مسلمان عقائد اور ثقافت کے خلاف زہریلی مہم سے عوامی سطح پر مسلمانوں کی تہذیب حتیٰ کہ عربی زبان کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے
آخرِکار 16 فروری کو فرانس کی قومی اسمبلی نے مسلم مخالف بلکہ مسلم کُش بل منظور کرلیا۔ تحفظِ توقیرِ جمہوریہ (Supporting respect for the principles of the Republic)کے نام سے منظور ہونے والے اس مسودئہ قانون کے حق میں 347 ووٹ آئے، 151 ارکان نے اس کی مخالفت کی، جبکہ 65 ارکان نے رائے دینے سے گریز کیا۔ فرانسیسی قومی اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد 577 ہے۔ اب یہ قرارداد 30 مارچ کو سینیٹ میں پیش کی جائے گی، جہاں سے منظوری کے بعد صدر میخواں کی توثیق اسے قانون کی شکل دے دے گی۔ ایک سو سولہ سال پہلے یعنی 1905ء میں فرانسیسی پارلیمان نے ریاست اور کلیسا کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بل کے محرک وزیرداخلہ Gerald Darmanin نے بل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نئے قانون کا مقصد مذہبی انتہاپسندی سے ری پبلک کا تحفظ ہے۔ پارلیمان میں بحث کے دوران انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ کچھ مذہبی عناصر فرانسیسی اقدار اور آئین کے متوازی نظام قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اور اگر اس خطرے کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو مملکت کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اسی بنا پر مجوزہ مسودے کو separatistبل بھی کہا جارہا ہے۔ صدر میخواں پہلے Islamic Separatism کہا کرتے تھے، لیکن اب اسلامک کا لفظ ہٹادیا گیا ہے، تاہم وزیر داخلہ کے مطابق اسلامزم (Islamism)کی حوصلہ شکنی مجوزہ قانون کا بنیادی ہدف ہے۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ ریاستی معاملات میں مذہبی مداخلت اور انتہاپسندی سے جُڑے تمام خدشات کا 1905ء کے قانون میں مکمل احاطہ کیا جاچکا ہے۔ اس تاریخ ساز قانون میں انتہائی صراحت سے درج ہے کہ ”ریاستی عمل داری کو یقینی بنانے والے افراد اور ادارے کسی بھی طرح کی مذہبی علامات کو استعمال نہیں کرسکتے“۔ چنانچہ سو سال سے جاری اور نافذالعمل قانون کے ہوتے ہوئے اسی موضوع پر ایک نیا بل نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ اس سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہورہی ہے۔
اس قانون پر گفتگو سے پہلے فرانسیسی مسلمانوں کی تاریخ پر چند سطور… کہ اسلامی دنیا کے کچھ روشن خیال کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے لیے یہ قانون ناقابلِ قبول ہے تو وہ فرانس چھوڑ کیوں نہیں دیتے! ان لوگوں کا خیال ہے کہ فرانس میں آباد مسلمان پاک و ہند یا عرب ممالک کے تارکین وطن ہیں۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ فرانس میں آباد مسلمانوں کی تعداد 60 لاکھ یا کُل آبادی کا 5 فیصد ہے۔ یہاں افریقیوں کی آمد کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا جب افریقہ کے ساحلوں سے ہزاروں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کر یہاں لایا گیا۔ افریقہ کے ساحلوں سے غلام پکڑنا باقاعدہ ایک تجارت تھی۔ یہ افریقی مویشیوں کے ”گلّوں“ کی طرح ہالینڈ لائے جاتے، جہاں غلاموں کی منڈیاں سجتی تھیں۔ اس گھنائونے کاروبار کوAtlantic Slave Trade کا نام دیا گیا۔ منڈی لائے جانے والے زیادہ تر غلام تو ”نئی دنیا“ یا امریکہ روانہ کردیے گئے، لیکن فرانس، بیلجیم اور ہالینڈ میں بھی ان تنومند غلاموں کی مانگ تھی۔ خیال ہے کہ سیرالیون، گبون اور شمالی افریقہ سے ایک لاکھ غلام پکڑ کر فرانس لائے گئے۔
اُس وقت فرانس اتنا مضبوط نہ تھا کہ دوسرے ملکوں پر قبضہ کرتا۔ جب تک عثمانی بحریہ مضبوط و مؤثر رہی بحرِ روم میں یورپی اقوام کو پَر مارنے کی ہمت نہ تھی، لیکن 1800ء میں سلطنت کے زوال کا آغاز ہوا تو فرانسیسی بحریہ نے بحر روم میں گشت شروع کردیا۔ فرانس گندم، زیتوں اور دوسری غذائی اجناس الجزائر سے درآمد کرتا تھا، جو اُس وقت ترک خلافت کا حصہ تھا۔ روایتی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلافتِ عثمانیہ اپنے فرانسیسی دوستوں کو ادھار مال فراہم کرتی تھی۔ جب ادھار کی رقم حد سے بڑھ گئی تو عثمانیوں نے ادائیگی کا تقاضا شروع کردیا، لیکن فرانس اسے وعدئہ فردا پر ٹالتا رہا۔ مجبوراً ترکوں نے ”ادھار بند ہے“ کا نوٹس جاری کردیا، اور سامان لینے کے لیے آنے والے فرانسیسی جہازوں کو الجزائر کی بندرگاہ سے خالی لوٹا دیا گیا۔ چوری اور سینہ زوری کہ فرانس کے بادشاہ چارلس دہم ترکوں کی اس ”حرکت“ پر سخت مشتعل ہوگئے۔ واضح رہے کہ ادھار ایک یا دوما ہ کا نہ تھا بلکہ فرانس دمڑی دیے بغیر 31 سال سے ادھار مال خرید رہا تھا۔
اُس وقت تک ترک سلطنت کمزور ہوچکی تھی، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے16 مئی 1830ء کو فرانس کے 103 جنگی جہاز الجزائر پر حملہ آور ہوئے۔ ترک فوج کے لیے دفاع مشکل تھا، اور جلد ہی فرانسیسیوں نے پورے الجزائر اور تیونس و مراکش کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا۔ اس دوران فرانسیسیوں نے عرب ترک نفرت کے بیج بوئے اور کچھ ضمیر فروش الجزائری، ترکوں کے مقابلے میں فرانس کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے، جنھیں فوجی تربیت دے کر ”حرکۃ“ کے نام سے نیم فوجی دستہ تشکیل دے دیا گیا۔ حرکہ کا کام مقامی حریت پسندوں کی جاسوسی اور شب خون تھا۔ حرکیز کی مدد سے فرانس نے قبضے کو مستحکم کرلیا اور 1848ء میں الجزائر کو سلطنت فرانس کا حصہ بنادیا گیا۔ وفاداری کے انعام میں حرکیز کو فرانسیسی شہریت دے دی گئی اور ان سپاہیوں نے اپنے بال بچوں کو حفاظت کے لیے فرانس بھیج دیا۔ جلد ہی تحریک آزادی شروع ہوئی۔ حریت پسندوں کا اوّلین ہدف حرکی غدار تھے لیکن بھاری تنخواہ اور مراعات کی بنا پر حرکیز کی تعداد بڑھتی رہی، اور جب 1962ء میں الجزائر کی تحریک آزادی کامیاب ہوئی تو ایک لاکھ کے قریب حرکی بھی پسپا ہوتی فرانسیسی فوج کے ساتھ فرانس چلے گئے۔ ان لوگوں کو فرانسیسی پولیس میں ملازمتیں دی گئیں۔ وقت کے ساتھ ان کے رشتے دار بھی فرانس آگئے۔ قبضے کے دوران فرانسیسی فوج نے جو بہیمانہ تشدد کیا تھا اس کے کفارے کے طور پر بہت سے نوجوان الجزائریوں کو فرانس کے اسکولوں اور جامعات میں داخلے دیے گئے۔
اِس وقت فرانس میں آباد الجزائری، تیونسی اور مراکشی مسلمانوں کی تعداد 45 لاکھ کے قریب ہے۔ دوسرے افریقی مسلمان 5 لاکھ ہیں جو دراصل اُن غلاموں کی اولاد ہیں جنھیں یورپ کے وحشیوں نے ان کے گلی محلوں سے شکار کیا تھا۔ یعنی 84 فیصد مسلمان پکڑے ہوئے غلاموں اور حرکیز کی اولاد ہیں جن کی کئی نسلوں نے فرانس میں جنم لیا ہے۔ امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ محمد انور قرقاش جیسے روشن خیال، فرانسیسی مسلمانوں کو ”پاس کر یا برداشت کر“ کا مشورہ دے رہے ہیں، وہ ذرا بتائیں کہ کون سا ملک فرانسیسی مسلمانوں کو قبول کرے گا؟ اور یہ لوگ اپنا ملک کیوں چھوڑیں؟
ہم اسی زمیں کی ہیں خاک سے
یہیں خاک اپنی ملائیں گے
جناب قرقاش کا مشورہ سن کر ہمیں چند سال پرانی بات یاد آگئی۔ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو تہِ تیغ اور ہزاروں معصوم بچیوں کو بے آبرو کرنے کے بعد برمی فوج نے پچیس لاکھ مسلمانوں کو مویشیوں کی طرح ہنکا کر بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچا دیا۔ جب وزیراعظم حسینہ واجد نے ملک کی سرحدیں بند کردیں تو محترمہ سان سوچی نے بہت ڈھٹائی بلکہ بے شرمی سےکہا ”ہم نے تو ”بنگالیوں“ کو بحفاظت ان کے ملک کی سرحد تک پہنچادیا لیکن بنگلہ دیش نے اپنے شہریوں پر سرحدیں بند کردی ہیں“۔ محترمہ نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ ڈھاکہ پر دباؤ ڈال کر سرحدیں کھلوائے۔
فرانسیسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ قانون کا مقصد ہر فرد کو فرانسیسی معاشرے میں ”عملاً“شامل کرنا ہے۔ قانون کے مصنفین نے بہ کمالِ مہارت بہت سے ایسے نکات بھی اس میں شامل کردیے ہیں جن پر کسی کو اعتراض نہیں، مثلاً بالجبر نکاح، شادی سے پہلے کنوارے پن کا ٹیسٹ، کثرتِ ازدواج پر پابندی وغیرہ۔ بل کے مخالفین نے وزیرداخلہ کو توجہ دلائی کہ یہ قوانین تو پہلے سے نافذ ہیں جن پر آج تک کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اسی طرح عبادت گاہوں میں انتہاپسندی کی اشاعت یا خطبے کے دوران دوسرے ملکوں کی حمایت یا مذمت پر پابندی انتہائی مبہم نکات ہیں۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ فلسطین یا سنکیانگ میں ہونے والے مظالم پر آواز نہیں اٹھائی جاسکتی؟ اگر ایسا ہے تو کہاں گئی آزادیِ اظہار رائے؟
قانون میں کہا گیا ہے کہ تمام لسانی، مذہبی و ثقافتی طبقات کے لیے ملک کے سیکولر تشخص کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ تمام مذہبی تنظیموں کو لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ ”فرانس کی لبرل اور روشن خیال اقدار“ کو تسلیم کرتی ہیں۔ ایسی تنظیموں اور عبادت گاہوں کی نگرانی کو ضروری قرار دیا گیا ہے جو ”انتہا پسندانہ عقیدے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں“۔ اگر کسی مذہبی رہنما کے متعلق پتا چلا کہ وہ فرانسیسی اقدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے معزول کیا جا سکے گا۔ ان شقوں کو متعصب عناصر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ سارا قانون انتہاپسندی کی مذمت سے بھرا پڑا ہے لیکن کہیں بھی انتہا پسندی کی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ ایک وقت ترکی میں لائوڈاسپیکر پر سورہ اخلاص پڑھنا انتہا پسندی تھی، کہ اس سے مسیحیوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔
قانون کے تحت تین سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو گھر پر دی جانے والی تعلیم کے نصاب کی منظوری ضروری ہے۔ مساجد کے ساتھ گھروں پر بھی ناظرہ قران کی تعلیم کے لیے باقاعدہ اجازت لینی ہوگی۔ محلوں میں قائم مکتب اسکول کے ساتھ خواتین نے محلے کی بچیوں کو ایک جگہ بلاکر قران پڑھانے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ اب غیر قانونی تصور ہوگا۔
نجی کاروبار، دکانوں اور کھیل کے مراکز (اسپورٹس کلب) میں بھی سیکولرازم کے اصولوں کا احترام یقینی بنانا ہوگا۔ یعنی کوئی خاتون اپنی نجی دکان پر بھی اسکارف نہیں اوڑھ سکتی۔ اسی طرح مسلم کمیونٹی اسپورٹس کلب کے تالابوں میں بھی خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ وقت مقرر کرنے پر پابندی ہوگی، جس کی خلاف ورزی پر پانچ سال قید اور 75 ہزار یورو جرمانہ ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم ژاں کیسٹکس مُصر ہیں کہ یہ قانون اسلام کے خلاف نہیں۔ لیکن بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے پر پابندی کو اور کیا نام دیا جاسکتا ہے!۔
دلچسپ بات کہ دائیں بازو کی تنظیمیں ان اقدامات کو ناکافی قرار دے رہی ہیں۔ نیشنل ریلی پارٹی کی سربراہ میرین لاپن کا کہنا ہے کہ قانون بہت نرم ہے اور حکومت نے اسلامی انتہاپسندی کو نشانہ بنانے کے بجائے اسے عام بناکر سب لوگوں کی آزادی سلب کرلی ہے۔ پارٹی کے نائب صدر جورڈن بردیلا نے شکوہ کیا کہ یہ تیر بہدف نہیں، بس کارروائی ڈالنے والی بات ہے۔ ریلی پارٹی سینیٹ میں بحث کے دوران ترمیمی بل پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سیکولر و ترقی پسند اسلام کے ایک داعی اور فائونڈیشن فار اسلام آف فرانس کے سربراہ بلغالب بن شیخ فرماتے ہیں کہ یہ بل ہے تو غیر منصفانہ، لیکن انتہا پسندی کے سدباب کے لیے ضروری ہے۔
اسلام کے حوالے سے فرانسیسی اور چینی حکومت کے اقدامات، فلسفے، طریقہ کار اور دلائل میں گہری مماثلت دکھائی دے رہی ہے۔ چینی حکومت کا سرکاری مؤقف بھی یہی ہے کہ ان کے اقدامات کا مقصد مسلمانوں کو قومی دھارے میں لانا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ چینی ثقافت کا فروغ ترجیح اوّل ہے اور اسے مذہبی عقائد پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا خیال ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے ذکر سے قوم تقسیم ہوتی ہے، لہٰذا لباس، اکل و شرب جیسے معاملات میں ساری قوم کو ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ کچھ ایسا ہی فلسفہ فرانسیسی قانون کی پشت پر کارفرما ہے کہ مسلم بچوں کے لیے قرآن کی تعلیم نصاب کی تقسیم کے مترادف ہے۔ اسی طرح عوامی مقامات پر اسکارف یا ساحل سمندر اور نہانے کے تالابوں پر مسلمان اور غیر مسلم خواتین کے مختلف لباس سے قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہے۔
معاملہ صرف قانون کا نہیں، بلکہ مسلمان عقائد اور ثقافت کے خلاف زہریلی مہم سے عوامی سطح پر مسلمانوں کی تہذیب حتیٰ کہ عربی زبان کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ گزشتہ دنوں الجزیرہ کی ایک مراکشی نژاد صحافی حفصہ علامی نے بتایا کہ چند روز قبل وہ بس میں سفر کررہی تھیں کہ ان کی ایک عرب سہیلی کا فون آیا، جیسے ہی حفصہ نے اپنی دوست سے عربی میں بات شروع کی، ساتھ بیٹھی فرانسیسی خاتون سخت مشتعل ہوگئی اور اس نے حفصہ کو حقارت سے دہشت گرد اور پناہ گیر کہا۔ معاملہ اتنا بڑھا کہ ڈرائیور نے بس روک کر پولیس کو طلب کیا۔ حفصہ اسکارف کے بغیر جدید ترین مغربی لباس میں تھی۔ پولیس افسر نے بھی حفصہ سے کہا کہ عرب ثقافت ذہنی پسماندگی کی علامت ہے، جب تم فرانس میں ہو تو فرانسیسی ہی بولو۔ حفصہ کا خیال ہے کہ بدترین پروپیگنڈے کے نتیجے میں فرانسیسیوں میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ مسلمان جاہل اور غریب پناہ گزین ہیں۔ اویغور مسلمانوں کو بھی عربی الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں، حتیٰ کہ ملاقات کے دوران سلام کے بجائے چینی زبان میں تہنیت اور استقبالی جملے کہنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔
یہ بات بالکل درست کہ قانون میں کہیں بھی اسلام یا مسلمانوں کا نام نہیں لیا گیا، لیکن سماجیات کے فرانسیسی علما خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس قانون کے نتیجے میں دیوار سے لگے مسلمان اجنبیت اور معاشرتی بیگانگی کا شکار ہوں گے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومتی عُمّال مسلمانوں کو ایک عام شہری کے بجائے اجنبی اور درانداز کے طور پر دیکھیں گے۔ مسلمان ہونا جرم بن جائے گا جس کے نتیجے میں مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے گریز کریں گے۔ فرانسیسی دانش وروں کا خیال ہے کہ فرانسیسی مسلمانوں کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں۔ اس قانون کے بعد یہ لوگ آزادانہ گھومنے پھرنے میں خوف محسوس کریں گے اور سماجی سرگرمیاں اپنے محلوں تک محدود کردیں گے، جس سے نسل پرست اور انتہا پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
اس ساری صورت حال پر پیرس میں مقیم ایک پاکستانی دانشور ڈاکٹر اسد الرحمان نے بڑا شاندار تبصرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ”میں اب تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ ژاں پال سارتر(Jean-Paul Sartre)، روسو (Rousseau)، والٹیئر(Voltaire)، البرٹ کامیو (Albert Camus)جیسے دانش وروں اور روشن خیالوں کے ملک میں سیکولرازم اتنا سخت گیر کیسے ہورہا ہے! دوسرے فرانسیسی دانش وروں کے تجزیوں سے اتفاق کرتے ہوئے جناب اسد الرحمان نے کہا کہ بظاہر تو اس قانون کا مقصد مسلمانوں کی معاشرے سے علیحدگی کو ختم کرنا ہے، لیکن اس کےلیے جوبھونڈاطریقہ کار تجویز کیا گیا ہے وہ فرانسیسی معاشرے اور مسلمانوں کے درمیان حائل خلیج کو مزید بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ (حوالہ بی بی سی)
علمائے سیاست کا خیال ہے کہ صدر میخواں اور ان کے اتحادی اپنی ڈوبتی نیّا کو سہارا دینے کے لیے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنارہے ہیں۔ پورے یورپ کی طرح فرانس بھی کساد بازاری کا شکار ہے، نامراد کورونا نے صورتِ حال کو مزید خراب کردیا ہے، خوش و خرم و خوشحال پیرس کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور سہولیات میں کمی نے لوگوں کو خودغرض اور انتہا پسند بنا دیا ہے۔ دباؤ میں آکر لبرل و ترقی پسند سیاسی قوتیں بھی انتہا پسند اور سخت گیر ہوتی جارہی ہیں۔ جناب میخواں کو اگلے برس انتخابات کا سامنا ہے اور ان کی اصل حریف میرین لاپن نے ”نااہل میخواں“ کے عنوان سے انتخابی مہم شروع کررکھی ہے، جس کی عوامی حمایت میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ فرانسیسی صدر کو اندازہ ہے کہ نیشنل فرنٹ کی اصل قوت مسلم مخالف عناصر ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں مسلمانوں کے خلاف مہم کا بنیادی مقصد میرین لاپن کے ووٹ بینک میں نقب لگانا ہے۔
٭….٭….٭…
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔