلاح و انقلاب کی ضرورت کی تکمیل مذہب سے علیحدہ رہ کر ممکن نہیں۔ اس کے لیے مذہب کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ نیشنلزم خالص مغربی چیز ہے، لیکن گاندھی نے ہندوستانی نیشنلزم کے لیے ہندو مذہب کا سہارا لیا۔ اس سہارے کے بغیر وہ ہندو نیشنلزم جس نے ہندوستان کو متحد کر رکھا ہے، پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ گاندھی کی مذہبی تحریک کا کمال تھا کہ اس نے ہندوئوں کی سیاست میں ہندو مذہب کی روح دوڑا دی۔ اس طرح سیاست کو عوام کے لیے ایک مقدس چیز بنایا۔
نہرو اگرچہ لامذہبیت کے قائل تھے، لیکن لامذہبیت کے نام پر جو سیاسی ڈھانچہ وہ چلا رہے تھے اس کی تہ میں ہندوازم کا جذبہ کارفرما تھا۔ نہرو کے بعد اندرا نے بھی اس حقیقت کا احساس کرلیا کہ ہندوستان کے اتحاد اور خود ان کے اقتدار کی بنیاد ہندو جذبات و احساسات پر ہے۔ اس احساس ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ایک کٹّر ہندو دیوی کا روپ دھار لیا۔ لیکن اس طرح کا مذہب جو بدترین قسم کی فرقہ پرستی اور دوسرے فرقوں سے نفرت کی اساس پر ہو، زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ اس لیے جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، ہندوستان میں یہ فرقہ پرستی اور فرقہ دشمنی کا مذہب ختم ہوتا چلا جائے گا اور ہندوستانی معاشرے کے تضادات سطح پر آنا شروع ہوجائیں گے، اور ہندوازم کے نام پر تادیر انہیں دبائے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے اگر ہندو مذہب کا ایسا تصور اپنایا جاتا، جس میں نفرت کے بجائے محبت اور انسان دوستی کا جذبہ ہوتا، تو یہ مذہب ایک مثبت طاقت کے طور پر ہندوستان میں ہمیشہ قائم رہ سکتا تھا۔ لیکن فرقہ پرستی کے زہر نے مذہب کو مذہب نہیں رہنے دیا، یا اُسے نفرت اور فساد کی سیاست بنادیا ہے۔
پاکستانی معاشرے کو معاشرتی، اخلاقی اور باطنی اصلاح و انقلاب کے لیے مذہب کی ضرورت ہے، کیونکہ لامذہبیت کی بنیاد پر اس نوعیت کا انقلاب اس معاشرے میں برپا کرنا ممکن نہیں۔ لامذہبیت کو جبر اور تشدد کے ذریعے پاکستانی معاشرے پر ٹھونسا تو جاسکتا ہے، مگر اس کے سوتے پاکستانی معاشرے کے باطن سے نہیں پھوٹ سکتے۔ لیکن جو مذہب پاکستانی معاشرے کی ضرورت ہے وہ ہندوئوں کی طرح فرقہ پرستی یا نفرت کا مذہب نہیں ہے۔ ہمیں اس منفی بنیاد پر سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اسلام ہندو دھرم کے برعکس ایک مکمل نظام حیات کے لیے جو مثبت اقدار درکار ہیں، ہمیں دے سکتا ہے۔ اور ان اقدار کو معاشرے میں عام کرنے سے وہ باطنی انقلاب آسکتا ہے جو ہماری ضرورت ہے۔
وہ مذہب جس میں دوسرے سے نفرت کا درس ہو، اور اپنے ماننے والوں کی زندگی میں کوئی صحت مند تبدیلی پیدا نہ کرے وہ خدا کا نہیں بلکہ شیطان کا مذہب ہے۔ اس لیے جس طرح پاکستان کا لامذہبیت کی بنیاد پر قائم رہنا ناممکن ہے، ایسے ہی کسی شیطانی مذہب سے بھی اس کی بقا میں کوئی مدد نہیں مل سکتی، اور ایسا مذہب صرف پاکستان اور اہلِ پاکستان کو لے ڈوبنے کا باعث ہوگا۔ ہمیں مذہب کی ضرورت دوسرے سے اظہارِ نفرت، دوسروں سے اپنے خوف پر پردہ ڈالنے یا خوش فہمیوں کی دنیا بسانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ اس کی روشنی میں، رہنمائی میں ہم اپنے معاشرے کو پرانی، خراب اور بیمار حالت سے نکال کر نئی، اچھی اور صحت مند حالت میں ڈھال سکیں۔
مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے گو مذہب کا نام بہت لیا گیا، لیکن مذہب کا یہ اصلی مقصد صرف وہ جماعت حاصل کرسکتی ہے جو مذہب کے نام پر محض ایک پولیٹکل پارٹی نہ ہو، بلکہ ذہنوں اور دلوں کو بدلنے والی ہمہ گیر تحریک ہو۔ اس طرح کی تحریک کو کامیاب کیے بغیر، یا دوسرے الفاظ میں معاشرے کے دل و دماغ میں انقلاب پیدا کیے بغیر، اوپری اور خارجی سطح پر سیاسی تبدیلیاں ہمارا مسئلہ حل نہیں کرسکیں گی۔ یقیناً سیاسی نظام کو بھی صحیح ہونا چاہیے۔ لیکن اچھے سیاسی نظام کے لیے ایک اچھی سوسائٹی یا اچھے معاشرے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جو چیلنج ہمیں درپیش ہے وہ صرف اتنا نہیں ہے کہ ایک اسلامی اور جمہوری سیاسی ڈھانچہ قائم کرنا ہے، بلکہ اصل اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اسلامی اور جمہوری معاشروں کے لیے لوگوں کے دلوں میں زبردست جذبہ اور تڑپ پیدا کریں، تاکہ معاشرے کی جو حالت آج ہے وہ ختم ہوجائے، اور ایسا نیا معاشرہ وجود میں آئے جس میں اسلام اور جمہوریت کی حقیقی خوبیاں موجود ہوں۔ یہ کام صرف سیاسی نعرے بازی سے نہیں ہوگا، اس کے لیے جی جان کی بازی لگانی ہوگی۔ علمی و فکری سطح پر جنگ جیتنی ہوگی۔ تحقیق اور اجتہاد کی قوت بہم پہنچانی ہوگی اور عوام کا دوست اور ہمدرد بن کر اُن کا اعتماد اور اُن کی محبت کو حاصل کرنا ہوگا۔
(”سیاسی، سماجی تجزیے“)

بیاد مجلس اقبال

ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازِ بیاں

جذبات کا تلاطم اقبال کو صدیوں پہلے کی فضائوں میں لے جاتا ہے اور وہ جزیرہ صقلیہ سے کلام کرکے اسلامی تاریخ کے عروج کے دور کی یاد دلاتے ہیں کہ تیری سرزمین پر آج بھی عظمتوں کے وہ نشان باقی ہیں۔ تیرے ساحل نے ان فاتحینِ عالم کے نظارے دیکھے اور قدم چومے ہیں اور تیری بظاہر خاموشی اصل میں بہت پُرجوش پیغام دے رہی ہے کہ یہاں اہلِ اسلام کی عظمتوں کی داستانیں پوشیدہ ہیں۔