سجاد احمد خان نیازی سے پہلے تعارف اُن کے بیٹے فواد نیازی کے ذریعے ہوا جب وہ پیپلز کالونی فیصل آباد میں قیام پذیر تھے۔ فواد اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق تھے اور جمعیت کی رکنیت کے لیے تگ و دو کررہے تھے۔ نیازی صاحب کے ساتھ مختلف میٹنگز اور مشاورتوں میں جب ساتھ شریک ہونے کا موقع ملتا تو عموماً خاموش رہتے یا ذکر و تسبیح میں مشغول ہوتے، لیکن جب اپنی رائے دیتے تو نہایت جچی تلی اور مضبوط رائے دیتے۔ وہ آخر وقت تک دفتر آتے رہے، معمول کے کام نپٹاتے رہے۔
وہ سیدھے اور صاف گو آدمی تھے۔ ان کا جسم گٹھا ہوا، بھاری بھرکم اور قد لمبا تھا، جس سے اندازہ ہوتا کہ وہ اپنی جوانی میں دبنگ شخصیت کے مالک رہے ہوں گے۔ سجاد احمد نیازی کی طبیعت میں نیازیانہ رنگ غالب تھا۔ بے نیازی، اور لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنا ان کی عادت تھی، جسے صاف گوئی کہیں یا بدلحاظی۔ لیکن تحریک کے ساتھ ان کی وابستگی مثالی تھی۔
اس کے کچھ عرصے بعد وہ مرکزِ جماعت منصورہ میں تشریف لائے اور شعبہ امورِ خارجہ میں کام کرنے لگے۔ اور یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب سید منور حسن نائب قیم جماعت ہوکر کراچی سے لاہور تشریف لے آئے تھے۔ سید منور حسن کے ساتھ ان کی دوستی اور تعلق محبت و اخلاص کا تھا، اور تمام عمر وہ اس کا دم بھرتے رہے۔ اسی طرح ظفر جمال بلوچ، عبدالحفیظ احمد اور پروفیسر طیب گلزار کے ساتھ ان کی گاڑھی چھنتی تھی، اور یہ دوستانہ تعلق بھی مثالی اور محبت کا تھا جو آخر دم تک قائم رہا۔ انہیں اپنے دوستوں اور ان کے ساتھ تعلق پر ناز بھی بہت تھا۔ نیازی صاحب کچھ عرصے بعد جب امورِ خارجہ سے مرکزی استقبالیہ میں منتقل ہوئے تو یہاں وہ اپنے دوستوں کی محفل جماتے جہاں خوب گپ شپ ہوتی، چائے یا قہوے کا دور چلتا۔ جب تک وہ استقبالیہ پر رہے ان کی چائے کا چرچا دور دور تک رہا۔ وہ مطالعے کا بھی اچھا ذوق رکھتے اور اس کی قدر کرتے تھے۔ اس دوران انہوں نے اچھا خاصا ذخیرۂ کتب بھی جمع کیا۔ وہ خود بھی مطالعہ کرتے اور اپنے حاصلِ مطالعہ کو دوستوں کے ساتھ شیئر کرتے۔ ان کی لائبریری اور ان کے پاس آنے والے ہر قسم کے رسائل سے مجھے بھی مستفید ہونے کا موقع ملتا۔ میرے لیے وہ انڈیا سے آنے والے رسائل بچا کر رکھتے تھے اور پڑھنے کے لیے دے دیتے۔
نماز کے لیے ہمیشہ اذان کے ساتھ ہی گھر سے نکل پڑتے، جامع مسجد منصورہ میں دائیں طرف صفِ اول میں ان کی کرسی رکھی جاتی، جہاں بیٹھ کر نمازیں پڑھتے یا پھر آنکھیں بند کرکے ذکر و اذکار میں مصروف رہتے۔
کچھ عرصہ قبل ان کا دفتر بطور صدر مسجد کمیٹی مسجد کے ساتھ ملحق حصے میں منتقل ہوگیا تھا۔ فجر کے بعد مسجد کے صحن میں چہل قدمی کرتے اور ساتھ تسبیح بھی پڑھتے۔ عام طور پر مسجد میں ہی رہتے یا مسجد کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے۔ مسجد کے کاموں میں خصوصی دلچسپی لیتے، فنڈز جمع کرتے۔ اس میں انہیں سابق امیر جماعت سید منور حسن اور لیاقت بلوچ صاحب کی جانب سے پورا تعاون حاصل رہا۔ اس کے لیے انہوں نے پلان بنایا، خواتین مسجد کے بڑے ہال تعمیر کرائے، اعتکاف کے لیے الگ ہال بنوائے، مسجد کے لیے قالین بچھوائے، کولر اور ایئرکنڈیشنڈ لگوائے۔ اس کے لیے فنڈنگ اُن کی ذاتی توجہ اور رابطے سے ممکن ہو پائی اور جامع مسجد منصورہ کی توسیع ممکن ہوئی۔ نمازیوں کی سہولت کے لیے کوشاں و متحرک رہتے۔ اخراجات کے معاملے میں کھلے دل کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک کارکن نے بتایا کہ وہ اپنے کام کرنے والوں پر اعتماد کرتے، ایک دفعہ کام ذمے لگا دیتے تو پھر اس میں بار بار روک ٹوک نہ کرتے۔ آزادی سے کام کرنے دیتے۔ بہتری کے لیے کمی بیشی سے آگاہ کرتے۔ ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے۔ کوئی مشکل اور پریشانی میں ہوتا تو اس کی مدد کرتے۔ مسجد میں آتے جاتے، عیدین کے موقع پر انہیں عیدی دیتے، بچوں کے ساتھ خصوصی محبت و شفقت کا مظاہرہ کرتے، پیار کرتے اور پوچھتے کہ عیدی سے آئس کریم لی تھی!