غلطی ہائے مضامین پر جمعے کے جمعے وعظ کرنے سے ہماری عادت ایسی بگڑی کہ ہم جمعے کے وعظ کی غلطیاں بھی پکڑنے لگے۔ پچھلے جمعے کو بیرونِ شہر جانا پڑا۔ جمعے کی نماز کا وقت ہوا تو بھاگم بھاگ قریبی مسجد پہنچے۔ وعظ جاری تھا۔ سفید رِیش واعظِ محترم اپنے سر پر سفید صافہ باندھے ایک بار، دو بار یا تین بار نہیں، باربار سامعین کا ’’سَرے تسلیمے خم‘‘ کروائے جارہے تھے۔ ہم سے ہو نہیں پارہا تھا۔
وطنِ عزیز کی دانش گاہوں میں اگر کہیں کچھ اردو باقی رہ گئی ہے تو صرف اُن تعلیمی اداروں میں جو ’’دینی مدارس‘‘ کہے جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان میں سے بہت کم مدارس ایسے ہیں جو صحیح معنوں میں ’’دینی مدارس‘‘ ہوں۔ ان میں سے بیشتر تو ’’مسلکی مدارس‘‘ ہیں۔ تقریباً ہر مدرسہ اپنے طلبہ کو ’’عالمِ دین‘‘ بنانے کے بجائے تھوک پیمانے پر اپنے اپنے ’مسلک کے مولوی‘ تیار کررہا ہے۔ یہ مسلکی مال تیار ہوجائے تو جبہ و دستار میں ملفوف کرکے صارفین کو فراہم کردیا جاتا ہے۔ بقول شاعر:۔
مفتیانِ کرام کو دنیا شمس و ماہ و نجوم کہتی ہے
جس دُکاںپر یہ مال بکتا ہے اُس کو دارالعلوم کہتی ہے
ہم سوچا کرتے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں تیارکیے جانے والے ان مولوی صاحبان کی کھپت آخر کہاں ہوتی ہوگی؟ غلام محمد قاصرؔ کی طرح پچھتاتے ہی رہتے ہوں گے ’’مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘۔ مگر معلوم ہوا کہ ان میں سے ہر نفر ایک نیا ’مسلکی مدرسہ‘ کھول کر اس کی گدی پر بیٹھ جاتا ہے۔ یوں پیداوار بڑھتی رہتی ہے۔ اب تو لوگ مسلک ہی کو مذہب اور مذہب ہی کو دین سمجھنے لگے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ اپنی اس ناسمجھی کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ’’دین‘‘ طرزِ حیات، نظریۂ زیست اور نظامِ زندگی کو کہتے ہیں۔ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 19 کی رُو سے ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔ جب کہ ’’مذہب‘‘ کے لغوی معنی طریقے یا راستے کے ہیں۔ خود دینِ اسلام میں چار مشہور مذاہب حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی ہیں، جو دین پر عمل کرنے کا طریقہ یا راستہ بتاتے ہیں۔ ’’مسلک‘‘ کی اصطلاح ’’سلک‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں ’دھجی‘ جو کپڑے کے کنارے سے پھاڑی جائے۔ سلائی کا دھاگا، ڈوری یا تار۔ کسی چیز کو کسی چیز میں داخل کرنا یعنی منسلک کردینا۔ سوت کے دھاگوںکو چرخے پر لپیٹنا وغیرہ۔ اسی سلک سے ’سلوک‘ بنا ہے، جس کا مطلب ہے کسی کی پیروی میں راستہ چلنا۔ ’مسلک‘ بھی اصطلاحاً کسی ایک پیشوا کی راہ پر اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ پروفیسر عنایتؔ علی خان فرما گئے ہیں:۔
تاکنا جھانکنا مسلکِ میرؔ ہے
یہ بڑھاپے کا آزار اپنی جگہ
مسلک کا اتباع کسی خاص مسئلے یا چند فروعی معاملات میں ہوتا ہے۔ مثلاً برصغیر میں حنفی مذہب اختیار کرنے والوں میں دیوبندی مسلک کے لوگ بھی ہیں اور بریلوی مسلک کے لوگ بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے دانش وروں کی اکثریت اسلام کو صرف ’’مذہب‘‘ ہی کہتی اور لکھتی ہے۔ کیا خبر وہ سمجھتی بھی یہی ہو کہ دیگر مذاہب کی طرح اسلام بھی محض چند عقاید، عبادات اور رسومات کا مجموعہ ہے۔ ورنہ اسلام کے لیے ’’مذہب‘‘ کا لفظ قرآن میں ملے گا نہ حدیث میں۔ دین، مذہب اور مسلک کو اہمیت اور درجہ بندی کے لحاظ سے اپنے اپنے مقام پر نہ رکھنے اور وعظ و خطابت میں شدت و غلو اختیار کرنے کا جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ نتیجہ جناب ضمیرؔ جعفری نے اس شعرمیں بیان کردیا ہے:۔
آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی، آٹھ دس کا سر کھلا
لو! خطیبِ شہر کی تقریر کا جوہر کھلا
اب ہم آتے ہیں ’’سَرے تسلیمے خم‘‘ کی طرف۔ فارسی کی طرح اردو میں بھی یہ قاعدہ ہے کہ اگر دو چیزوں کا باہمی تعلق ظاہر کرنا ہو تو ’کا، کے،کی‘ ہٹا کر صرف کسرہ (یعنی زیر) یا ہمزہ لگا کر یہ تعلق ظاہر کردیا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان کی حکومت کی جگہ ’حکومتِ پاکستان‘، یا دل کا داغ کی جگہ ’داغِ دل‘، اور تاریخ کے اوراق کی جگہ ’اوراقِ تاریخ‘۔ اسے اضافت کہا جاتا ہے۔ اگر پہلا لفظ ہائے مختفی پر ختم ہو یعنی اُس ’ہ‘ پر جس کی آواز پوری نہیں نکلتی تو زیر یا کسرہ لگانے کے بجائے ہمزہ لگایا جاتا ہے۔ مثلاً سایۂ دیوار، ناقۂ لیلیٰ اور خانۂ خدا وغیرہ۔ اگر ہائے ہوز کی آواز پوری نکلے تو وہاں بھی زیر ہی لگایا جائے گا، جیسے راہِ حق، نگہِ شوق یاآہِ سرد۔ پہلا لفظ ’ی‘ پر ختم ہو تو ہمزہ نہیںکسرہ آئے گا۔ یعنی ماہیِ بے آب کو ماہی ٔ بے آب اور آزادیِ وطن کو آزادی ٔ وطن لکھنا غلط ہے۔ پہلا لفظ الف پر ختم ہو تو’ئے‘ لگایا جائے گا، مثلاً فضائے بدر اوردانائے راز۔
اس مختصر وعظ کے بعد اب سنیے اصل وعظ۔ واعظِ محترم ’’تسلیم کے سر‘‘کو، یعنی وہ سر جو قبولیت، منظوری اور اپنی رضا ظاہر کرنے والا سرہوتا ہے، خم کروانا چاہتے تھے، جھکا دینا چاہتے تھے۔ جب کہ’’تسلیمِ خم‘ (تسلیمے خم) کا مطلب ہوا: جھکاؤ یا ٹیڑھے پن کو مان لینا، یا اپنے سر کو اس کی نذر کردینا۔ جیسے اقبالؔ نے جاں نذر کردینے کو بھی زندگی قرار دیا… ’ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی‘… ’سرے تسلیمے خم‘ کا خدا جانے کیا مطلب نکلے گا، مگر وہ مطلب نہیں نکلے گا جومولوی صاحب نکالنا چاہتے تھے۔ شاید ’’اپنا ’سرے تسلیمے خم‘ کرو‘‘ کا مطلب یہ نکل آئے کہ اٹھو اور اپنا سر ٹیڑھے پن کی نذرکردو۔ حاصل کلام یہ کہ یہاں تسلیم کو زیر نہیں لگایا جائے گا۔
بعض لوگ پَس منظر میں بھی اضافت لگا دیتے ہیں۔ ’’پسے منظر‘‘ بولتے ہیں۔ پس کو زیر نہ لگایا جائے تو پس منظر کا مطلب ہوگا پچھلا منظر۔ مثلاً عدالت کا کوئی فیصلہ آجائے تو یہ خبر ہوگی۔ اس فیصلے یا اس خبر کا پس منظر بتانا مقصود ہو تو معاملے کی پوری تاریخ سنائی جائے گی۔ یعنی یہ ہے آج کا منظر اور وہ تھا پچھلا منظر۔ پس منظر وہ منظر ہے جو پیچھے رہ گیا تھا، نظروں سے اوجھل تھا۔ جیسے کسی مرنے والے کے پیچھے رہ جانے والوں کو ’پس ماندگان‘ کہا جاتا ہے، ’پسے ماندگان‘ نہیں۔ اگر پس کو زیر لگاکر بولا جائے تو پسِ منظر ( پَسے منظر) کا مطلب ہوگا منظر کے پیچھے۔ یعنی بظاہر جو منظر نظر آرہا ہے، اس کے پیچھے کا اصل معاملہ۔ اس کیفیت کو ہمارے دوست ریاض عادلؔ نے اس شعر میں بیان کیا ہے:۔
ابھی ہم جاگتے ہیں اور اتنا جانتے ہیں
یہ منظر وہ نہیں ہے جو دکھایا جا رہا ہے
گویا پسِ منظر (یعنی اس منظر کے عقب میں)کوئی اور حقیقت ہے۔کچھ ایسی ہی حقیقت سلیم کوثرؔ نے بھی بیان کی ہے:۔
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے
اضافتیں ایک ساتھ صرف دو جائز ہیں۔ تین اضافتیں ساتھ استعمال کرنے کو عیب گردانا گیا ہے۔ مثلاً ’سرِ وادیِ طورِ سینا‘ لکھنا یا کہنا معیوب قرار پائے گا۔ ’سرِ وادیِ طور‘ لکھا جائے گا یا ’سرِ وادیِ سینا‘۔ مگر ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا کے مضبوط مردانِ کہستانی بھلا ایسی نزاکتوں کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔ وہ تو ایک ساتھ چار چار اضافتوں کا استعمال بھی اپنا شرعی حق گردانتے ہیں۔ خیبر کے ایک خطیبِ خوش گفتار کے ہاں فرزند تولّد ہوا تو اُنھوں نے نومولود کا نام رکھا’’گُلِ میخِ پائے تختِ محمد‘‘۔ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلّم) کے تخت کے پائے میں نصب کیل کا پھول۔ ہمیں یقین ہے کہ خطیب صاحب کے مظلوم سامعین اُسے صرف گُل محمد ہی پکارتے ہوں گے۔ البتہ اتنی سختی سے نصب کردینے پر گلہ بھی کرتے ہوں گے کہ:۔
۔’’زمیں جُنبد، نہ جُنبد گُل محمد‘‘۔
(زمین تو جنبش کرتی ہے مگر گُل محمد اپنی جگہ سے ہلتا بھی نہیں)