جماعت اسلامی کی “جاگ میرے لاہور تحریک” مسائل کے حل کا ذریعہ بنے گی

تحریک کے کنوینر نائب امیر جماعت اسلامی لاہور چودھری محمود الاحد سے خصوصی گفتگو

لاہور کہ اک شہر تھا عالم میں انتخاب… باغ اور باغیچے، اولیائے کرام کے مسکن اس تاریخی شہر کی پہچان تھے… جہاں پھول کھلتے، خوشبو بکھیرتے، پرندے چہچہاتے اور خالقِ کائنات کی حمد بیان کرتے ایک سماں باندھ دیتے تھے۔ مگر ڈیڑھ کروڑ آبادی کا یہ خوبصورت شہر آج مسائلستان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سابق حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ اور موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کے سبب یہاں بے شمار مسائل جنم لے چکے ہیں۔ زندہ دلوں کا یہ شہر اب گندگی اور آلودگی کے حوالے سے دنیا بھر میں پہلے یا دوسرے نمبر کی شناخت رکھتا ہے۔ یہاں پینے کا صاف پانی دستیاب ہے نہ گندے پانی کی نکاس کا معقول انتظام ہے… شہریوں کو ٹرانسپورٹ دستیاب ہے نہ سستی تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولت … رہی سہی کسر بے لگام، جرائم پیشہ عناصر اور قبضہ مافیا نے پوری کردی ہے، جنہوں نے شریف شہریوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں جماعت اسلامی کا دم غنیمت ہے جس نے عوام کی پریشانیوں، مسائل اور مصائب کا احساس کرتے ہوئے امیر ضلع لاہور جناب ذکر اللہ مجاہد کی نگرانی میں ’’جاگ میرے لاہور‘‘ کے عنوان سے تحریک کا آغاز کیا ہے، لاہور جماعت کے نائب امیر چودھری محمودالاحد کو اس تحریک کے کنوینر کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ شہر کے مسائل، ان کے حل کی تجاویز، اور ’’جاگ میرے لاہور‘‘ کے حوالے سے جناب محمودالاحد سے ہونے والی خصوصی گفتگو نذرِ قارئین ہے:۔

فرائیڈے اسپیشل: چودھری صاحب! آپ کی رائے میں لاہور کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
چودھری محمود الاحد: لاہور کا سب سے اہم اور گمبھیر مسئلہ اِس وقت گندگی اور جابجا پھیلا ہوا کوڑا کرکٹ ہے۔ سو سال پرانا بلدیہ کا ادارہ موجود ہے جو شہر میں صفائی کا انتظام کرتا تھا، مگر سابق حکمرانوں نے یہ انتظام بلدیہ سے لے کر دو ترک کمپنیوں کو ٹھیکے پر دے دیا۔ یہ ٹھیکہ دسمبر 2020ء میں ختم ہونا تھا، مگر ان کمپنیوں نے مقررہ مدت سے قبل ہی کام چھوڑ دیا۔ حکومتِ پنجاب اور ضلعی انتظامیہ کے پاس اس ہنگامی صورتِ حال میں کوئی متبادل نظام موجود نہیں تھا، چنانچہ روزانہ چھے ہزار ٹن پیدا ہونے والے کچرے نے چند دنوں میں شہر کی حالت ابتر کردی، اور سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں کوڑا ہی کوڑا اُڑتا دکھائی دینے لگا، جس سے فضا شدید آلودہ اور ماحول ناقابلِ برداشت حد تک گندا ہوگیا، اور آلودگی کے سبب عام آدمی کے لیے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ شہر کا دوسرا بڑا مسئلہ صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔ واسا شہریوں سے بھاری بل تو وصول کرتا ہے، پہلے جو بل دو ماہ بعد آتا تھا، اب وہ ہر ماہ آنے لگا ہے، یوں واسا نے بل دوگنا کردیئے ہیں مگر شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی میں یہ ادارہ قطعی ناکام رہا ہے۔ لوگوں کو گندا اور زہریلا پانی مہیا کیا جا رہا ہے، چنانچہ شہری بوتل بند پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح نکاسیِ آب کا نظام بھی نہایت ناقص ہے، گٹر ابل رہے ہیں، سیوریج اور پینے کے پانی کی پائپ لائنیں آپس میں مل چکی ہیں جس سے ہیپاٹائٹس سی اور دیگر متعدی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح روز بروز نیچے جا رہی ہے، ٹیوب ویل ضرورت سے کہیں کم ہیں، بے شمار بستیوں میں سرکاری پانی کی سہولت موجود نہ ہونے کے باعث ان بستیوں کے مکین کم گہرائی میں بورنگ کرواکر پانی استعمال کرتے ہیں جو انتہائی مضر صحت ہے۔ سابق حکومت نے فلٹریشن پلانٹ لگانے کا جو منصوبہ شروع کیا تھا وہ مکمل ناکام ہوچکا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: شہر میں آمدورفت کے لیے گزشتہ حکومت نے میٹرو بسوں اور اورنج لائن ٹرین کے جو منصوبے خطیر رقم کے خرچے سے شروع کیے تھے، ان کے نتیجے میں عوام کو آمدورفت میں سہولت اور ٹریفک کے نظام میں تو بہتری آئی ہوگی؟
چودھری محمود الاحد: جی نہیں۔ لاہور میں ٹریفک کا نظام بھی تباہی سے دوچار ہے، شہر کے اکثر چوراہوں میں ٹریفک کئی کئی گھنٹے جام رہتی ہے، جو ایندھن اور وقت کے بے پناہ زیاں کے علاوہ شہریوں میں نفسیاتی و جسمانی عوارض کا باعث بنتی ہے۔ روزانہ کم و بیش چالیس لاکھ شہری دفاتر، اسکول، کالج یا کاروباری مراکز وغیرہ تک جانے کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں، جب کہ اورنج لائن ٹرین، میٹرو بس اور لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی چند بسیں اور ویگنیں صرف چھے لاکھ لوگوں کو آمدورفت کی سہولت فراہم کر پاتی ہیں، باقی تیس پینتیس لاکھ لوگ معمولاتِ زندگی جاری رکھنے کے لیے ذاتی موٹر سائیکل یا کار وغیرہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جس سے عام آدمی کا گھریلو بجٹ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے اور سڑکوں پر گاڑیوں کا ازدحام بھی نظر آتا ہے۔ شہر میں کم از کم سولہ سو بسوں کی ضرورت ہے، جب کہ صرف پانچ سو بسیں اور ویگنیں چل رہی ہیں۔ لاہور میں سوا چار لاکھ موٹر سائیکلیں اور ساڑھے چھے لاکھ دوسری گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، ان بارہ لاکھ گاڑیوں میں سے ستّر فیصد سے زائد نجی ٹرانسپورٹ ہے۔ یوں اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس کے باوجود شہریوں کو ٹریفک کے شدید مسائل اور ٹرانسپورٹ کی کمیابی کا سامنا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: لاہور میں اسٹریٹ کرائم کی صورتِ حال کیا ہے؟
چودھری محمود الاحد: شہر میں قبضہ مافیا کا دھندا اور منشیات فروشی کا کاروبار عروج پر ہے، اس کے علاوہ چھوٹی بڑی کوئی آبادی جرائم پیشہ افراد کی وارداتوں سے محفوظ نہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران شہر میں اسٹریٹ کرائم میں پچیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مدینہ کی اسلامی ریاست میں شہریوں کو جان و مال کا تحفظ اور مثالی امن و امان حاصل رہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسلامی ریاست میں ایک خاتون سونا اچھالتی ہوئی جائے گی مگر اُسے کوئی خوف نہ ہوگا۔ مگر ہمارے یہاں عورت تو ایک طرف، مرد بھی محفوظ نہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: لاہور کے شہریوں کو درپیش ان سنگین مسائل کے بنیادی اسباب اور حل کا راستہ کیا ہے؟
چودھری محمود الاحد: شہر کے بنیادی مسائل براہِ راست مقامی حکومت یا بلدیاتی اداروں کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔ ماضی کی حکومت نے شہر میں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر قبضہ مافیا، منشیات فروشوں اور بدعنوان عناصر کی سرپرستی کی اور اقربا پروری کو فروغ دیا۔ اس حکومت کے جانے کے بعد یہ سارا نظام دھڑام سے زمین بوس ہوچکا ہے، جب کہ موجودہ حکمران اپنی نااہلی کے سبب اسے درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ سوچ، اور نہ کوئی منصوبہ ان کے زیرغور ہے۔ جماعت اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ ان مسائل کا حل صاف، ستھرے، بااختیار بلدیاتی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے، مگر موجودہ حکومت بلدیاتی قوانین میں بار بار تبدیلیوں کے ذریعے بلدیاتی انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت نے پہلے بلدیاتی ادارے توڑ کر غلط کام کیا، اب وہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر اور بار بار التواء کے ذریعے غلطی کو دہرا رہی ہے اور مسائل میں بھی اضافہ کررہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی کی ’’جاگ میرے لاہور‘‘ مہم کے مقاصد اور تفصیل کیا ہے؟
چودھری محمود الاحد: جماعت اسلامی نے شہر کے بڑھتے ہوئے مسائل سے متعلق عوام میں شعور اجاگر کرنے اور لوگوں کی مشکلات کے ازالے کے لیے ’’جاگ میرے لاہور‘‘ کے نام سے تحریک کا آغاز کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی لاہور محترم ذکر اللہ مجاہد صاحب نے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی منصوبہ بندی کے لیے شہر کے بلدیاتی نمائندوں اور نوجوانوں پر مشتمل اسٹیرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کا کنوینر مجھے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی ’’جاگ میرے لاہور‘‘ تحریک سے متعلق تفصیلی سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد مہم کی منصوبہ بندی، جائزہ اور پیش رفت کی ذمہ دار ہے۔ کمیٹی نے شہر کے مختلف مسائل کا جائزہ لینے کے بعد صفائی کے اہم ترین مسئلے پر فوری توجہ دی ہے اور انتظامیہ کے متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ حکومت نے ایک صوبائی وزیر کی ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ ایک مقررہ مدت کے اندر شہر کو کوڑے کرکٹ سے مکمل طور پر صاف کرکے زیرو ویسٹ کا ہدف پورا کریں گے، مگر وہ اس کام میں مکمل ناکام رہے ہیں، جس کے بعد ہم نے شہریوں کے ساتھ مل کر مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ہم ڈیڑھ ماہ میں ایک درجن بڑے مظاہرے کرکے متعلقہ حکام اور حکومت کے کارپردازوں کو متوجہ کرچکے ہیں۔ ہم یہ سلسلہ مسلسل جاری رکھیں گے جب تک شہر کو مکمل صاف نہیں کروا لیتے۔ اگلے مرحلے میں ہم اپنی مدد آپ کے اصول پر شہر میں صفائی اور دیگر مسائل کے حل کی جانب بڑھ رہے ہیں، ہم اب ’’جاگ میرے لاہور‘‘ مہم میں شہر کے نوجوانوں، طلبہ اور طالبات کو شریک کرکے منظم انداز میں آگے بڑھیں گے۔ مہم کا ایک باقاعدہ سلوگن، لوگو، جیکٹ اور کیپ تیار کروائے جارہے ہیں، مہم کے رضا کار انہیں زیب تن کرکے جماعت اسلامی کے منظم پروگرام کے تحت شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے عملی میدان میں کام کرتے دکھائی دیں گے۔ ہم متعلقہ اداروں کا پیچھا بھی کریں گے اور مسائل کے حل کا عملی نمونہ اپنے کردار سے بھی لوگوں کے سامنے رکھیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: متوقع بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟
چودھری محمود الاحد: ہم ایک جانب تو جلد از جلد بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے لیے حکومت پر دبائو بڑھا رہے ہیں، تاکہ یہ ادارے وجود میں آکر شہری مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرسکیں، دوسری جانب ہم بلدیاتی انتخابات میں صاف ستھری، باصلاحیت اور کرپشن سے پاک باکردار قیادت عوام کے سامنے پیش کریں گے، اور ہر ممکن طریقے سے رائے دہندگان کو متوجہ کریں گے کہ وہ اب تک تمام جماعتوں کو آزما چکے ہیں اب جماعت اسلامی کو موقع دیں۔ جماعت اسلامی کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے لوگ نہایت دیانت داری اور محنت سے عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ اب عوام کے پاس جماعت اسلامی ہی بہترین متبادل کے طور پر موجود ہے۔ کراچی کی بلدیہ، صوبہ خیبر کی حکومت، سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کے منتخب نمائندوں کا کردار اس بات کا گواہ ہے کہ وہ خوفِ خدا کے جذبے کے تحت عوام کی خدمت، اور ہر طرح کے لالچ اور طمع کے بغیر لوگوں کے مسائل کے حل کی صلاحیت رکھتے ہیں، انہیں کوئی دبائو حق گوئی سے روک سکا ہے نہ کوئی لالچ عوام کی بے لوث خدمت کی راہ میں رکاوٹ بن سکا ہے۔ اس لیے عوام کو اب اس شعور اور احساس کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ جماعت اسلامی کے ’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘۔