اگر اہلِ وطن حکومت کی عدم کارکردگی، نااہلی، بے حسی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے اس کی لاتعلقی کو دیکھتے ہوئے آج یہ تبصرہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘‘ تو کیا وہ اس میں حق بہ جانب نہیں ہیں؟ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھنا چاہیے، اس لیے موجودہ حکمرانوں کی نااہلی پر عوام کا غم و غصہ اور ناراضی بالکل بجا اور درست ہے۔ آج ہمارے ہاں ہر شعبۂ زندگی میں زوال اور انحطاط اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ کس کس بات کا ذکر کیا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے؟ وفاقی اور صوبائی حکومت کی نالائقی کا ایک اہم اور بڑا ثبوت آئے روز معصوم بچوں اور خواتین سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے المناک واقعات بھی ہیں، جنہیں لکھتے اور بیان کرتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ خواہ معصوم بچے ہوں یا پھر خواتین… سب کی عزت اور آبرو خطرے میں دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ ان کی عزت سے کھیلنے والے بدنہاد اور درندہ صفت مجرموں کو قانون کے شکنجے میں کسنے جانے یا سزا کا کوئی خوف درپیش نہیں ہے، اور وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ ہم جتنی بھی قانون شکنی کرلیں، ہماری گرفت کرکے ہمیں سزا دینے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر خوف و خطر سے بے نیاز ہوکر کھل کھیل رہے ہیں۔ سندھ بھر میں باوجود پولیس اور رینجرز کی تعیناتی کے، ہر قسم کی بدامنی کی وارداتیں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ قتل و غارت گری، چوری، قبائلی جھگڑے، کاروکاری کے نام پر بے گناہ خواتین اور مردوں کا قتل، اور اغوا برائے تاوان جیسی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ہم صرف معصوم بچوں اور خواتین سے زیادتی اور ان کے قتل کے سانحات ہی کا جائزہ لیں تو صورتِ حال حد درجہ خراب، سنگین اور دل فگار دکھائی دیتی ہے، اور ہر روز پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آنے والے سانحات دردِ دل رکھنے والے حساس افراد کو بے چین اور مضطرب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایسے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے اور بوجوہ منظرعام پر نہیں آتے۔ جو سانحات منظرعام پر آتے ہیں اُن میں ملوث ملزمان کی اکثریت بھی قانون کی گرفت میں نہیں آپاتی، تاہم المیہ یہ ہے کہ اس طرح کے ہونے والے بہ کثرت سانحات حکومت، انتظامیہ اور پولیس کو جھنجھوڑنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ تمام متعلقہ اور ذمہ دار ادارے معاشرے میں آئے روز رونما ہونے والے ایسے بدنما سانحات کی روک تھام کے حوالے سے مؤثر اقدامات کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بے حسی اور غفلت کی ردا کب اُتار کر پھینکیں گے؟ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دو گھنٹوں میں زیادتی کا ایک کیس، اور ہر آٹھ گھنٹوں میں اجتماعی زیادتی کا ایک کیس منظرعام پر آرہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ محض 20 فیصد کیس ہی رپورٹ ہوپاتے ہیں، جبکہ 80 فیصد کیسوں کا داخلہ (ایف آئی آر) ہی نہیں ہوپاتا اور وہ غت ربود ہوجاتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں پنجاب کے بعد سندھ ایک ایسا بدقسمت صوبہ ہے جہاں پر معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے بہ کثرت واقعات پیش آرہے ہیں۔ حکومت اور قانون سے ملزمان کی بے خوفی کا مظہر ہیں۔ لہٰذا حکومت اس حوالے سے فوری مؤثر اقدامات کرے۔