اس دن کا مقصد لسانی و ثقافتی رنگارنگی اور کثیر اللسانیت کو فروغ دینا ہے
لائبریری کلچر پرموشن کے زیر اہتمام لائبریری ڈے کی اہمیت پر خصوصی تقریب
۔21 فروری دنیا بھر میں ’’مادری زبان‘‘ کے حوالے سے اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ جسارت کے مدیر محترم اداریے میں رقم طراز ہیں کہ ’’زبان اظہار کا سب سے اہم ذریعہ ہے، اسے غور و فکر کا صحت مند وسیلہ اظہار قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح اظہار اور تفہیم کی جو سہولت یا آسانی ہمیں اپنی مادری یا قومی زبان میں ہوسکتی ہے وہ کسی دوسری زبان میں کسی طور ممکن نہیں، کیونکہ انسان کی تخلیقی صلاحیتیں جس طرح اپنی زبان سے نکھرتی اور ابھرتی ہیں ،کسی اور زبان میں اس کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اپنی زبان انسان کی سرشت اور خمیر میں ہوتی ہے اور انسان کا اس سے ایک تعلق ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق 1950ء سے اب تک 230 مادری زبانیں ناپید ہوچکی ہیں۔ ماہرین لسانیات کے مطابق ہمارے ملک میں جو علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی، کشمیری اور سرائیکی زبانیں زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ ہندکو، براہوی، گجراتی اور بعض دوسری علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ مادری زبانوں میں آپ کی روایات، تہذیب و تمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ ہر زبان میں پوری تہذیب اور تاریخ کو بیان کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ قومی زبان جن ضروریات کو پورا کرتی ہے وہ علاقائی زبانوں کے دائرۂ کار سے باہر ہیں۔
علاقائی زبانوں کی ترقی قومی زبان اور قومی زبان کی ترقی علاقائی زبانوں کی ترقی ہوتی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے مربوط ہوں تو ایک دوسرے کی طاقت ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میں اردو ان سارے اصولوں پر پورا اترتی ہے یہی وجہ ہے کہ اردو پاکستان کی قومی، علمی، ثقافتی، تہذیبی، مذہبی اور جامع زبان ہے، اس کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد وشمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد یہ تیسری بڑی زبان ہے۔ اردو اور مادری زبان کے پس منظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس کا مقابلہ انگریزی سے نہیں کیا جاسکتا۔ انگریزی بدیسی یا پردیسی زبان ہے، اور ہمارے یہاں آج 73 سال بعد بھی اجنبی زبان ہے جبکہ اردو یہاں کے ہر مقامی زبان بولنے والوں میں اجنبی زبان نہیں ہے۔ یہ ہمارے یہاںکے اکثر لوگوں کی مادری زبان نہیں، لیکن پورے برصغیر بالخصوص پاکستان کے ’’ماحول‘‘ کی زبان ضرور ہے، اور یہی وجہ ہے کہ مذہب، تاریخ، تہذیب اور ماحول کی زبان ہونے کی وجہ سے اردو بھی برصغیر کی تقریباً مادری زبان بن گئی ہے۔“
پاکستان قومی زبان تحریک کی رہنما فاطمہ قمر کہتی ہیں ’’اردو ایک گلدستہ ہے، پاکستان کی مادری و علاقائی زبانیں اس کے خوب صورت مہکتے ہوئے پھول ہیں۔ اس گلدستے نے بہت عمدگی سے پھولوں کو باندھا ہوا ہے۔ پاکستان کے ہر صوبے کا شخص جس نے اسکول کی شکل بھی نہ دیکھی ہو، وہ بھی اردو سمجھ سکتا ہے، اردو بول سکتا ہے کیونکہ اردو ایک ہمہ گیر، جامع زبان ہے، جس میں پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ اردو کے تمام میڈیا چینل پاکستان کے تمام صوبوں کے عوام میں مقبول ہیں۔ مگر انگریزی وہ بھی نہیں بول سکتے جنہوں نے اس کے سیکھنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں۔ انگریزی آج بھی اتنی ہی اجنبی ہے جتنی سو سال پہلے تھی، جبکہ پاکستان میں مختلف مادری زبانیں بولنے والے آپس میں جس زبان میں رابطہ کرتے ہیں وہ اردو ہے۔ ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ کسی بھی خاندان، نسل کی دوسری یا تیسری ’’پیڑی‘‘ میں جاکر مادری زبان تبدیل ہوسکتی ہے مگر قومی زبان ہرگز نہیں۔
اردو پاکستان کی مادری زبان ہے، کیونکہ اردو کی ساخت میں پاکستان کی تمام مادری زبانوں کی آمیزش ہے، اس لیے اردو ہماری قوم کے ڈی این اے میں شامل ہے۔
عالمی سطح پر 23 اپریل ’’یومِ کتاب‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 2000ء میں 21 فروری کو جب کراچی کے چڑیا گھر میں ہاتھیوں کا دن منایا گیا تو ایک علم دوست شخص ابن حسن عظیمی نے لائبریری ڈے منانے کا سوچا اور شہر کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹائون میں اس حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا اور ایک تاریخی جملہ کہاکہ آج میں یہ دن منانے کی ریت ڈال رہا ہوں، آنے والے دنوں میں یہ روایت بن جائے گی۔ ابن حسن عظیمی پابندی سے یہ دن مناتے رہے۔ اور ایک تقریب میں مرحوم پروفیسر انوار احمد زئی نے کہاکہ اب یہ دن سرکاری طور پر کالجز میں بھی منایا جائے گا۔ چنانچہ بحیثیت چیئرمین انٹر بورڈ IBCC کی کانفرنس میں لائبریری ڈے منانے کی قرارداد پیش کی، جسے ملک بھر کے 28 چیئرمینوں نے منظور کیا ۔ اسی حوالے سے کراچی میں گورنمنٹ ڈگری کالج (برائے خواتین) میں شعبہ لائبریری نے کلچر پرموشن کے تعاون سے ایک سیمینار ’’لائبریری ڈے کی اہمیت‘‘ سے منعقد کیا جس میں پہلے لائبریری کے حوالے سے کوئز مقابلہ کرایا گیا جس میں سن رائز پبلک سیکنڈری اسکول، گائیڈ اینڈ لائٹ اسکول، اقرا رئیل اسکول، ایپکس گرامر اسکول، ECT اسکول، پرامیشن اسکول کی طالبات نے حصہ لیا۔ تمام اسکولوں کی طالبات نے سوالوں کے درست جواب دیئے جسے حاضرین نے بہت سراہا۔ سیمینار کے دوسرے حصے میں فاضل مقررین نے کتاب اور لائبریری کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی۔ تقریب کی ابتدا ڈاکٹر عارف نے تلاوتِ کلام پاک سے فرمائی، جبکہ ریاض احمد اور طالبہ جویریہ اکرم نے گلہائے عقیدت پیش کیے۔
تقریب کے روحِ رواں ابن حسن عظیمی نے گزشتہ گیارہ سالہ جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے فاطمہ ثریا بجیا، پروفیسر ملاحت کلیم شیروانی اور خصوصاً ماہر تعلیم مرحوم انوار احمد زئی کی کتاب دوستی اور لائبریری ڈے کے حوالے سے ان کی خدمات پر انہیں بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اورنگی ٹائون میں جو ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے کوئی لائبریری نہیں ہے۔ انہوں نے برسوں قبل 25 کتابوں سے اپنے گھر میں ایک لائبریری قائم کی جو اب ڈھائی ہزار کتابوں پر مشتمل ہے۔ دلاور عظیمی نے ابن حسن عظیمی کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہاکہ ہمیں زندگی میں دو طرح کے لوگ دکھائی دیتے ہیں، ایک وہ جو اپنے لیے کام کرتے ہیں، دوسرے وہ لوگ جو اپنی ذات سے نکل کر معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں۔ خالد زمان شیخ نے کہاکہ وہ جس ادارے سے وابستہ ہیں اس کے 25 کیمپس ہیں جہاں طلبہ و طالبات کے لیے لائبریری کی سہولت موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج اورنگی سے نکلنے والی یہ روشنی پورے ملک میں پھیل رہی ہے اور کتاب اور لائبریری کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مشعل ِراہ بن رہی ہے۔ معراج صدیقی نے کہاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کے ذریعے ہمیں کتاب کی اہمیت بتائی۔ ہمیں کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے مل کر بھرپور جدوجہد کرنا ہوگی۔ کالج کی چیف لائبریرین فرحین محمود نے کہاکہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم ایک ہزار کا برگر تو خرید لیتے ہیں مگر دو سو روپے کی کتاب نہیں خریدتے۔ پرنسپل میڈم عائشہ توقیر نے کہاکہ جو مزہ کتاب پڑھنے میں آتا ہے وہ بہت اہم ہے، کتاب سے پڑھی جانے والی تحریر ذہن میں رہ جاتی ہے، جبکہ گوگل سے ڈھونڈی جانے والی چیز ذہن سے گم ہوجاتی ہے۔
رکن سندھ اسمبلی سید صداقت حسین نے کہاکہ لائبریری ڈے منانے کے حوالے سے میں نے سندھ اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی ہوئی ہے، ہمیں کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے اپنے گھر، اپنے محلے اور اپنے بچوں سے یہ کام شروع کرنا ہوگا۔
ماہر تعلیم، دانشور ڈاکٹر انیس احمد صمدانی نے کہاکہ یہ ایک اچھی کوشش ہے، اس سے پہلے بھی اس دن کے حوالے سے تحریک چلتی رہی ہے، مگر دن پر اتفاق نہ ہوسکا تھا۔
تقریب میں ڈاکٹر محمد یوسف، انوار حسین، مظفر شاہ، آصف پاشا، بہزاد صاحب، ظفر اقبال، منان صاحب، حامد عثمانی، منور علی، توفیق صاحب کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔